اقلیتوں کے خلاف انتہاپسندی اور نفرت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ یہ سوال ایک عرصے سے اقلیتوں کے ذہنوں میں سمایا ہوا ہے اور ملک میں جب بھی اقلیتوں کے کوئی خلاف کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ اکثریت کو کیسے یقین دلائیں کہ وہ بھی پاکستانی ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے جڑانوالہ واقعے میں بھی ماضی کے واقعات کی طرح کی کہانی دہرائی گئی اور توہین قرآن کے واقعے کے بعد کسی تحقیق اور قانونی کارروائی کے بغیر مسیحی بستیوں پر قیامت ڈھا دی گئی۔
مذکورہ واقعے کے بعد میڈیا نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے پروگرامز بھی کیے جن میں اقلیت کے ساتھ اکثریت کی طرف سے بھی مختلف لوگوں کی آرا لی گئی اور کم و بیش سب کا نقطہ نظر یہی تھا کہ جڑانوالہ کے مسیحیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ توہین کے مرتکب افراد کو پکڑا جاتا باقی مسیحیوں کو سزا دینے کی کیا ضرورت تھی۔
واقعے کی جزئیات مختلف میڈیا میں مختلف طریقوں سے سامنے آئی ہیں۔ لیکن یہ سن کر واقعی تعجب ہوا کہ کیا یہ گستاخی کے مرتکب اس قدر فاترالعقل ہیں کہ انھوں نے ان مقدس اوراق کے ساتھ اپنے نام اور تصاویر بھی دیں۔ کوئی بھی ذی شعور ایسا نہیں کرسکتا اور خاص طور پر اس وقت جب دنیا کے چند ممالک میں قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی اور پاکستان سمیت پوری دنیا ان واقعات پر غم و غصہ کا اظہار کررہی ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی غیر مسلم قرآن شریف کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جن ملزمان کے نام اُن مقدس اوراق پر درج ہیں وہ ایک غریب مسیحی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا والد درجہ چہارم کا ملازم ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اُن کی گرفتاری عمل میں لائی جاچکی ہے اور اب اُن کا فیصلہ عدالتیں کریں گی کیونکہ اس قسم کے واقعات کےلیے باقاعدہ قانون موجود ہے۔
اس واقعے کے بعد مشتعل افراد کی جانب سے مسیحی بستیوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ آئی جی پنجاب عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 چرچز جلائے گئے جبکہ 85 گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ مسیحیوں کے مطابق کرسچن کالونی میں کیتھولک سینٹ پال چرچ اور تاریخی دی سالویشن آرمی چرچ سمیت شہر بھر میں 20 سے زائد چرچز جلائے گئے، ان میں زیادہ تر وہ چرچ تھے جو مسیحیوں نے اپنے محلوں میں بنائے ہوئے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے ہی اقلیتیں اپنے آپ کو محب وطن پاکستانی ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ملک میں ہر شعبے میں اقلیتوں کا حصہ نمایاں ہے لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کو یہ احساس دلانا کہ آپ اقلیت اور کمزور ہیں تو بحیثیت اکثریت ہم آپ کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں جب لوگوں کو اُکسانے کےلیے پہلا اعلان کیا گیا تو اُس وقت مقامی انتظامیہ حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ جب لوگ مشتعل ہوکر اکٹھے ہورہے تھے تو اس وقت معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پولیس کی زیادہ نفری اور رینجرز کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ ان سارے اقدامات کےلیے پروسیجرز فالو کرنا پڑتے ہیں لیکن جڑانوالہ کی مسیحی اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے، بروقت فیصلے کرنے سے شاید اسے روکا جاسکتا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس واقعے کا سارا قصوروار اُس مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کو ٹھہراتے ہوئے اسے معطل کردیا گیا۔
سانحہ جڑانوالہ سے متعلق ویڈیوز میں ایک بات پر بہت تاسف ہوا کہ حملہ، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے جو کہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان بچوں کے ذہنوں میں بھی انتہاپسندی کا جنون ڈال دیا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کی اکثریت ایسے مذہب کو مانتی ہے جو پیار، محبت اور امن کا درس دیتا ہے۔
موجودہ حکومت سے استدعا ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے اُن تمام افراد کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں کڑی سزا دیں جو اس تمام واقعے کے مرکزی کردار ہیں۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت، عدالتیں اور پاک فوج اقلیتوں کو خوف کی صورتحال سے نکالتے ہوئے انہیں دوبارہ اپنے گھرو ں میں بسانے کےلیے ہر ممکن مدد کرے۔ مسیحیوں کے مالی نقصان کے ازالے کےلیے حکومت فوری طور پر اقدامات کرے۔ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین پر عملدرآمد کرانے کےلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور بستیوں، اسکولوں، اسپتالوں کی حفاظت کےلیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں اور اس تاثر کو زائل کرنے کی پوری کوشش کی جائے کہ اقلیتیں اس ملک میں غیر محفوظ ہیں۔
اقلیتوں نے ابھی چند دن پہلے ہی اپنی عبادت گاہوں میں جشن آزادی کے پروگرامز منعقد کیے اور قومی اسمبلی میں باقاعدہ طور پر اقلیتی سیاستدان نے برملا کہا کہ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُتنا ہی مانتے ہیں جتنا مسلم مانتے ہیں۔ اس لیے حکومت کی اہم ذمے داری ہے کہ اقلیتوں کے خدشات دور کرکے انہیں اس حقیقت سے دوچار کریں کہ وہ اکثریت سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔