ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے گریٹر ڈائیلاگ کرنا ہوگا
سیاسی جماعتیں نیا میثاق جمہوریت کریں، تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
یوں تو ہر انتخابی سال سیاسی حوالے سے خاصا گرم ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں گزشتہ چند برسوں سے ہی سیاسی درجہ حرارت گرم ہے جس کی شدت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی، سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے گالم گلوچ، نفرت انگیز مواد، پراپیگنڈہ جیسے عوامل نے ملکی سیاست کو آلودہ کردیا ہے۔
مجموعی طور پر معاشرے میں عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کروانا ممکن نہیں ہے ۔
اب آئندہ برس فروی، مارچ میں انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''حالیہ سیاسی محاذ آرائی کے ملکی سیاست اور معیشت پر اثرات'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین
(چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب )
معاشرہ سیاسی طور پر تضادات کا شکار ہے۔ سماجی علوم انسان کو اچھا شہری بننے میں مدد دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ان کا رجحان کم ہو رہا ہے، ہم نے پر چیز کو معاش سے جوڑ دیا ہے۔ ہمارے نوجوان مسائل کا شکار ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں صحیح طور پر انگیج نہیں کیا، ان کی سیاسی تربیت نہیں کی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر میثاق جمہوریت کیا اورجمہوری نظام کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔سیاست میں ٹائمنگ انتہائی اہم ہوتی ہے، وقت پر درست فیصلے نہ لیے جائیں تو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسمبلی کے فلور پر میثاق معیشت کی آفر کی گئی مگر اس وقت یہ کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے، پھر جب اقتدار گیا، سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو بات چیت کیلئے تیار ہوئے مگر اس وقت بڑی جماعتیں راضی نہ ہوئیں۔ آج معاشرے میں نفرت، تعصب اور انتقام کی فضا ہے، سوشل میڈیا نے گالم گلوچ کلچر کو فروغ دیا ہے۔
لوگ ایک دوسرے کے نظریات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور ضابطہ اخلاق تیار کریں کہ ملک کو کس طرح آگے لے کر بڑھنا ہے۔
ہمارے ہاں ہر حوالے سے قوانین موجود ہیں، ان پر عملدرآمد کرنا ہے ۔ 1973ء کا آئین موجود ہے، اس کی روشنی میں معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ میرے نزدیک ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو نیا میثاق جمہوریت کرنا ہوگا جس میں سیاستدان، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔
ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کیلئے سوچنا ہوگا۔ یہ نوجوان ہمارا مستقبل اور اہم حصہ ہیں،ا نہیں پالیسی سازی میں شامل کرنا ہوگا۔ انہیں نظر انداز کرکے ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
رمضان چودھری
(سینئر قانون دان )
سب ایک دوسرے کو چور اورکرپٹ کہہ رہے ہیں۔ اس الزام تراشی میں کسی کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہی۔ ایک دوسرے کے نظریے سے اختلاف کے باعث سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ جمہوریت میں ایک دوسرے کی رائے اور نظریے کا احترام کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں کوئی کسی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو 1973ء کا متفقہ آئین دینے والی شخصیات قد آور تھی۔ ان کے آپس میں شدید اختلافات تھے۔
یہ ایسی شخصیات تھی جن کے کہنے پر خدانخواستہ ملکی سلامتی کو خطرات ہوسکتے تھے مگر جہاں ملک کی بات آئی وہاں انہوں نے اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک ایسی دستاویز دی جس نے آج تک ملک کو جوڑ کر رکھا ہے۔ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ آج ہمیں وضع داری نظر نہیں آرہی، اجتماعی سوچ کا فقدان اور ذاتیات کا فروغ نظر آتا ہے۔ ہمیں ملکی مفاد کو مقدم اور سب سے پہلے رکھنا ہوگا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ آئینی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عدالتی حکم کے باوجود انتخابات نہیں کروائے گئے۔ ہم ارباب اختیار کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آئین کو نظر انداز کیا گیا، انتخابات وقت پر نہ ہوئے، فروری ، مارچ سے بھی آگے چلے گئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ملک کا فائدہ آئینی حدود میں رہ کر ہی ہے۔
اس وقت ملک میں شدید پولرائزیشن ہے جس نے کسی ادارے کو نہیں چھوڑا۔ حالات سنگین ہیں مگر ہاتھ سے نہیں نکلے لہٰذا سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، ادارے و تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیںاور آگے بڑھنے کیلئے لائحہ عمل تیار کریں۔ یاد رکھیں! احتساب احتساب بہت کھیل لیا، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، سب کو گریٹر ایمنسٹی دیں اور آگے بڑھیں، ایک بار ملک کو درست سمت مل گئی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ارباب اختیار اور سٹیک ہولڈرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قومیں جنگوں سے نہیں بات چیت سے بنتی ہیں۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے گریٹر ڈائیلاگ کیا جائے، آئین پاکستان کی روشنی میں آگے بڑھا جائے اور ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالا جائے۔ ملک میں گزشتہ 15 برس سے جمہوری تسلسل ہے، اگر سیاستدانوں نے اب بھی نہیں سیکھا تو کس کا قصور ہے؟ انہیں اور کتنا وقت چاہئے؟سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں، خرابیاں تلاش کریں اور انہیں دور کرنے کیلئے کام کریں۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار)
ماضی میں اینٹی اور پرو پیپلز پارٹی سیاست ہوتی تھی۔ 2011ء کے بعد یہ اینٹی اور پروتحریک انصاف میں بدل گئی۔ ماضی میں بھی سب کچھ ایسے ہی ہوتا رہا مگر منظر عام پر اس طرح سے نہیں آتا تھا جس طرح اب سوشل میڈیا کے دور میں آیاہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں پولرائزیشن میں اضافہ ہوا۔ سیاست محض جذباتی نعروں اور ذاتیات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، ایک دوسرے پر دشمن اور غدار کے الزامات لگائے جاتے ہیں، چور، کرپٹ کے نعرے عام سی بات ہوگئی ہے۔
جو کچھ 90 ء کی دہائی میں ہوا، وہی اب ہو رہا ہے۔اس سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان کو عدم استحکام کی صورت میں بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ اس وقت آئین، سیاست، پارلیمان، جمہوریت، قانون، ادارے، عوام سب کمزور ہیں۔ معاشی طور پر ہمارا انحصار عالمی اداروں اور برادر اسلامی ممالک پر ہے۔
سی پیک منصوبے کے فیز ٹو کا آغاز ہوا ہے مگر امریکا اور چین کے آپسی مسائل کے اثرات ہم پر پڑیں گے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی معاملات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ بھارت ہم سے بات چیت کیلئے تیار نہیں، افغانستان کی طالبان حکومت سے جو توقع کی جا رہی تھی ویسا نہیں ہوا بلکہ اب معاملات غیر تسلی بخش ہیں۔ بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا، کاروباری طبقات، سول ملٹری سمیت سب میں مقابلہ آرائی کی فضا ہے۔ اس سب میں عام آدمی لاتعلق ہوتا جا رہا ہے۔
افسوس ہے کہ اسلام آباد میں بالادستی کی لڑائی نے ملک کو کمزور کیا جو ریاستی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے، کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔میثاق جمہوریت، نیشنل ایکشن پلان جیسے اقدامات کے گئے مگر ان پر عمل نہیں ہوا، آج کوئی بھی ریاستی ادارہ مسائل سے خالی نہیں۔ پارلیمنٹ میں جو قانون سازی ہو ئی ہے اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام خصوصاََنوجوانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ان میں تناؤ، غصہ، نفرت، تعصب اور عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ گالم گلوچ کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم نوجوانوںپر تنقید تو کرتے ہیں مگر یہ سب انہیں کس نے دیا؟ محاذ آرائی کی سیاست تو سیاسی جماعتوں نے کی اور پراپیگنڈہ کیلئے نوجوانوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔موجودہ مسائل کا واحد حل اصلاحات ہیں۔
اگر ہم ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں تو سیاسی، سماجی، معاشی اور سٹرکچرل ریفارمز لانا ہونگی۔سیاسی جماعتوں، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا، سول سوسائٹی کو زندہ ہونا ہوگا، ملکی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی،اسے ری سٹرکچر کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہے کہ اندرونی بحرانوں کو دور کیے بغیر معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی، سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے گالم گلوچ، نفرت انگیز مواد، پراپیگنڈہ جیسے عوامل نے ملکی سیاست کو آلودہ کردیا ہے۔
مجموعی طور پر معاشرے میں عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کروانا ممکن نہیں ہے ۔
اب آئندہ برس فروی، مارچ میں انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں۔ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ''حالیہ سیاسی محاذ آرائی کے ملکی سیاست اور معیشت پر اثرات'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین
(چیئرمین شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب )
معاشرہ سیاسی طور پر تضادات کا شکار ہے۔ سماجی علوم انسان کو اچھا شہری بننے میں مدد دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ان کا رجحان کم ہو رہا ہے، ہم نے پر چیز کو معاش سے جوڑ دیا ہے۔ ہمارے نوجوان مسائل کا شکار ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں صحیح طور پر انگیج نہیں کیا، ان کی سیاسی تربیت نہیں کی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر میثاق جمہوریت کیا اورجمہوری نظام کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔سیاست میں ٹائمنگ انتہائی اہم ہوتی ہے، وقت پر درست فیصلے نہ لیے جائیں تو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اسمبلی کے فلور پر میثاق معیشت کی آفر کی گئی مگر اس وقت یہ کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے، پھر جب اقتدار گیا، سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو بات چیت کیلئے تیار ہوئے مگر اس وقت بڑی جماعتیں راضی نہ ہوئیں۔ آج معاشرے میں نفرت، تعصب اور انتقام کی فضا ہے، سوشل میڈیا نے گالم گلوچ کلچر کو فروغ دیا ہے۔
لوگ ایک دوسرے کے نظریات کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور ضابطہ اخلاق تیار کریں کہ ملک کو کس طرح آگے لے کر بڑھنا ہے۔
ہمارے ہاں ہر حوالے سے قوانین موجود ہیں، ان پر عملدرآمد کرنا ہے ۔ 1973ء کا آئین موجود ہے، اس کی روشنی میں معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ میرے نزدیک ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو نیا میثاق جمہوریت کرنا ہوگا جس میں سیاستدان، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔
ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کیلئے سوچنا ہوگا۔ یہ نوجوان ہمارا مستقبل اور اہم حصہ ہیں،ا نہیں پالیسی سازی میں شامل کرنا ہوگا۔ انہیں نظر انداز کرکے ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
رمضان چودھری
(سینئر قانون دان )
سب ایک دوسرے کو چور اورکرپٹ کہہ رہے ہیں۔ اس الزام تراشی میں کسی کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہی۔ ایک دوسرے کے نظریے سے اختلاف کے باعث سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں۔
اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ جمہوریت میں ایک دوسرے کی رائے اور نظریے کا احترام کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں کوئی کسی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں تو 1973ء کا متفقہ آئین دینے والی شخصیات قد آور تھی۔ ان کے آپس میں شدید اختلافات تھے۔
یہ ایسی شخصیات تھی جن کے کہنے پر خدانخواستہ ملکی سلامتی کو خطرات ہوسکتے تھے مگر جہاں ملک کی بات آئی وہاں انہوں نے اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالا۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک ایسی دستاویز دی جس نے آج تک ملک کو جوڑ کر رکھا ہے۔ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ آج ہمیں وضع داری نظر نہیں آرہی، اجتماعی سوچ کا فقدان اور ذاتیات کا فروغ نظر آتا ہے۔ ہمیں ملکی مفاد کو مقدم اور سب سے پہلے رکھنا ہوگا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ آئینی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عدالتی حکم کے باوجود انتخابات نہیں کروائے گئے۔ ہم ارباب اختیار کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آئین کو نظر انداز کیا گیا، انتخابات وقت پر نہ ہوئے، فروری ، مارچ سے بھی آگے چلے گئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ملک کا فائدہ آئینی حدود میں رہ کر ہی ہے۔
اس وقت ملک میں شدید پولرائزیشن ہے جس نے کسی ادارے کو نہیں چھوڑا۔ حالات سنگین ہیں مگر ہاتھ سے نہیں نکلے لہٰذا سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، ادارے و تمام سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیںاور آگے بڑھنے کیلئے لائحہ عمل تیار کریں۔ یاد رکھیں! احتساب احتساب بہت کھیل لیا، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، سب کو گریٹر ایمنسٹی دیں اور آگے بڑھیں، ایک بار ملک کو درست سمت مل گئی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ارباب اختیار اور سٹیک ہولڈرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قومیں جنگوں سے نہیں بات چیت سے بنتی ہیں۔
اس وقت ضرورت یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے گریٹر ڈائیلاگ کیا جائے، آئین پاکستان کی روشنی میں آگے بڑھا جائے اور ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالا جائے۔ ملک میں گزشتہ 15 برس سے جمہوری تسلسل ہے، اگر سیاستدانوں نے اب بھی نہیں سیکھا تو کس کا قصور ہے؟ انہیں اور کتنا وقت چاہئے؟سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں، خرابیاں تلاش کریں اور انہیں دور کرنے کیلئے کام کریں۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار)
ماضی میں اینٹی اور پرو پیپلز پارٹی سیاست ہوتی تھی۔ 2011ء کے بعد یہ اینٹی اور پروتحریک انصاف میں بدل گئی۔ ماضی میں بھی سب کچھ ایسے ہی ہوتا رہا مگر منظر عام پر اس طرح سے نہیں آتا تھا جس طرح اب سوشل میڈیا کے دور میں آیاہے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں پولرائزیشن میں اضافہ ہوا۔ سیاست محض جذباتی نعروں اور ذاتیات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، ایک دوسرے پر دشمن اور غدار کے الزامات لگائے جاتے ہیں، چور، کرپٹ کے نعرے عام سی بات ہوگئی ہے۔
جو کچھ 90 ء کی دہائی میں ہوا، وہی اب ہو رہا ہے۔اس سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان کو عدم استحکام کی صورت میں بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ اس وقت آئین، سیاست، پارلیمان، جمہوریت، قانون، ادارے، عوام سب کمزور ہیں۔ معاشی طور پر ہمارا انحصار عالمی اداروں اور برادر اسلامی ممالک پر ہے۔
سی پیک منصوبے کے فیز ٹو کا آغاز ہوا ہے مگر امریکا اور چین کے آپسی مسائل کے اثرات ہم پر پڑیں گے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی معاملات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ بھارت ہم سے بات چیت کیلئے تیار نہیں، افغانستان کی طالبان حکومت سے جو توقع کی جا رہی تھی ویسا نہیں ہوا بلکہ اب معاملات غیر تسلی بخش ہیں۔ بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا، کاروباری طبقات، سول ملٹری سمیت سب میں مقابلہ آرائی کی فضا ہے۔ اس سب میں عام آدمی لاتعلق ہوتا جا رہا ہے۔
افسوس ہے کہ اسلام آباد میں بالادستی کی لڑائی نے ملک کو کمزور کیا جو ریاستی بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے، کوئی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔میثاق جمہوریت، نیشنل ایکشن پلان جیسے اقدامات کے گئے مگر ان پر عمل نہیں ہوا، آج کوئی بھی ریاستی ادارہ مسائل سے خالی نہیں۔ پارلیمنٹ میں جو قانون سازی ہو ئی ہے اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام خصوصاََنوجوانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ان میں تناؤ، غصہ، نفرت، تعصب اور عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ گالم گلوچ کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم نوجوانوںپر تنقید تو کرتے ہیں مگر یہ سب انہیں کس نے دیا؟ محاذ آرائی کی سیاست تو سیاسی جماعتوں نے کی اور پراپیگنڈہ کیلئے نوجوانوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔موجودہ مسائل کا واحد حل اصلاحات ہیں۔
اگر ہم ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں تو سیاسی، سماجی، معاشی اور سٹرکچرل ریفارمز لانا ہونگی۔سیاسی جماعتوں، میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا، سول سوسائٹی کو زندہ ہونا ہوگا، ملکی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی،اسے ری سٹرکچر کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہے کہ اندرونی بحرانوں کو دور کیے بغیر معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔