بلوچستان سے تیسرا وزیر اعظم

نگران وزیر اعظم پر اتفاق اس لیے خوش آیند ہے کہ سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کو تیسرا وزیر اعظم میسر کیا گیا ہے


Muhammad Saeed Arain August 21, 2023
[email protected]

ملک کے سب سے چھوٹے اور پس ماندہ صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ اتحادی سابق حکومت میں شامل پارٹیوں کی مشاورت اور اتفاق سے نگران وزیر اعظم بن گئے ہیں جن کا نام تو آئین کے مطابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے متفقہ طور پر منظورکیا۔

راجہ ریاض کے مطابق انوار الحق کاکڑ کا نام انھوں نے پیش کیا جس پر ایک روزکی مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے اتفاق کر لیا اس طرح ایک اہم مسئلہ حل ہو گیا جس نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں میں اضطراب پیدا کر رکھا تھا اور پہلی بار نگران وزیر اعظم کا فیصلہ تاخیر سے ہوا مگر مہنگائی کے شدید عذاب میں مبتلا ملک کے عوام کا یہ مسئلہ تھا، نہ انھیں اس مسئلے سے کوئی دلچسپی تھی کیونکہ کوئی بھی آئے عوام کے مسائل کی فکر کسی نے کرنی ہے نہ کسی سے عوام کو ریلیف کی توقع ہے۔

نگران وزیر اعظم پر اتفاق اس لیے خوش آیند ہے کہ سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کو تیسرا وزیر اعظم میسر کیا گیا ہے جب کہ صرف جنرل مشرف کے دور میں کچھ عرصہ کے لیے بلوچستان کو منتخب وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی ملے تھے جو صدر جنرل پرویز مشرف کے اتنے وفادار تھے کہ انھیں کھلے عام اپنا باس قرار دیتے تھے جو جمالی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بلوچ اور پکے پاکستانی تھے مگر نہ جانے جنرل پرویز مشرف انھیں زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے تھے اور باہر سے آئے ہوئے غیر سیاسی شخص شوکت عزیز کو (ق) لیگ کی حکومت کا تیسرا وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور چوہدری شجاعت کو دو ماہ کے لیے ملک کا منتخب وزیر اعظم بننے کا موقعہ مل گیا تھا ۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ جسٹس میر ہزار خان کھوسہ کو بھی نگران وزیر اعظم بننے کا موقعہ ملا تھا اور نگران وزیر اعظم اپنے علاقے صحبت پور کو ضلع ضرور بنوا گئے تھے اور انھیں بھی ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد سے دلچسپی نہیں تھی اور وہ اپنے ضلع کے سوا بلوچستان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکے تھے۔

سینیٹر انوارالحق کاکڑ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اور اچھی شہرت کے حامل سیاستدان، تعلیم یافتہ اور دانشور کہلانے والے شخص ہیں جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے اور اس وقت کے بالاتروں نے اس پارٹی کے قیام میں دلچسپی لی تھی اور انوار الحق کاکڑ نے بھی 'باپ' کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔

ان کا نام راجہ ریاض نے پیش کیا یہ اچھا فیصلہ ہے اور نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوںکے بھی پسندیدہ ہیں، بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں ناانصافیوں اور نظرانداز کیے جانے کی جائز شکایات بھی ہر حکومت سے رہی ہیں اور بلوچستان عوامی پارٹی ہی کے سینیٹر کو نگراں وزیر اعظم بننے کا موقعہ دیا گیا ہے اور اتحادیوں کی حکومت کی خواہش بھی تھی کہ چھوٹے صوبے سے نگراں وزیر اعظم لیا جائے اور قرعہ انوار الحق کے نام نکلا ہے۔

سندھ سے دو منتخب وزیر اعظم بھٹو خاندان سے اور ایک منتخب وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے جب کہ غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیر اعظم رہے۔

پنجاب سے میاں نواز شریف، شہباز شریف اور یوسف رضا گیلانی منتخب اور سردار بلخ شیر مزاری اور معراج خالد نگران وزیر اعظم رہے۔

ملک کے منتخب صدور کا تعلق پنجاب، کے پی اور سندھ سے رہا اور فوجی صدور کا تعلق بھی سندھ، پنجاب اور کے پی سے رہا مگر چھوٹے صوبے بلوچستان سے کبھی فوجی یا سویلین صدر کا تعلق نہیں رہا اور سب سے چھوٹا صوبہ ہونے کی وجہ سے وفاقی وزارتیں بھی بلوچستان کو کم ملیں مگر بلوچستان کا یہ بھی منفرد ریکارڈ ہے کہ بلوچستان کی ایک سیاسی حکومت میں صرف ایک اپوزیشن کا رکن تھا اور باقی تمام اراکین اسمبلی مختلف حیثیت میں بلوچستان حکومت میں شامل تھے۔

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں نظام بہت مضبوط ہے اور بلوچ قبائل زیادہ ہیں اور پختون قبائل بھی بہت ہیں اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے میں پختون قبائل زیادہ ہیں اور ہمیشہ کوئٹہ کا میئر پختون ہی منتخب ہوتا رہا ہے۔

ہروفاقی حکومت میں یہ بھی ہوتا رہا کہ اگر بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بلوچ ہو تو گورنر پختون ہو، بلوچستان میں بلوچوں کے بعد پختون دوسری آبادی ہے اور پنجاب اور سندھ کے لوگ بھی بڑی تعداد میں بلوچستان کے پختون علاقوں میں آباد ہیں اور بدقسمتی سے کچھ سالوں سے ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے اور ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری بلوچ علاقوں میں ہوئی اور بلوچوں میں احساس کم تری بھی زیادہ ہے اور انھیں نظر انداز کیے جانے کی شکایات بھی عام اور جائز ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بلوچ سردار ہی رہے ہیں اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بلوچ قبائل میں باہمی جھگڑے زیادہ رہے جو اب بھی چل رہے ہیں اور بلوچستان کے سرداروں اور بااثر پختون رہنماؤں نے صوبے و عوام سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور کرپشن بھی عروج پر رہی اور بلوچستان کو وہ حق کبھی نہیں ملا جو اس کا تھا۔ بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں کے ساتھ ہر دور میں ناانصافی بھی ہوئی جس پر صدر آصف زرداری نے معافی بھی مانگی تھی۔

پہلی بار ایک ایسا نگران وزیر اعظم نامزد ہوا ہے جس کو اداروں کی حمایت بھی حاصل ہوگی جو ان کے قریب بھی رہا ہے اور اس کے مدت اقتدار کا بھی کچھ پتا نہیں مگر لگتا ہے انھیں 6 ماہ تو اقدار میں رہنے کے لیے ضرور ملیں گے۔

انوار الحق کاکڑ کی تعیناتی میں بلوچ رہنماؤں کی رضامندی بھی شامل ہے اس لیے اب ضروری ہے کہ نگران وزیر اعظم اپنی انتخابی ذمے داری کے ساتھ اپنے صوبے سے زیادتیوں کے ازالے کا فرض بھی ادا کریں اور کوشش کرکے ناانصافی ختم کرائیں اور بلوچ عوام کی شکایات ختم کرائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں