محکمہ فائر بریگیڈ میں آلات کا فقدان ملازمین کی تربیت کا بھی انتظام نہیں

2009کے بعد سے کوئی فائر ٹینڈر نہیں خریدا گیا، صرف30 گاڑیاں صحیح ہیں

ہیوسٹن کی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیے جانیوالے آلات بھی استعمال میں نہیں لائے جا رہے ہیں، آلات فائرمینوں کے حوالے کردیے جاتے تو کئی جانیں بچائی جاسکتی تھیں، ذرائع۔ فوٹو: فائل

سانحہ بلدیہ ٹائون میں جہاں دیگر متعلقہ اداروں کی غفلت وبے حسی سامنے آئی ہے وہیں بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ فائر بریگیڈ کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آتشزدگی کے موقع پر امدادی سرگرمیوں میں متعلقہ اداروں کی ناقص حکمت عملی سامنے آئی ہے، آپریشن کے دوران جدید آلات اور ہیلی کاپٹر کی کمی بڑی محسوس کی گئی جس کی عدم موجود گی کے باعث کئی قیمتیں جانیں نہ بچائی جاسکیں اور ریسکیوآپریشن پوری توانائیوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکا۔

علاوہ ازیں مشتعل ہجوم نے بھی فائر ٹینڈرز کو نقصان پہنچایا اور امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنے، اگر منتخب بلدیاتی نمائندے ہوتے تو ہجوم کو بھی کنٹرول کرنے میں آسانی ہوتی اور امدادی سرگرمیاں بھی پوری توانائی کے ساتھ کی جاتیں۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کا محکمہ فائر بریگیڈ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، 2009کے بعد سے کوئی فائر ٹینڈر نہیں خریدا گیا جبکہ فائر مینوں کو ضروری آلات اور ماسک بھی فراہم نہیں کیے گئے ہیں، جدید خطوط پر ملازمین کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں، ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کے اعلیٰ حکام کی ترجیحات میں محکمہ فائر بریگیڈ کو جدید آلات سے آراستہ کرنے کی پالیسی نہیں۔


اس وقت محکمہ فائر بریگیڈ ناقص آلات، ناکارہ فائر ٹینڈرز، فائر فائٹرز کی کمی اور ان کیلیے ضروری آلات کے فقدان جیسے مسائل کا شکار ہے، محکمے کے پاس تقریباً 3 اسنارکل سمیت47فائر ٹینڈرز ہیں جن میں صرف30گاڑیاں صحیح ہیں جبکہ بقیہ گاڑیاں خراب پڑی ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند سال قبل امریکی ریاست ہیوسٹن کی انتظامیہ نے کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کو استعمال کیے ہوئے صحیح کنڈیشن کے کروڑوں روپے کے جدید آلات مفت فراہم کیے تھے جو سہراب گوٹھ کی ورکشاپ پر پڑے پڑے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے ہیں تاہم انھیں استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔

ان آلات میں جدید ماسک اور فائر فائٹنگ کے لباس وہیلمٹ بھی ہیں مگرانھیں فائرمینوں کے حوالے کبھی نہیں کیا گیا، ذرائع نے کہا کہ اگر یہ آلات فائرمینوں کے حوالے کردیے جاتے تو سانحہ بلدیہ ٹائون میں استعمال کرکے کئی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں، ذرائع نے بتایا کہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق 2 لاکھ آبادی پر ایک جدید فائر اسٹیشن تعمیر ہونا چاہیے جس میں 4فائر ٹینڈر ہوں اور کم سے کم 30ہزار گیلن پانی کی سہولت موجود ہو، ہر10لاکھ آبادی پر ایک اسنارکل ہونا چاہیے۔

اس وقت محکمہ فائر بریگیڈ کے زیر انتظام صرف 20فائر اسٹیشن ہیں جن میں ایک یا دو فائر ٹینڈر موجود ہیں جبکہ فائرمینوں کی تعداد تقریباً 1300ہے جو جدید سہولیات و تربیت سے محروم ہیں، ذرائع نے بتایا کہ آتشزدگی سے متاثرہ عمارت میں کئی افراد نے جانیں بچانے کیلیے چھتوں سے چھلانگ لگائی جس سے وہ شدید زخمی ہوئے، متعلقہ اداروں کے پاس ان افراد کو بچانے کیلیے نیٹ کی سہولت بھی نہیں تھی جبکہ اعلیٰ حکام نے ہیلی کاپٹر کی سہولت منگوانے کی زحمت نہیں کی، اس قومی سانحے میں شہریوں نے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی کمی محسوس کی۔

ایک ادنیٰ کونسلر یا یوسی وٹائون ناظم نہ صرف مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا بلکہ رضاکاروں کے حوصلے بھی بلند کرتا، سابقہ شہری حکومت کراچی کے دور میں مختلف آتشزدگی کے واقعات میں 18 فائرمینوں سمیت5افسر جام شہادت نوش کرچکے تاہم اب متعلقہ حساس ادارے وملازمین کو نظرانداز کیے جانے کے باعث فائرمینوں کے حوصلے اتنے بلند دکھائی نہیں دیے، سماجی رہنما ندیم شیخ نے کہا کہ کراچی میں آتشزدگی کے واقعات پر قابو پانے کیلیے محکمہ فائر بریگیڈ کو جدید خطوط پر آراستہ کیا جانا ناگزیر ہوچکا ہے۔
Load Next Story