آئی ایم ایف معاہدہ ہم ہاتھ کٹوا بیٹھے
پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں
دلچسپ کہیں افسوس ناک یا شرم ناک کہیں۔ نگران حکومت نے جس دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا اُسی دن عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں ڈیڑھ فیصد سے زائد تک گر گئیں۔
رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔
یہ تو ظلم کی انتہا ہے ۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔
معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے ، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔
ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی ۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔
بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔
ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں ، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہوگا۔
ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا ہوکیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طورمہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5کھرب روپے ، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔
رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔
یہ تو ظلم کی انتہا ہے ۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔
معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے ، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔
ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی ۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔
بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔
ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں ، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہوگا۔
ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا ہوکیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طورمہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5کھرب روپے ، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔