مرتضیٰ سولنگی حق بحق دار رسید
مرتضی سولنگی صاحب کی ایک اور خوبی بھی انھیں ان کے ہم عصر صحافیوں میں ممتاز کرتی ہے
جناب آصف علی زرداری نے ایک شخص کو امریکا سے طلب کیا اور کہا کہ وہ فلاں ذمے داری سنبھال لیں۔ صدر مملکت کے سامنے بیٹھے اس شخص نے سوچا کہ کہاں امریکا کے معاوضے اور کہاں اپنے دیس کا رقص درویش، ایک ڈیڑھ لمحے کے بعد اس شخص نے سر اٹھایا اور کہا:
' جو آپ کا حکم صدر مملکت!'۔
صدر مملکت کو بھی اندازہ تھا کہ اس شخص نے اگر میری خواہش کو اپنی خواہش بنا لیا ہے تو یہ خسارے کا کتنا بڑا سودا ہے۔ انھوں نے عادت کے مطابق اپنی کِھلی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے مخاطب کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ بے تکلفی کے ساتھ کہہ دو کہ میں اس کے علاوہ آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ ممکن ہے۔
وہ سوچتے ہوں کہ یہ شخص جو میری خواہش پر اتنا بڑا فیصلہ کر رہا ہے، پلاٹ پرمٹ کا مطالبہ کرے گا یا اپنے مالی نقصان کے ازالے کے لیے کوئی مادی مفاد اس کے پیش نظر ہو گا تو کیا حرج ہے کہ اسے پورا نہ کیا جائے۔ اس شخص نے سر براہ مملکت کے ساتھ ایک بار پھر آنکھیں ملائیں اور کہا:' ویسے تو کوئی خواہش نہیں سر، لیکن ایک کسک البتہ ہے۔ پاکستان آتے ہوئے بہت محنت سے جمع کی ہوئی کتابوں کی ایک بہت بڑی تعداد امریکا میں رہ گئی ہے، اگر ممکن ہو سکے تو اسے یہاں منتقل کرا دیا جائے'۔
صدر مملکت بھی وعدے کے پکے نکلے، یہ کتابیں جو اچھی خاصی لائبریری تھی، اپنے خرچ پر امریکا سے پاکستان منتقل کرادی۔
صدر مملکت تو جیسے ہم آپ جانتے ہیں، آصف علی زرداری تھے، دوسرا شخص کوئی اور نہیں ہمارے آپ کے جانے پہچانے مرتضیٰ سولنگی تھے جنھوں نے پرسوں پرلے روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے۔
ہم دونوں کا صحافتی کیرئیر ایک ہی شہر یعنی کراچی میں کم و بیش ایک ہی زمانے میں شروع ہوا لیکن اتفاق کچھ ایسا رہا کہ ایک دوسرے کے کام سے آگاہی اور ناموں سے شناسائی کے باوجود کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔
ایوان صدر کے زمانے میں چند ایک بار انھوں نے جب وہ ایک نیوز چینل سے وابستہ تھے، مجھ سے رابطہ کیا لیکن جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، بات چیت خالصتاً پیشہ ورانہ امور تک محدود رہی لیکن ان کے مخصوص دھیمے انداز اور سندھی لہجے کی شیریں حلاوت نے متاثر کیا۔ یوں مجھے یہ چیٹک لگی کہ اس شخص کے بارے میں کچھ مزید بھی جاننا چاہیے۔
اتنا تو مجھے معلوم تھا کہ آصف علی زرداری نے انھیں امریکا سے صرف اس لیے پاکستان مدعو کیا تھا کہ ریڈیو پاکستان ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ اپنے وائس آف امریکا کے تجربے سے فایدہ اٹھا کر اصلاح احوال کریں۔ مرتضیٰ سولنگی جس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے سربراہ تھے، ہمارے نوجوان دوست کاشان اکمل اس ادارے میں رپورٹنگ کے شعبے سے وابستہ تھے۔
ایک دن عین اس روز جب انھیں مہینے بھر کی محنت کا معاوضہ ایک چیک کی صورت میں دیا گیا تھا، ڈی جی ریڈیو پاکستان نے ایک میٹنگ طلب کی۔ کاشان نے یہ چیک جیب میں ڈالا اور اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس میٹنگ میں نوجوان رپورٹروں اور شعبہ ٔ خبر کے دیگر ذمے داروں کو نیوز گیدرنگ اور براڈ کاسٹنگ کے تازہ رجحانات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ سرکاری شعبے کا ذریعہ ابلاغ ہونے کے باوجود وہ کون سے طریقے ہیں جنھیں اختیار کر کے اس قومی ادارے میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے۔
یہ عین وہی زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان میں کسی ڈیلی ویجر رپورٹر کو ایک رپورٹ کی تیاری کا معاوضہ صرف ساڑھے تین سو روپے ادا کیا جاتا تھا۔ اس ماہ کاشان کی کل کمائی مبلغ اکیس سو روپے تھی۔ کاشان نے یہ چیک ڈی جی صاحب کے سامنے رکھا اور سوال کیا کہ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سا فارمولا ہے جس کے تحت ایک رپورٹ کا یہ معاوضہ ادا کیا جاتا ہے جس پر ہمارے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں؟ کاشان بتاتے ہیں۔
ادارے کے کارکنوں کی حالت زار جان کر وہ پریشان ہو گئے۔ اس کے بعد صورت حال بدل گئی اور معاوضے دہائیوں پرانے گھسے پٹے فارمولوں کے مطابق ادا کرنے کے بجائے ان میں معقول حد تک اضافہ کر دیا گیا۔ معاوضوں کی زبوں حالی کا معاملہ حل کرنے کے بعد انھوں نے رپورٹنگ کے معیار کو بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دی اور لائیو نشریات کا معیار بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کو یقینی بنایا۔ یوں ریڈیو پاکستان پہلی بار سیٹلائٹ وین کا مالک بنا۔
ریڈیو پاکستان میں ان کی ایک اور خدمت تادیر یاد رکھی جائے اور اگر اس کا درست استعمال جاری رہا تو اس کے نتیجے میں عوامی مسائل کے حل اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ میں بہت مدد ملے گی۔ ملک کے بڑے شہروں میں ریڈیو پاکستان کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے یہ کیا کہ ان اسٹیشنوں کو کمیونٹی ریڈیو میں تبدیل کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں کو تقریباً پورے کا پورا مقامی بنا دیا جائے، اس طرح مقامی مسائل کا حل یقینی ہو جائے گا اور مقامی ثقافت اجاگر ہوگی۔
ان کی آمد سے قبل ریڈیو پاکستان سے وابستہ لوک فن کاروں اور متعلقہ شعبوں کے دیگر لوگوں کی حالت بھی بہت پتلی تھی۔ انھوں نے ان لوگوں کے کردار میں اضافہ کیا اور ان کے معاوضے بھی بڑھائے۔
اس کے علاوہ یہ قومی ادارہ جو کہیں پچھلی صدی میں جی رہا تھا، انھوں نے آتے ہی اس کے مختلف شعبوں میں نظم و ضبط پیدا کیا اور آوازوں کے خزانے کو محفوظ رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا آغاز کیا۔ حال ہی میں آواز خزانہ کے نام سے ریڈیو پاکستان نے پاکستانی موسیقی کی جو ایپ جاری کی ہے، اس کا لانچ ممکن نہ ہو پاتا اگر سولنگی صاحب کے دور میں اس کام کا آغاز نہ کیا گیا ہوتا۔
ریڈیو پاکستان سولنگی صاحب کی زندگی میں بعد میں آیا لیکن چوں کہ اس کی تنظیم نو کے لیے ان کا کام غیر معمولی ہے، اس لیے یہ تذکرہ کچھ طویل ہو گیا لیکن فی الاصل تو وہ ایک صحافی ہیں۔ اس حیثیت سے پاکستان ٹیلی ویژن پر ساتھی کی حیثیت سے مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی بات کرتے ہیں ، پوری تیاری کے ساتھ کرتے ہیں۔
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قومی سیاسی صورت حال اور بحرانوں کو عمومی انداز میں سیاسی مفادات اور رجحانات کے تحت سمجھنے کے بجائے آئین کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح ان کی گفتگو اور تجزیے میں انفرادیت پیدا ہو جاتی ہے۔
ان کا ایک اور انفرادی پہلو یہ بھی ہے کہ حالات اور ماحول جیسا بھی ہو، وہ جمہوریت کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ یہی منفرد شخص اب ہمارا یعنی صحافت سے متعلق وزارت کا سربراہ بن گیا ہے۔ اس لیے میں جائز طور پر توقع رکھتا ہوں کہ ان کے دور میں ذرایع ابلاغ ماضی سے بڑھ کر جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے خدمات انجام دے سکیں گے۔
مرتضی سولنگی صاحب کی ایک اور خوبی بھی انھیں ان کے ہم عصر صحافیوں میں ممتاز کرتی ہے۔ وہ اگرچہ سندھ کے مردم خیز خطے کی جم پل ہیں لیکن اس باوجود کلاسیکی موسیقی، نیم کلاسیکی موسیقی، مقامی ثقافتوں اور پاکستانی زبانوں کے اسرار و رموز کا گہرا ادراک رکھتے ہیں، اس لیے میں توقع رکھتا ہوں کہ ان کی تازہ ذمے داری وزرات اطلاعات و نشریات کی ترقی اور نیک نامی میں کا باعث بنے گی، ان شااللہ۔