المناک ٹریفک حادثات کا تسلسل اور روڈ سیفٹی

پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے

فوٹو: فائل

موٹروے ایم 4پر پنڈی بھٹیاں ٹول پلازہ کے قریب مسافر بس کو خوفناک حادثے کے نتیجے میں انیس افراد زندہ جل گئے جب کہ چودہ زخمی ہوئے۔ بس کراچی سے اسلام آباد آرہی تھی جو پک اپ سے ٹکرا گئی جس میں ڈیزل کے ڈرم تھے جس سے آگ بھڑک اٹھی، نعشیں جل کر ناقابل شناخت ہوگئیں۔

کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات میں موجود اوور ٹیکنگ کا شوق اور تیز رفتاری کا جنون جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات تو جیسے رن وے پر طیارے دوڑاتے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سڑکوں پر چھوٹی سواریوں کا بالکل خیال نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ٹرک، بسوں کی ریس اور تیز رفتاری کا جنون بڑے حادثات کا سبب بنتا ہے، جب کہ گاڑیوں کو بغیر مینٹیننس اور فٹنس کے سڑکوں پر چلانے سے بھی ٹریفک حادثات ہوتے ہیں کیونکہ بغیر مینٹیننس کی گاڑیوں کے بریک بھی فیل ہوجاتے ہیں اور ٹائروں کو وقت کے ساتھ تبدیل نہ کروانا اور ان کا سڑک پر اچانک پنکچر یا پھٹ جانا بھی اس کی وجہ بنتا ہے۔

کہیں ناقص سی این جی کٹس کہیں اوورلوڈنگ تو کہیں اوور ٹیکنگ ٹریفک حادثوں کا باعث بن رہی ہے، تو وہیں ڈرائیورزکی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان کی غفلت اور لا پرواہی کے نتیجے میں کتنے معصوم جان سے جاتے ہیں۔

پاکستان میں روڈ ایکسیڈنٹ کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان کھو دیتے ہیں اور ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔

صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ درجنوں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، جن میں ہر روز اوسطاً آٹھ سے دس لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ شہروں کے اطراف میں آبادی کا ارتکاز، ٹریفک مسائل میں روز بروز اضافہ کا سبب ہے، مگر انھیں حل کرنے کے لیے کوئی بہتر حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں ٹریفک سے متعلقہ آرڈیننس بہت پرانے ہیں جنھیں روزمرہ کے بڑھتے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپڈیٹ کرنے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ بڑی شاہراہوں پر حادثات کی ایک بڑی وجہ مال بردار ٹرک اورگاڑیاں ہیں، سڑکوں پر ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔

ٹریفک حادثات کی دیگر بڑی وجوہات میں سڑکوں کی خستہ حالی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد المدت ٹائروں کا استعمال شامل ہے، لیکن ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والے کا جلد باز رویہ ہے۔

80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے قطعاً تیار نہیں، اور یہ ہی جان لیوا ٹریفک کے مسائل اور حادثات کی بنیادی وجہ ہے، جب تک ہم اپنے رویوں کو درست نہیں کریںگے۔

اس وقت ٹریفک حادثات میں کمی ممکن نہیں، نو عمر افراد اپنے پرجوش رویے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات کے سائن اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، بلکہ اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے، اور ان میں موجود تیز رفتار گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔

بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک سے متعلق شعور کی بیداری کے لیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہیے، تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے تیار کیا جاسکے۔

ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، اور دوران سفر جلد بازی سے احتیاط کرتے ہوئے دوسری ٹریفک کا خیال رکھیں اور بالخصوص پیدل افراد کو راستہ دیں۔


سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے افراد کو پہنچنے والے نقصان پر حادثات کی شدت اور اس کے نتائج کے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حادثات سے زخمی و جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے صحت کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ وفاقی، صوبائی، علاقائی اور ضلعی سطح پر اسپتالوں میں ایمرجنسی کے لیے تربیت یافتہ عملہ تعینات کرنا چاہیے۔گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔

پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتیں، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات سب کے سامنے ہی ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو وسائل دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔

یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ ان کمپنیوں کو ذمے داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نا صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کے سامنے غیرمعیاری اسپیڈ بریکرز بنا کر ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں ایجاد ہونے والا موٹر سائیکل ریڑھا بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے جو کہ دور سے آتے ہوئے تو موٹر سائیکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ روڈ کے اطراف میں موجود ناجائز تجاوزات اور گاڑیوں کی غلط پارکنگ بھی حادثات کا باعث بنتی ہے۔

ریاست کے چوتھے ستون پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی عوام میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا شعور اجاگر کرنے اور ٹریفک مسائل کے تدارک میں اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

ہر ٹریفک حادثے کے بعد اہل اقتدار کی جانب سے قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر محض اظہار افسوس کافی نہیں، بلکہ حکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے موثر عملی اقدامات ضروری ہیں، اس کے علاوہ شہریوں میں روڈ سیفٹی سے متعلق سوچ اور رویوں میں بہتری کے لیے اقدامات بھی ضروری ہیں۔

ڈرائیورز حضرات کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا پابند کیا جانا چاہیے، سڑکوں کے درمیان موجود کھلے مین ہول ختم اور سڑکوں کی اطراف سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جانا چاہیے، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال پر سخت سزا، ڈرائیورز کو لائن اور لین کا پابند، اور اوور سلو موونگ گاڑیوں کے ڈرائیورز کو تربیت دی جانی چاہیے تاکہ سڑکیں حادثات سے محفوظ، اور شہریوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ یقینی ہوسکے۔

اس کے علاوہ ملک بھر میں قومی اور صوبائی سطح پر روڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور روڈ سیفٹی سے آگاہی کے لیے ہر گھر، ہر اسکول، کالج اور ادارے میں خصوصی مہم چلانی چاہیے تاکہ روز بروز بڑھتے حادثات سے شہریوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔

ٹریفک حادثات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری ادارے سول سوسائٹی اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملکر کام کریں، کیونکہ روڈ سیفٹی کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمے داری ہے اس لیے ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنا چاہیے۔

کسی بھی ملک کا نظام شہریوں کے تعاون کے بغیر چلنا ناممکن ہے اس لیے عوام کی جانب سے حکومت پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ وہ محفوظ سڑکیں بنائے اور سڑکوں پر تحفظ کے معیار کو بلند کرے۔

شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ روڈ سیفٹی کے قوانین سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں کیوں کہ ملکی نظام کو بہتر بنانا صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی بلکہ شہریوں کے لیے بھی ٹریفک قوانین کی پیروی کرنا لازمی ہے، اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔
Load Next Story