نگری نگری

مشرقی چین میں چڑیا گھر میں مبینہ طور پر ’جعلی ریچھ‘ کی ویڈیو پھیلنے کے بعد ایک دن میں بیس ہزار لوگ اسے دیکھنے آگئے


Rizwan Tahir Mubeen August 20, 2023
فوٹو : فائل

بھارتی اہل کار پروفیسر کا روپ دھار کر 'مشرقی پاکستان' میں داخل ہوا



بھارت کے بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ایک افسر نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے حکام کی اجازت کے بغیر سرحد پار کرکے 'مشرقی پاکستان' گئے اور وہاں باغیوں کو مدد فراہم کی اور مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جنگ بھی لڑی۔

گذشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی کتاب 'انڈیا سیکرٹ وار: بی ایس ایف اینڈ نائن منتھ ٹو دی برتھ آف بنگلا دیش' (ہندوستان کی خفیہ جنگ، 'بی ایس ایف' اور بنگلا دیش کی پیدائش کے نو ماہ) کے مصنف اشینر مجومدار نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان نے 16 دسمبر 1971ء سے بہت ہی پہلے پاکستان کے خلاف کئی چھوٹی جنگیں جیتیں۔۔۔! بنگلا دیش کے قیام میں 'بی ایس ایف' کے کردار کے حوالے سے اس نئی کتاب میں ایسی بہت سی کہانیاں لکھی گئی ہیں۔

جس میں نہایت تفصیل سے بہت سے واقعات اور کارروائیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 'بی ایس ایف' نے مشرقی پاکستان میں جا کر باغیوں اور جنگجوؤں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی۔ کتاب کے ناشر 'پینگوئن' کے مطابق اس کتاب میں 'بارڈر سیکورٹی فورسز' (بی ایس ایف) کی مکمل دستاویزات اور خصوصی انٹرویو کو شامل کیا گیا ہے۔

کتاب میں سابقہ مشرقی پاکستان کی سرحد پر واقع ہندوستانی ریاست 'تری پور' سے ایک اسسٹنٹ کمانڈر کا بلا اجازت سرحد پار کرنے کا واقعہ قابل ذکر ہے۔ جس کے مطابق26 مارچ 1971ء کو تری پور میں تعینات اسسٹنٹ کمانڈر پی کے گھوش سے ملنے 'عوامی لیگ' کے دو سیاست دان اور ایک 'ایسٹ پاکستان ریلیف' کے اہل کار آئے اور 'صبح پور' کے علاقے میں پاک فوج کے خلاف لڑنے کے لیے ان سے مدد طلب کی۔

پی کے گھوش نے باضابطہ جا کر مدد فراہم کرنے سے انکار کیا، تاہم مدافعت کے تحت پاکستانی اہل کاروں کو اس جگہ پھنسا کر پانی اور خوراک سے محروم کرنے کے منصوبے کی بات کی، لیکن مشرقی پاکستان کے اہل کار نے ان کے باقاعدہ وہاں آنے پر اصرار کیا اور کہا کہ وہ اپنی سابق مادروطن ضرور آئیں، کیوں کہ پی کے گھوش کا خاندان بٹوارے کے ہنگام میں مشرقی پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرنے والوں میں شامل تھا۔

اس کے بعد پی کے گھوش نے چٹاگانگ کالج کے پروفیسر کا روپ دھارا اور وہ 'مشرقی پاکستان' چلے گئے، جہاں انھوں نے دیکھا کہ چھے باغیوں کے پاس صرف تین 303 بندوقیں ہیں، جس میں ہر ایک میں پچاس، پچاس راؤنڈ ہیں۔ انھوں نے طے شدہ منصوبے کے تحت وہاں کے مرکزی پل کو گھیرا اور دو دن کے اندر وہاں آنے والے فوجی دستے کا راستہ روک کر اسے شکست قبول کرنے پر مجبور کر دیا اور پھر انھیں قتل کر دیا۔

اس کارروائی کے بعد انھوں نے لوٹ کر اپنے سینئر لیفٹننٹ کرنل اے کے گھوش کو بتایا، جس پر وہ شدید برہم ہوئے اور انھوں نے پی کے گھوش کو کورٹ مارشل اور فوج سے بے دخلی کی دھمکی دی، لیکن 29 مارچ 1971ء کو کرنل اے کے گھوش کو بتایا گیا کہ ہندوستان نے 'مشرقی پاکستان' کی علاحدگی کی حمایت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے تحت 'بی ایس ایف' کو انھیں مدد فراہم کرنی ہے۔

لہٰذا پی کے گھوش باقاعدہ اجازت کے ساتھ اس دن دوبارہ سرحد پار کرکے مشرقی پاکستان گئے اور وہاں شورش کو ہوا دی۔

کتاب کے مندرجات کے مطابق جنگ کے دوران سرحد کے قریب ہندوستانی فضائیہ کا ایئربیس تباہ ہوا، لیکن بروقت اطلاع ہو جانے کے باعث ہندوستانی فضائیہ نے وہاں سے اپنے لڑاکا طیارے ہٹا کر 'بناوٹی طیارے' کھڑے کر دیے، تاکہ حریف کو اپنا حملہ کام یاب محسوس ہو۔ کتاب کے مطابق 'بی ایس ایف' کے آئی جی اشوینی کمار کی اینٹیلی جینس اطلاعات نے بھی پاکستانی جنگی منصوبوں سے متعلق بہت مدد فراہم کی۔

انھوں نے پاکستان میں ہندوستانی پنجاب سے ہجرت کرنے والے لوگوں سے رابطوں کو استعمال کیا، جو مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ جس کے بعد وہاں خانہ جنگی کے دوران اس 'رابطے' کی براستہ ہندوستان مغربی پاکستان جانے میں بھی مدد کی گئی۔ اشوینی کمار کو اس 'خدمت' کے صلے میں 'پدما بھشن ایوارڈ' دیا گیا۔

اس کتاب میں بھارتی فوج کی جانب سے 'مکتی باہنی' کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے، بلکہ بھارتی فوجیوں کا عام بنگالی شہریوں کا روپ دھار کر پاک فوج سے لڑنے کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے بھی غیر فوجی مسلح اہل کاروں کو لڑنے کے لیے بھیجا ہوا تھا۔

کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 'بی ایس ایف' نے آسام، میگھیالہ، تری پور اور مغربی بنگال کے راستے مشرقی پاکستان کی طرف بُہتیرے خفیہ آپریشن کیے، مکتی باہنی کی مدد اور پاک فوج کی پیش قدمی کو سبوتاژ کیا۔

دوسری طرف عالمی ذرایع اِبلاغ سے رابطے کر کے انھیں اپنی طرف کی صورت حال نشر و شایع کرنے میں بھی مدد فراہم کی۔ ساتھ ہی باغی بنگالی سفارت کاروں اور عملے کی بھی مدد کی اور اپنے قائم کردہ خفیہ ریڈیو کی مدد سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کیے گئے۔

بہ یک وقت 34 جڑواں بچوں کا اسکول میں داخلہ!



رواں ماہ اسکاٹ لینڈ میں اس وقت نہایت دل چسپ صورت حال پیدا ہوگئی کہ جب وہاں بہ یک وقت 34 جڑواں بچوں (17 جوڑوں) نے اپنے اسکول کا آغاز کیا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق اس سے قبل 2015ء میں بھی 38 جڑواں بچوں (19 جوڑوں) کا داخلہ ہوا۔

اس لیے یہ اس نوعیت کا دوسرا بڑا موقع ہے۔ اسکول کی جانب سے جب پہلے دن کی ریہرسل کی گئی، تو ان بچوں میں سے 15 جوڑے شریک تھے اور دو جوڑے غیر حاضر رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2013ء سے اب تک اسکول میں 147 جڑواؤں یعنی ایسے 294 جڑواں بچوں نے داخلہ لیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر سال کی اوسط 13 جوڑے کی بنتی ہے۔

گذشتہ دنوں داخل ہونے والے جڑواں بچوں میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم کئی جڑواں بھائیوں، جڑواں بہنوں کے ساتھ ساتھ جڑواں بہن بھائی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسکول انتظامیہ اسے خود پر والدین کا بھروسا اور خوش قسمتی قرار دیتے ہوئے ان تمام بچوں کے لیے نیک تمنائیں نذر کی ہیں۔

دنیا کا ہر چوتھا فرد پانی کے لیے پریشان،25 ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی!



'ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ' (ڈبلیو آر آئی) کے سامنے آنے والے سالانہ اعداد وشمار کی روشنی میں عالمی سطح پر ہر چوتھا فرد پانی کی کمی کا شکار ہے اور دنیا کے 25 ممالک کے لیے پانی کی کمی کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔

اس وقت شمالی افریقا اور مشرق وسطیٰ میں 83 فی صد آبادی سب سے زیادہ پانی کی کمیکا شکار ہے، جس کا 2050ء تک سو فی صد ہونے کا اندیشہ ہے۔ دنیا کے جن 25 ممالک میں پانی کے لیے سب سے زیادہ خطرناک صورت حال ہے۔

ان کی ترتیب شدت کے لحاظ سے کچھ اس طرح بتائی جا رہی ہے۔ بحرین، سائپریس (مغربی ایشیا)، کویت، لبنان، عُمان، قطر، متحدہ عر ب امارات، سعودی عرب، مقبوضہ فلسطین/ اسرائیل اور مصر اس فہرست کے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں۔

اس کے بعد لیبیا، یمن، بوستوانا (براعظم افریقا)، ایران، اردن، چلیّ (براعظم جنوبی امریکا)، سان مرینو (یورپ)، بیلجیم، یونان، تیونس، نمیبیا (افریقا)، جنوبی افریقا، عراق، بھارت اور شام کو بھی پانی کے حوالے سے شدید خطرناک 25 ممالک میں گنا گیا ہے۔

'ڈبلیو آر آئی' کی سالانہ روداد کے مطابق دنیا کی آدھی آبادی کم از کم سال میں ایک بار ضرور پانی کی شدید قلت کو جھیلتی ہے، خدشہ ہے کہ 2050ء تک ایسی زحمت اٹھانے والی آبادی پوری دنیا کا 60 فی صد تک ہو جائے گی۔

اس صدی کے نصف ہونے تک دنیا کی ایک ارب آبادی کو مسلسل گرم ہوتے ہوئے موسم میں سخت ترین پانی کی کمی دیکھنا پڑے گی، زمین پر رہنے والوں کے حالیہ طور طریقے زمین کو اس صدی کے اختتام تک 2.4 ڈگری تک مزید گرم کر دیں گے، جو انسانیت کے لیے سخت خطرہ ہے، پانی کی کمی کے سبب توانائی اور غذا کی مقدار بھی ناکافی ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں صحت اور دیگر بحران بھی سر اٹھانے لگیں گے۔

جب بھی کہیں پر دست یاب پانی کے مکمل ذخیرے ہی کو استعمال کیا جانے لگتا ہے، تو اس کے نتیجے میں زیرزمین پانی کی سطح کم ہونے لگتی ہے، دریا، جھیلیں اور دیگر آبی ذخائر خشک ہونے لگتے ہیں، جیسا کہ مشرق وسطیٰ میں عراق اور ایران میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس سے نہ صرف وہاں زراعت متاثر ہو رہی ہے، بلکہ توانائی کی پیداوار میں بھی کمی رونما ہو رہی ہے۔ 'ادارہ' کہتا تھا کہ کم سے کم قومی پیداوار کا ایک فی صد پانی کے تحفظ کے لیے صَرف کیا جانا چاہیے، لیکن یہ سب سیاسی استقلال اور معاشی پختگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

چین کے چڑیا گھر میں 'جعلی ریچھ' کا ماجرا



مشرقی چین میں چڑیا گھر میں مبینہ طور پر 'جعلی ریچھ' کی ویڈیو پھیلنے کے بعد ایک دن میں بیس ہزار لوگ اسے دیکھنے آگئے۔ ویڈیو میں اس ریچھ کے لمبے قد اور دو پیروں پر کھڑے ہونے کے انداز نے لوگوں کو حیرت اور شک کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا کر دیا تھا۔

چینی سوشل میڈیا پر اس واقعے کی شہرت کے بعد چڑیا گھر آنے والے شائقین میں واضح طور پر اضافہ ہوگیا، جو اس کی کھوج میں تھے کہ یہ واقعی کوئی ریچھ ہے یا چڑیا گھر کے عملے کا کوئی فرد ریچھ کا لبادہ اوڑھ کر کھڑے ہوئے ہے۔

دراصل ایک ہفتے قبل اس ریچھ کی ایک ویڈیو 'سماجی ذرایع اِبلاغ' پر لاکھوں لوگوں نے دیکھی تھی، جس میں وہ روایتی ریچھ سے نسبتاً اونچے قد میں اور دو پیروں پر کھڑا ہوا تھا، جس پر لوگوں نے اس کے کھڑے ہونے اور جسمانی لچک پر تعجب کا اظہار کیا تھا۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی انسان ہے، لیکن اسے اندازہ نہیں کہ اس کا ریچھ کا لبادہ اس کے ناپ کا نہ تھا، جب کہ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ وہ ویڈیو دیکھ کر اب صرف یہ دیکھنے آئے ہیں کہ یہ ریچھ حقیقتاً کیسا لگتا ہے۔

ایک شائق نے تو بتایا کہ وہ پوری رات کا سفر کر کے صرف یہ ریچھ دیکھنے یہاں آیا ہے۔ چین کی ایک مقامی سوشل میڈیا ویب سائٹ کے صارف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ریچھ کے بہ جائے کوئی انسان ہے، تو اُسے اس خصوصی کارکردگی پر آسکر ایوارڈ ضرور ملنا چاہیے۔

دوسری طرف چڑیا گھر حکام نے ریچھ کے روپ میں کسی انسان کے ہونے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ چڑیا گھر سرکار چلاتی ہے، پھر چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ریچھ کی بھاری 'کھال' پہن کر اتنی دیر تک رہ سکے۔

ریچھ کا دو پیروں پر کھڑے ہونا اور اس کی غیر روایتی بدن بولی کے حوالے سے چڑیا گھر والوں کا کہنا تھا کہ اگر ریچھ کی حیران کردینے والی صلاحیت اور طاقت کو سامنے رکھیے، تو یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

ریچھ کی اونچی قدوقامت میں بھی کوئی ایسی نئی بات نہیں ہے، مذکورہ ریچھ بڑے ریچھوں میں شمار ہوتا ہے جو 1.3 میٹر لمبا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل مصر میں بھی ایک گدھے پر کالی سفید دھاریاں بنا کر اسے زیبرا بنا کر پیش کرنے کا واقعہ پیش آچکا ہے اور وہاں کے چڑیا گھر حکام نے بھی اس کی تردید کی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں