اقلیت ہونے کی سزا تو بنتی ہے

دنیا میں دو بڑے مذاہب ہیں۔اکتیس فیصد لوگ خود کو مسیحی کہتے ہیں اور چوبیس فیصد مسلمان ہیں

آج اقوامِ متحدہ کے تحت ( بائیس اگست ) مذہب کی بنیاد پر تشدد کے شکار لوگوں سے اظہارِ یکجہتی کا چوتھا سالانہ عالمی دن منایا جا رہا ہے۔اس کا مقصد ہر ریاست ، سماج اور فرد کو جتانا ہے کہ عقیدہ اور اس پر عمل کی بلا جبر و خوف آزادی بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کا لازمی جزو ہے اور اس چارٹر کو جن جن ریاستوں نے تسلیم کیا ہے وہ پابند ہیں کہ اس آزادی پر بلا رکاوٹ قانونی اور آئینی عمل درآمد یقینی بنائیں ، عدم رواداری کو فروغ دینے والی سوچ کی ہر مرحلے پر حوصلہ شکنی کریں اور ایسی قانون سازی کریں جس سے مذہبی اقلیتیں سماجی ، معاشی و سیاسی زیادتیوں سے جامع انداز میں محفوظ رہ سکیں۔

اگرچہ عقیدے کی بنیاد پر کسی فرد ، گروہ یا نظریے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ مگر اکیسویں صدی میں فروغِ شعور کے دعوؤں کے باوجود تشدد میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے تحت ایک خصوصی ایلچی کئی برس سے عالمی پیمانے پر مذہب کے نام پر زیادتیوں کی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔ مقصد ایسے تشدد کو نظرانداز کرنے والی ریاستوں کو ان کے بنیادی فرائض یاد دلانا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ بھی مذہبی آزادی کی عالمی صورتِ حال پر سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں ہر ملک کا احوال فرداً فرداً بیان کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ کئی بین الاقوامی تھنک ٹینک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے اپنے طور پر مذہبی جبر کے تعلق سے علاقائی و بین الاقوامی رپورٹیں جاری کرتی رہتی ہیں۔ان رپورٹوں کو کچھ ریاستیں سنجیدگی سے لیتی ہیں اور اکثر ایسی رپورٹوں کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیتی ہیں۔

مگر یکسر رد کرنے کے باوجود یہ ریاستیں بہرحال بین الاقوامی رائے عامہ کے ریڈار پر نمایاں رہتی ہیں اور انھیں دنیا کے سامنے اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے تھوڑی بہت سنجیدگی کا بہرحال بلاواسطہ ہی سہی مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔بھلے وہ لیپاپوتی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ عالمی سطح پر اس مسئلے پر مسلسل توجہ کچھ نہ کچھ فائدہ مند ہی ثابت ہوتی ہے۔

مذہبی عدم رواداری الگ سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ کئی دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔مثلاً بہت سے ممالک میں کسی ایک اقلیت کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے تادیبی و انتظامی قوانین کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔نسل پرستی کو بھی ہم خیال متشدد گروہوں کی مدد سے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ناپسندیدہ اقلیتوں کی حب الوطنی و شہریت کو طرح طرح سے چیلنج کیا جاتا ہے۔ان کی املاک و کاروبار کو نت نئے قوانین کے پردے میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس بابت ریاستی ادارے غیر ریاستی گروہوں کو بھی بلاواسطہ اپنے امتیازی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان اقلیتوں کو اکثریتی سماج سے بالکل الگ تھلگ کر کے اجنبیت کی کھائی میں پھینک دیا جائے تاکہ وہ یا تو خود ہی درجہ دوم اور سوم کے شہری ہونے پر سمجھوتہ کر لیں یا پھر اپنی دھرتی ہی چھوڑ دیں۔

اس وقت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں کسی نہ کسی مذہبی یا نسلی اقلیت کو ریاست یا اکثریتی گروہوں کی جانب سے زبانی و جسمانی تشدد کا سامنا نہ ہو۔

دنیا میں دو بڑے مذاہب ہیں۔اکتیس فیصد لوگ خود کو مسیحی کہتے ہیں اور چوبیس فیصد مسلمان ہیں۔ ان کے بعد ہندو ، بودھ اور یہودی ہیں۔

چین سمیت بہت سی ریاستیں خود کو لامذہب تسلیم کرتی ہیں۔جب کہ کئی ریاستیوں میں مسیحی یا مسلم اکثریت ہونے کے باوجود ریاست کا اپنا کوئی تسلیم شدہ سرکاری مذہب نہیں۔چند ریاستوں نے کسی ایک مذہب کو سرکاری درجہ بھی دے رکھا ہے اور اسی کی روشنی میں آئین و قانون سازی بھی ہوتی ہے۔


امریکی تھنک ٹینک پئیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مسیحی آبادی کو دنیا کے ایک سو پینتالیس ممالک میں طرح طرح کے امتیازات سے سابقہ پڑتا ہے۔مسلم کمیونٹیز کو ایک سو انسٹھ ممالک میں عدم تحفظ کا سامنا ہے۔جب کہ اکیانوے ممالک میں یہودی اقلیت کو عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

اگر ہم اپنے خطے پر دھیان دیں تو مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بالخصوص مسلمانوں اور مسیحوں کے خلاف عدم رواداری کے واقعات میں گزشتہ نو برس سے سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اب یہ معمول بن گیا ہے کہ ہندو مذہبی تہواروں کے موقع پر بہانے بہانے سے مسلمانوں اور مسیحوں کے خلاف تشدد بھڑک جاتا ہے۔مثلاً گزشتہ مارچ میں رام نومی کے موقع پر گجرات ، مدھیہ پردیش اور بہار میں مسلمانوں کو انفرادی و معاشی طور پر نشانہ بنانے کے متعدد واقعات سامنے آئے اور ان کی شدت پچھلے برس کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

ایسے مواقع پر گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں مگر ان کا نشانہ بھی زیادہ تر اقلیتی فرقہ بنتا ہے۔گزشتہ ایک برس سے بالخصوص یہ طریقہ شروع ہو گیا ہے کہ کسی پر بھی شرپسندی کا الزام لگا کے عدالتی احکامات کے تکلف میں پڑے بغیر سرکاری بلڈوزروں کی زریعے املاک مسمار کر دی جاتی ہیں۔

نیز ان اقلیتوں کا معاشی بائیکاٹ بھی معمول بنتا جا رہا ہے۔تازہ ترین واقعات دلی کی ہمسایہ ریاست ہریانہ کے گوڑ گاؤں ضلع میں ہوئے اور ان میں یہی پیٹرن دہرایا گیا۔

جہاں تک پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حالات ہیں تو کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی رپورٹوں میں پاکستان کا نام چوٹی کے ان بیس ممالک میں نہ آتا ہو جہاں مذہبی رواداری سال بہ سال تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی ) کی فروری میں شایع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں کو پہلے سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ ، اغوا ، جبری شادیوں ، جبری تبدیلی مذہب ، ہجوم کے ہاتھوں عبادت گاہوں کے انہدام اور اپنی شناخت چھپانے پر مجبور کرنے کے لیے مسلسل معاندانہ فضا کا سامنا ہے۔بالخصوص پنجاب میں اقلیتیں نہیں جانتیں کہ کب ان کی بستیاں گوجرہ ، جوزف کالونی یا جڑانوالہ کی طرح جلنے لگیں یا ان کی عبادت گاہیں مسمار ہو جائیں۔

کہنے کو پاکستانی آئین میں اقلیتوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔توہینِ مذہب کے قوانین اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی مقدس ہستیوں اور عبادت گاہوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔مگر عملاً غیض و غضب کا نشانہ اقلیتیں ہی ہیں۔

ریاست کی جانب سے مذمت بھی بھرپور کی جاتی ہے۔متاثرین کے نقصانات کے ازالے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔شرپسندوں کی گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں۔پر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔اور پھر ایسے کسی بھی واقعے کے بین الاقوامی زرایع ابلاغ میں اچھلنے کے بعد کچھ نمائشی اقدامات۔

جرم کرنے والوں کو بھی یقین ہے کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور جرم کا نشانہ بننے والوں کو بھی یقین ہے کہ قانون ان کی جان و مال عزت و آبرو اور عقیدے کی آزادی کے تحفظ میں مکمل بے بس ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story