ریلوے کے حادثات کا تسلسل
ریلوے حکام کی غفلت اور خدمت میں سب سے آگے کے دعوے کرنے والی سندھ حکومت کی کارکردگی کی پول کھل گئی
حالیہ دنوں میں ہزارہ ایکسپریس کے حادثے کے تقریباً 24 گھنٹے بعد ریلوے ٹریک جزوی طور پر بحال ہوئے اور تکنیکی طور پر ٹرینوں کو ان کی منزل کی طرف جانے کا موقع ملا اور بے بس مسافر تقریباً 20 گھنٹوں کی تاخیر سے منزل پر پہنچے جن میں سب سے زیادہ تاخیر کراچی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی گرین لائن ٹرین کی کرائی گئی مگر سرہاری کے قریب پیش آنے والے اس حادثے نے ریلوے حکام کی عدم دلچسپی ظاہر کر دی اور ریلوے حکام کی غفلت اور خدمت میں سب سے آگے کے دعوے کرنے والی سندھ حکومت کی کارکردگی کی پول کھل گئی اور ثابت ہوگیا کہ تین درجن افراد کی ہلاکتوں کا ذمے دار محکمہ ریلوے اور سندھ میں دبی سہولتوں کی فراہمی کے ذمے دار سابق سندھ حکومت اور خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے سرہاری علاقے کے اطراف میں آباد لوگ ہیں جو سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچے اور سب نے سخت گرمی میں اپنی بساط کے مطابق بے حال و لاوارث مسافروں کی مدد کی اور شدید زخمیوں کو بہ مشکل ٹرین سے نکالا اور کھانے پینے کی مد میں جو کچھ ان کے پاس تھا، اس سے انھوں نے زخمیوں اور متاثرین کی مدد اور مہمان نوازی کی۔
خدمت میں سب سے آگے سندھ کے دعویدار سابق وزیر اعلیٰ سندھ ہیلی کاپٹر میں گھنٹوں بعد جب وہاں پہنچے تو ان کے سرکاری پروٹوکول پر لوگ مشتعل ہوگئے اور انھوں نے وزیر اعلیٰ کے دکھاؤے کے دورے پر احتجاج کیا اور ہاتھ جوڑ کر ان سے واپس جانے کا مطالبہ کیا اور سابق وزیر اعلیٰ کو تیز تیز چل کر اپنے ہیلی کاپٹر تک پہنچ کر خود کو محفوظ بنانا پڑا کیونکہ امدادی کاموں میں مصروف سرکاری حکام کو وزیر اعلیٰ کی فکر پڑ گئی تھی اور وہ زخمیوں کے بجائے وزیر اعلیٰ پر توجہ دینے پر مجبور تھے جب کہ حادثے پر رنجیدہ عوام کو زخمیوں کی فکر تھی کہ کسی طرح زخمیوں کو ٹرین سے نکال کر محفوظ جگہ یا ایمرجنسی تک پہنچایا جائے اور شدید زخمیوں کی جان بچائی جا سکے۔
جائے حادثہ کے قریب گھنے درخت بھی نہیں تھے کہ زخمیوں کو شدید دھوپ سے بچایا جاسکتا۔ علاقے میں صرف نوابشاہ کا بڑا اسپتال تھا جب کہ سرہاری میں کوئی ایمرجنسی میں طبی امداد دینے والی سرکاری ڈسپنسری میں برائے نام عام دوائیں تھیں۔
دوپہر اور سخت دھوپ کے وقت یہ حادثہ ہوا جب لوگ پہلے اور سرکاری حکام بعد میں موقع پر پہنچے تو جائے حادثہ پر قیامت خیز منظر تھا۔ الٹی بوگیوں میں بچ جانے والے مسافر اپنے طور پر باہر نکلنے کی جدوجہد کر رہے تھے کئی مسافروں کی لاشیں جائے حادثہ پر پڑی تھیں، بعض کے جسموں کے اعضا بھی وہاں بکھرے پڑے تھے اور اطراف سے مسافروں کے کراہنے اور مددکی آوازیں آ رہی تھیں جائے حادثہ کے قریب نالے میں گرکر متعدد مسافر ہلاک ہوئے۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو آپریشن کے لیے پاک فوج، رینجرز اور ریسکیو عملہ پہنچا اور امدادی سرگرمیاں شروع کی گئیں۔
آرمی چیف کی ہدایت پر حیدرآباد و نواب شاہ سے فوج کے دستے اور رینجرز خوراک اور طبی امداد لے کر پہنچے جن کی مدد کے لیے فوجی ہیلی کاپٹروں کو بھی ریسکیو کے لیے بھیجا گیا، جس وقت فوج اور لوگ شدید زخمیوں کو بچانے میں مصروف تھے تو اس وقت لاہور میں سابق ریلوے وزیر بتا رہے تھے کہ انھیں فکر تھی کہ ان کی وزارت کے باقی دنوں میں کوئی ریلوے حادثہ نہ ہو جائے۔ ہزارہ ایکسپریس حادثے سے ریلوے حکام کی عدم دلچسپی اور ریلوے کارکردگی کے ساتھ سندھ حکومت کی کارکردگی کا بھی پول کھلا اور سوالات اٹھے ہیں۔
پی پی حکومت نے بڑے شہروں میں علاج کی جدید سہولتیں ضرور فراہم کی ہیں مگر پتا نہیں ہوتا کہ کب اور کس وقت ریلوے لائن پر حادثہ پیش آجائے۔ سرہاری میں دن کے وقت بوگیاں الٹیں اور سرکاری عملے سے قبل علاقے کے مخلص لوگ جائے حادثہ پر پہنچے اگر رات کے وقت حادثہ ہوتا تو زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا اور اندھیرے میں امدادی کاموں میں بھی شدید دشواریوں کا سامنا ہوتا۔
کراچی سے پنجاب و کے پی جانے والی اہم ٹرینیں رات کے وقت ہی کراچی سے روانہ ہو کر سندھ سے اندھیرے میں گزرتی ہیں اور کراچی آنے والی اہم ٹرینیں رات ہی کو سندھ سے گزرتی ہیں جب کہ پنجاب میں ایسا کم ہے اور زیادہ تر ٹرینیں وہاں دن میں سفر کرتی ہیں۔
سندھ میں ریلوے کے پاس صرف روہڑی اور حیدرآباد و کوٹری میں ہنگامی صورت حال کا انتظام ہے جہاں حادثے کی صورت میں ہیوی مشینری، اضافی بوگیاں اور عملہ موجود ہوتا ہے جو چند گھنٹوں بعد ہی جائے حادثہ پر پہنچ جاتا ہے اور ہزارہ ایکسپریس کے حادثے میں وقت لگا اور امدادی ٹرینیں تین چار گھنٹے بعد جائے حادثہ پر پہنچیں۔
ریلوے ٹریک کے اطراف سندھ میں حیدر آباد اور سکھر روہڑی کے درمیان صرف نواب شاہ میں بڑا اسپتال ہے جب کہ چھوٹے شہروں میں پارٹ ٹائم دن میں کھلنے والے چھوٹے اسپتال اور نام کی ڈسپنسریاں ہیں جہاں حادثات کی صورت میں دوائیں بھی نہیں ہوتیں اور ہزارہ ایکسپریس کے زخمیوں کو علاج کی ضروری سہولتیں نہیں ملیں جن کی طرف سندھ حکومت کو توجہ دینی چاہیے تاکہ جانی نقصان کم اور زخمیوں کو فوری امداد مل سکے۔
محکمہ ریلوے کو صرف اپنی آمدنی کی فکر ہے ٹرینوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی کوئی فکر نہیں نہ راستے میں آنے والے اسٹیشنوں پر حادثے کی صورت میں طبی امداد کا انتظام ہے۔
ریلوے ٹریک کمزور اور ہزارہ ٹرین کے انجن کے پہیے خراب ہونے کے انکشافات پر 6 معطلیاں ہوئیں جس کے باعث بڑا جانی نقصان ہوا اور مسافروں کو سخت پریشانی، ٹرینوں کا نظام متاثر ہوا۔ خراب ریلوے ٹریک مسافروں کے جانی نقصان کا سبب ثابت ہو چکے ہیں اس لیے مزید حادثات روکنے کے لیے خراب و کمزور ٹریکوں پر فوری توجہ دی جائے۔