لائل پور کا ڈی پی ایس
کمشنر صاحبہ کو میرا مشورہ ہے کہ بورڈ آف گورنرز کو دوبارہ تشکیل دیں اس میں ادارے کے پرانے طلباء کو بھی شامل کریں
''ڈی پی ایس فیصل آباد کا پرنسپل بول رہا ہوں''۔ میرے لیے یہ بالکل اجنبی آواز تھی۔ فون کیونکہ اس درسگاہ سے تھا جہاں میں پہلی سے آٹھویں جماعت تک پڑھتا رہا، اس لیے اپنائیت کا احساس غالب رہا ہے۔ کہنے لگے ،'' اسکول میں ایک تقریب ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے''۔ بنیادی تعلیمی ادارے کے سربراہ کی حکم عدولی کا خیر سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔ لہٰذا فوراً حامی بھر لی۔ اب دو قباحتیں تھیں۔
ایک تو لاہورمیںحد درجہ مصروفیات ' دوسرا تقریبات میں جانے سے مکمل اکتاہٹ۔ مگر ڈویژنل پبلک اسکول فیصل آباد کا نام اتنا محترم ہے کہ قطعاً انکار نہیں کر سکا۔ پرنسپل صاحب نے ابتدا میں نو بجے صبح کا وقت بتایا۔پھر کمال محبت سے دس بجے کر دیا تاکہ آنے میں آسانی رہے، میں مقرر وقت پر پہنچ گیا۔ وہاں اسکول کے پرنسپل شاہد محمود سے پہلی ملاقات ہوئی۔
تقریب کی نوعیت پوچھی تو بتانے لگے کہ موجودہ خاتون کمشنر صلوت سعید نے ہدایات جاری کی ہیں کہ اسکول کے اولڈ اسٹوڈنٹس جو تقریباً بابے بن چکے ہیں، انھیں بلا کر اسکول اسٹاف کے ساتھ مکالمہ رکھا جائے تاکہ وہ اپنے پرائمری علمی مرکز سے جڑے رہیں۔ میں کمشنر صاحبہ سے کبھی ملا نہیں لیکن اس بہترین تجویز پر وہ تحسین کی مستحق ہیں۔
میں جب ہال میں پہنچا تو اسکول کا پورا اسٹاف موجود تھا، کئی سو مرد اور خواتین اساتذہ کا خوشگوار اجتماع۔ اپنی عملی زندگی ہزاروں تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں۔ مگر پچاس برس بعد اپنے مادر علمی میں لوٹنا اور وہاں بات کرنا ایک نایاب تجربہ تھا۔ اسٹیج پر پہنچا تو ذہن میں نصف صدی پہلے کے واقعات ایک فلم کی مانند گھوم رہے تھے۔
لگ رہا تھا کہ ابھی پرنسپل اصغر صاحب گاؤن پہنے ہال میں داخل ہوںگے۔ اور اسٹوڈنٹس کو تہذیب اور آداب پر لیکچر دینا شروع کر دیں گے۔ کیمرج یونیورسٹی کے قصے سنائیں گے۔ ہم باادب ہوکر خاموشی سے سنتے رہیں گے۔
کبھی لگتا تھا کہ حساب کے باکمال استاد' جناب مشتاق صاحب' ابھی ابھی کلاس روم میں آئیں گے اور مجھے ''فٹا'' مار کر ہنس کر کہیں گے' کہ بیٹا! آج تمہیں مار صرف اس وجہ پڑ رہی ہے کہ تم نے آج کوئی غلطی نہیں کی اور امتحان میں پورے نمبر لیے ہیں۔کبھی معلوم ہوتا تھاکہ اردو کے مایہ ناز استاد 'شاکر عروجی صاحب ابھی شاباش دینے کے لیے بلائیں گے اور اپنا مخصوص فقرہ ادا کریں گے کہ استاد محترم تم سے بہت خوش ہوئے۔
کس کس کا نام لوں۔ صاحب ' آنکھوں سے نم ہونے لگتی ہیں۔ عظیم صاحب ' محمود صاحب' حکیم صاحب۔ کیسے کیسے نایاب اساتذہ تھے۔ جو نیئرسیکشن میں میڈم چوہدری ' میڈم طلعت' میڈم خان بالکل اسٹوڈنٹس سے ایسے پیش آتی تھیں جیسے ہم ان کے اپنے بچے ہیں۔
ایسے لگتا تھا کہ ابھی دروازے سے میرے کلاس فیلو' ارشد چوہدری' خالد باجوہ ' اظہر چوہدری' زاہد اسلم' جاوید اصغر' شاہد اور ثاقب اندر آئیں گے اور پھر ہم سارے گھاس پر قلابازیاں لگانا شروع کر دیں گے۔ مگر صاحب ' ایک بات بھول گیا۔ کہ یہ سب کچھ پچاس برس پہلے کا دور تھا۔ محبت' خلوص ' ہمدردی اور خوشی کا زمانہ' بھلا آج یہ سب کچھ کیسے واپس آ سکتا ہے۔
بات کرنے کا موقع ملا تو اسٹیج پر جا کر اسکول کے اسٹاف کے سامنے دل کھول کر رکھ دیا۔ تمام قابل قدر اساتذہ کرام بڑی دلجمعی سے اس اولڈ اسٹوڈنٹ کی گزارشات سنتے رہے ۔ میں آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اساتذہ عزت اور تعظیم کا مجسم ہوتے ہیں۔
مہذب معاشرے ان کی محنت سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اساتذہ خصوصاً جونیئراسکولز کے اساتذہ کسی بھی ملک کی پہچان ہوتے ہیں۔ یہ وہ روحانی رہنما و رہبر ہوتے ہیں جو بچوں کو مہذب اور صاحب علم بناتے ہیں اور ملکوں کی کامیابی کی شناخت بن جاتے ہیں۔
کچی مٹی یعنی بچپن سے وہ مضبوط شخصیت ترتیب دیتے ہیں جس سے آنے والے وقت میں طلبہ اور طالبات ترقی کی منزلیں دوڑ کر سر کر لیتے ہیں۔ تقریبا پچیس تیس منٹ کے مکالمے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سوالات میرے لیے حد درجہ اہمیت کے حامل تھے۔ سوالات سے ادارہ کی اندرونی کیفیت کا علم ہوتا ہے اور وہیں سے مشکلات کے حل نکلتے ہیں۔
ان سوالات سے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہماری ہر حکومت' اساتذہ کو مالی آسودگی اور سہولتیں دینے میں ناکام رہی ہے۔ کسی بھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے ٹیچرز کے معاملات پر غور نہیں کیا۔ یہ تغافل آج بھی جاری ہے۔ ایک سوال تھا کہ کیا والدین بچوں کی تربیت کے معاملے میں غفلت برت رہے ہیں یا اساتذہ ۔ میرا جواب تھا کہ والدین نے آج کل کے دور میں اپنے بچوں کی تمام تربیت ''آؤٹ سورس'' کر دی ہے،اولین درسگاہ تو والدین ہوتے ہیں لیکن انھوں نے بچوں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔
کیا یہ قیامت نہیں کہ آج کل بچوں کو فاسٹ فوڈ دلوا کر والدین حد درجہ خوش ہوتے ہیں۔ ننھے منے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون دے ڈالتے ہیں اور انھیں ان مصنوعی گیمز کھیلنے پر لگا دیتے ہیں۔ پھرفخر سے بتاتے ہیں کہ دیکھیے آج کل کی جنریشن کمپیوٹر اور سیل فون کو کتنا بہتر استعمال کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ صاحب ! بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون یاکمپیوٹر ٹیبلٹ دینا بالکل زہر کھلانے کے برابر ہے۔
بچوں میں فکری انتشار بڑھتا رہتا ہے اور والدین کو کچھ معلوم نہیں پڑتا۔ اگر والدین اپنے بچوں کی ابتدائی تربیت بہتر طریقے سے کریںگے۔ تو اسکول میں اساتذہ ان کی بہترین تربیت کر سکیں گے۔ اگر گھر سے بنیاد ہی غلط پڑ جائے تو بہترین سے بہترین معلم بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ پودے کی جڑ مضبوط ہو تو وہ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے۔
آندھیاں اور طوفان بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بچے بھی نرم و نازک پودوں کی طرح ہوتے ہیں۔ والدین کی تربیت اور اساتذہ کی محنت سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک تن آور درخت بن جاتے ہیں۔ ورنہ کمزور پودا' تیزہوا کے پہلے جھونکے ہی سے زمین سے اکھڑ جاتا ہے۔
بچوں پر سختی کرنے یا مکمل نرمی کرنے سے کامیابی کا کوئی نسخہ برآمد نہیں ہوتا۔ ''مار نہیں پیار'' جیسے جملے درسگاہوں میں عدم توازن کا باعث بن سکتے ہیں۔ کئی معاملات میں بچوں پر جائز سختی نہ کرنا' انھیں بگاڑنے کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا اس سوال کا جواب کہ بچوں پر سختی کرنی چاہیے یا نہیںحد درجہ صائب تھا۔ طالب علم کا جواب تھا کہ اصل نسخہ کیمیا ''توازن'' میں چھپا ہوا ہے۔بے جا سختی' بچوں کو خوف میں مبتلا کر سکتی ہے۔
یہی معاملہ بے جا نرمی کا ہے۔ مسئلہ والدین کا بھی ہے۔ وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ان کے بچے یا بچیاں اسکول جا کر بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ کئی والدین تو اسکول انتظامیہ سے آ کر لڑتے ہیں کہ ہمارے بچے تو فرشتے ہیں۔ ان سے ٹیچر نے بے جا سختی کی ہے۔
یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ گھروں میں بچوں کا عملی رویہ اسکول سے مختلف بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ دوبارہ عرض کروںگا کہ اگر درست مقام پر صحیح سختی کی جائے تو بچے آنے والے کئی مصائب سے محفوظ رکھے جا سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک بھرپور بحث ہے جس کے متعدد پہلو ہیں اور ہر ایک کے پاس اپنے نکتے کو درست ثابت کرنے کے دلائل بہر حال موجود ہیں۔
کمشنر صاحبہ کو میرا مشورہ ہے کہ بورڈ آف گورنرز کو دوبارہ تشکیل دیں۔ اس میں ادارے کے پرانے طلباء کو بھی شامل کریں تاکہ معروضی حالات کے مطابق فیصلے ہو سکیں۔ نگران وزیراعلیٰ کوفیصل آباد آ کر ڈویژنل پبلک اسکول کے اساتذہ سے ضرور مکالمہ کرنا چاہیے۔ تاکہ انھیں صوبے کے اصل معماروں کی مشکلات کے متعلق علم ہو۔ محسن نقوی کو میں پرانا جانتا ہوں۔
یقین ہے کہ وہ اس کالم کو ضرور پڑھیں گے اور پورے صوبے میں اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریںگے۔ وہ ابھی نوجوان ہیں۔ بہتری کرنے کا عزم بھی ہے۔ وسائل بھی موجود ہیں۔ پھر انھیں ڈی پی ایس لائل پور (فیصل آباد) اور اس جیسی درسگاہوں کا دورہ رکھنے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ شاید' اس ایک عمل سے تعلیمی شعبے کے کئی اہم مسائل حل ہو جائیں!
ایک تو لاہورمیںحد درجہ مصروفیات ' دوسرا تقریبات میں جانے سے مکمل اکتاہٹ۔ مگر ڈویژنل پبلک اسکول فیصل آباد کا نام اتنا محترم ہے کہ قطعاً انکار نہیں کر سکا۔ پرنسپل صاحب نے ابتدا میں نو بجے صبح کا وقت بتایا۔پھر کمال محبت سے دس بجے کر دیا تاکہ آنے میں آسانی رہے، میں مقرر وقت پر پہنچ گیا۔ وہاں اسکول کے پرنسپل شاہد محمود سے پہلی ملاقات ہوئی۔
تقریب کی نوعیت پوچھی تو بتانے لگے کہ موجودہ خاتون کمشنر صلوت سعید نے ہدایات جاری کی ہیں کہ اسکول کے اولڈ اسٹوڈنٹس جو تقریباً بابے بن چکے ہیں، انھیں بلا کر اسکول اسٹاف کے ساتھ مکالمہ رکھا جائے تاکہ وہ اپنے پرائمری علمی مرکز سے جڑے رہیں۔ میں کمشنر صاحبہ سے کبھی ملا نہیں لیکن اس بہترین تجویز پر وہ تحسین کی مستحق ہیں۔
میں جب ہال میں پہنچا تو اسکول کا پورا اسٹاف موجود تھا، کئی سو مرد اور خواتین اساتذہ کا خوشگوار اجتماع۔ اپنی عملی زندگی ہزاروں تقریبات میں شرکت کر چکا ہوں۔ مگر پچاس برس بعد اپنے مادر علمی میں لوٹنا اور وہاں بات کرنا ایک نایاب تجربہ تھا۔ اسٹیج پر پہنچا تو ذہن میں نصف صدی پہلے کے واقعات ایک فلم کی مانند گھوم رہے تھے۔
لگ رہا تھا کہ ابھی پرنسپل اصغر صاحب گاؤن پہنے ہال میں داخل ہوںگے۔ اور اسٹوڈنٹس کو تہذیب اور آداب پر لیکچر دینا شروع کر دیں گے۔ کیمرج یونیورسٹی کے قصے سنائیں گے۔ ہم باادب ہوکر خاموشی سے سنتے رہیں گے۔
کبھی لگتا تھا کہ حساب کے باکمال استاد' جناب مشتاق صاحب' ابھی ابھی کلاس روم میں آئیں گے اور مجھے ''فٹا'' مار کر ہنس کر کہیں گے' کہ بیٹا! آج تمہیں مار صرف اس وجہ پڑ رہی ہے کہ تم نے آج کوئی غلطی نہیں کی اور امتحان میں پورے نمبر لیے ہیں۔کبھی معلوم ہوتا تھاکہ اردو کے مایہ ناز استاد 'شاکر عروجی صاحب ابھی شاباش دینے کے لیے بلائیں گے اور اپنا مخصوص فقرہ ادا کریں گے کہ استاد محترم تم سے بہت خوش ہوئے۔
کس کس کا نام لوں۔ صاحب ' آنکھوں سے نم ہونے لگتی ہیں۔ عظیم صاحب ' محمود صاحب' حکیم صاحب۔ کیسے کیسے نایاب اساتذہ تھے۔ جو نیئرسیکشن میں میڈم چوہدری ' میڈم طلعت' میڈم خان بالکل اسٹوڈنٹس سے ایسے پیش آتی تھیں جیسے ہم ان کے اپنے بچے ہیں۔
ایسے لگتا تھا کہ ابھی دروازے سے میرے کلاس فیلو' ارشد چوہدری' خالد باجوہ ' اظہر چوہدری' زاہد اسلم' جاوید اصغر' شاہد اور ثاقب اندر آئیں گے اور پھر ہم سارے گھاس پر قلابازیاں لگانا شروع کر دیں گے۔ مگر صاحب ' ایک بات بھول گیا۔ کہ یہ سب کچھ پچاس برس پہلے کا دور تھا۔ محبت' خلوص ' ہمدردی اور خوشی کا زمانہ' بھلا آج یہ سب کچھ کیسے واپس آ سکتا ہے۔
بات کرنے کا موقع ملا تو اسٹیج پر جا کر اسکول کے اسٹاف کے سامنے دل کھول کر رکھ دیا۔ تمام قابل قدر اساتذہ کرام بڑی دلجمعی سے اس اولڈ اسٹوڈنٹ کی گزارشات سنتے رہے ۔ میں آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اساتذہ عزت اور تعظیم کا مجسم ہوتے ہیں۔
مہذب معاشرے ان کی محنت سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اساتذہ خصوصاً جونیئراسکولز کے اساتذہ کسی بھی ملک کی پہچان ہوتے ہیں۔ یہ وہ روحانی رہنما و رہبر ہوتے ہیں جو بچوں کو مہذب اور صاحب علم بناتے ہیں اور ملکوں کی کامیابی کی شناخت بن جاتے ہیں۔
کچی مٹی یعنی بچپن سے وہ مضبوط شخصیت ترتیب دیتے ہیں جس سے آنے والے وقت میں طلبہ اور طالبات ترقی کی منزلیں دوڑ کر سر کر لیتے ہیں۔ تقریبا پچیس تیس منٹ کے مکالمے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سوالات میرے لیے حد درجہ اہمیت کے حامل تھے۔ سوالات سے ادارہ کی اندرونی کیفیت کا علم ہوتا ہے اور وہیں سے مشکلات کے حل نکلتے ہیں۔
ان سوالات سے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہماری ہر حکومت' اساتذہ کو مالی آسودگی اور سہولتیں دینے میں ناکام رہی ہے۔ کسی بھی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے ٹیچرز کے معاملات پر غور نہیں کیا۔ یہ تغافل آج بھی جاری ہے۔ ایک سوال تھا کہ کیا والدین بچوں کی تربیت کے معاملے میں غفلت برت رہے ہیں یا اساتذہ ۔ میرا جواب تھا کہ والدین نے آج کل کے دور میں اپنے بچوں کی تمام تربیت ''آؤٹ سورس'' کر دی ہے،اولین درسگاہ تو والدین ہوتے ہیں لیکن انھوں نے بچوں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔
کیا یہ قیامت نہیں کہ آج کل بچوں کو فاسٹ فوڈ دلوا کر والدین حد درجہ خوش ہوتے ہیں۔ ننھے منے بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون دے ڈالتے ہیں اور انھیں ان مصنوعی گیمز کھیلنے پر لگا دیتے ہیں۔ پھرفخر سے بتاتے ہیں کہ دیکھیے آج کل کی جنریشن کمپیوٹر اور سیل فون کو کتنا بہتر استعمال کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ صاحب ! بچوں کے ہاتھ میں موبائل فون یاکمپیوٹر ٹیبلٹ دینا بالکل زہر کھلانے کے برابر ہے۔
بچوں میں فکری انتشار بڑھتا رہتا ہے اور والدین کو کچھ معلوم نہیں پڑتا۔ اگر والدین اپنے بچوں کی ابتدائی تربیت بہتر طریقے سے کریںگے۔ تو اسکول میں اساتذہ ان کی بہترین تربیت کر سکیں گے۔ اگر گھر سے بنیاد ہی غلط پڑ جائے تو بہترین سے بہترین معلم بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ پودے کی جڑ مضبوط ہو تو وہ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے۔
آندھیاں اور طوفان بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بچے بھی نرم و نازک پودوں کی طرح ہوتے ہیں۔ والدین کی تربیت اور اساتذہ کی محنت سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک تن آور درخت بن جاتے ہیں۔ ورنہ کمزور پودا' تیزہوا کے پہلے جھونکے ہی سے زمین سے اکھڑ جاتا ہے۔
بچوں پر سختی کرنے یا مکمل نرمی کرنے سے کامیابی کا کوئی نسخہ برآمد نہیں ہوتا۔ ''مار نہیں پیار'' جیسے جملے درسگاہوں میں عدم توازن کا باعث بن سکتے ہیں۔ کئی معاملات میں بچوں پر جائز سختی نہ کرنا' انھیں بگاڑنے کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا اس سوال کا جواب کہ بچوں پر سختی کرنی چاہیے یا نہیںحد درجہ صائب تھا۔ طالب علم کا جواب تھا کہ اصل نسخہ کیمیا ''توازن'' میں چھپا ہوا ہے۔بے جا سختی' بچوں کو خوف میں مبتلا کر سکتی ہے۔
یہی معاملہ بے جا نرمی کا ہے۔ مسئلہ والدین کا بھی ہے۔ وہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ان کے بچے یا بچیاں اسکول جا کر بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ کئی والدین تو اسکول انتظامیہ سے آ کر لڑتے ہیں کہ ہمارے بچے تو فرشتے ہیں۔ ان سے ٹیچر نے بے جا سختی کی ہے۔
یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ گھروں میں بچوں کا عملی رویہ اسکول سے مختلف بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ دوبارہ عرض کروںگا کہ اگر درست مقام پر صحیح سختی کی جائے تو بچے آنے والے کئی مصائب سے محفوظ رکھے جا سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک بھرپور بحث ہے جس کے متعدد پہلو ہیں اور ہر ایک کے پاس اپنے نکتے کو درست ثابت کرنے کے دلائل بہر حال موجود ہیں۔
کمشنر صاحبہ کو میرا مشورہ ہے کہ بورڈ آف گورنرز کو دوبارہ تشکیل دیں۔ اس میں ادارے کے پرانے طلباء کو بھی شامل کریں تاکہ معروضی حالات کے مطابق فیصلے ہو سکیں۔ نگران وزیراعلیٰ کوفیصل آباد آ کر ڈویژنل پبلک اسکول کے اساتذہ سے ضرور مکالمہ کرنا چاہیے۔ تاکہ انھیں صوبے کے اصل معماروں کی مشکلات کے متعلق علم ہو۔ محسن نقوی کو میں پرانا جانتا ہوں۔
یقین ہے کہ وہ اس کالم کو ضرور پڑھیں گے اور پورے صوبے میں اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریںگے۔ وہ ابھی نوجوان ہیں۔ بہتری کرنے کا عزم بھی ہے۔ وسائل بھی موجود ہیں۔ پھر انھیں ڈی پی ایس لائل پور (فیصل آباد) اور اس جیسی درسگاہوں کا دورہ رکھنے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ شاید' اس ایک عمل سے تعلیمی شعبے کے کئی اہم مسائل حل ہو جائیں!