کیا قومی مفاہمت کا ایجنڈا ممکن ہوسکے گا
ان میں جو بداعتمادی کا ماحول ہے وہ ان کو مل بیٹھنے کی طرف مجبور کرسکتا ہے
پاکستان میں طاقت کے مراکز میں جاری سیاسی لڑائی نے ایک بڑے ریاستی بحران کی شکل اختیار کرلی ہے ۔کچھ لوگ اس بحران کو محض ایک سیاسی اور معاشی بحران کے طور پر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن یہ بحران سیاسی اور معاشی نوعیت سے مختلف ہے ۔
کیونکہ یہ بحران ریاست کے درمیان مختلف طاقت کے مراکز یا فریقین کے درمیان ٹکراؤ کے منظر کو پیش کر رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ کوئی معمولی نوعیت کا بحران نہیں بلکہ موجودہ حالات کو غیر معمولی حالات کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اسی بنیاد پر ان مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی جانی چاہیے ۔
ہمیں حالات کی خرابی کو محض کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان حالات کو ایک بڑے فریم ورک میں دیکھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔قومی مسائل کا حل جذباتیت یا فوری منفی ردعمل اور محاذ آرائی کی صورت میں ممکن نہیں ۔
اس وقت قومی سیاست کا المیہ یہ ہی ہے کہ سب ہی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اس سارے عمل میں ہمیں سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی راستے کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ قومی سیاست میں جمہوری مضبوطی کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔
ہائبرڈ نظام کو بنیاد بنا کر اسے جمہوری شکل دینے کی جو کوشش یہاں ہورہی ہے اس کے نتائج سیاست کی سطح پر نہ تو ماضی کی سیاست میں بہتر نکل سکے اور نہ ہی اس کے مثبت اثرات حال یا مستقبل کی سیاست میں بہتر نکل سکیں گے ۔
اگر ہم نے عملا آگے بڑھنا ہے تو ہمیں آئینی ، سیاسی ، قانونی اور جمہوری راستے کو ہی اپنی منزل بنانا ہے اور اسی بنیاد پر اگر ہم نے اپنے ریاستی فریم ورک کو مضبوط بنایا تو اس سے ہم مستقبل کے لیے بہتر امکانات پیدا کرسکیں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان موجودہ سنگین حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا ہے کہ محاذآرائی اور ٹکراؤ کی سیاست سے باہر نکل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔
مفاہمت محض اس بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم یا تو کمزور ہوگئے ہیں یا ہم مفاہمت کے ایجنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
مفاہمت کی بنیادی شرط یہ ہی ہوتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی سیاسی طاقت یا سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی حقیقت کو تسلیم کرکے ہی ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکیں گے ۔اس وقت قومی سیاست میں جو محاذ آرائی کا ماحول ہے اس میں مفاہمت یا بات چیت کی مدد سے ہی سیاسی راستہ کی تلاش کی جا سکتی ہے اور اس کو بنیاد بنا کر ہی ہم بحران سے باہر نکل سکتے ہیں ۔
اس وقت حکومت ہو یا حزب اختلاف ہو یا میڈیا یا سول سوسائٹی میں ہمیں ایک بڑی سیاسی کشمکش سمیت ہیجانی کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ سب ہی طاقت کے لنگوٹ کس کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور سب پر ہی ایک دوسرے کو شکست دینے کا بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے میں جذباتیت کا پہلو اس حد تک آگے چلا جاتا ہے جہاں افراد اور اداروں کے درمیان ٹھراؤ کہیں گم ہوکر رہ جاتا ہے ۔
ایسے میں ہماری جیت ہی دوسرے کے وجود کو ختم کرنا ہوتا ہے اور ایسے میں کوئی بھی آئینی اور قانونی بحث بھی پیچھے رہ جاتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا سیاسی جماعتیں چاہے ان کا تعلق سابقہ حکمران جماعتوں سے ہو یا ان میں آج کی نگران حکومت میں بھی لوگ شامل ہیں مل بیٹھ کر سیاسی راستہ کی تلاش میں سنجیدہ ہیں ۔
پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ، پی ٹی آئی ،مسلم لیگ ق، جے یو آئی ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بحران کی سنجیدگی کے لیے مل بیٹھ سکیں گی ؟بالخصوص تین بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی شامل ہیں۔
ان میں جو بداعتمادی کا ماحول ہے وہ ان کو مل بیٹھنے کی طرف مجبور کرسکتا ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں کس جماعت نے کیا کیا اور کس نے کیا کیا اس سے آگے بڑھ کر مستقبل کے راستے کی تلاش ان کی ترجیحات ہوسکتی ہیں ۔ماضی کا تجربہ یہ ہی بتاتا ہے کہ ہم طاقت کی بنیاد پر نہ توکسی جماعت کو اور نہ ہی کسی قیادت کو ختم کرسکے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان موجودہ تناؤ اور بداعتمادی کے ماحول میں مذاکرات ہونے ہیں تو ان کا سیاسی ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے ۔
اسی طرح یہ سوال بھی زیر بحث رہے گا کہ کیا مذاکرات محض سیاسی قوتوں کے درمیان ہی ہونگے یا ان میں دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی اس مذاکرات کا حصہ ہونگے ۔ اصولی طور پر ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے ایک بڑے سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر سیاسی ، معاشی ، انتظامی اور قانونی بحران سے نمٹ کر کچھ ایسے نکات پر متفق ہوسکیں جو سب کو آگے بڑھنے کا راستہ بھی دے اور ہم کچھ بنیادی نکات پر متفق ہوکر آگے کی طرف بڑھیں ۔
ہمیں مفاہمتی ایجنڈے میں چند نکات پر توجہ دینی ہوگی ان کی نوعیت میں اول سیاسی ، آئینی اور قانونی فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرنا ، دوئم تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود تک محدود کرنا اور دوسروں کے امور میں عدم مداخلت کی پالیسی ۔ سوئم، ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنا، سیاسی حالات کو ایک دوسرے کے لیے سازگار اور قابل قبول بنانا، انتخابات میں ہر جماعت کی آزادانہ شرکت چہارم، ملک میں عام انتخابات کو ہر صورت یقینی بنانا اور ان کی شفافیت پر توجہ دے کر عملی طور پر منصفانہ انتخابات کا عمل ، چند بنیادی معاشی نکات پر متفق ہوکر اتفاق رائے پیدا کرنا ، انسانی حقوق کی قدروں کی بحالی اور ان کو مکمل تحفظ دینا شامل ہیں ۔
پاکستان میں موجود تمام سیاسی فریقین کی اگر پہلی ترجیح مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگی تو ہم یقینی طور پر مفاہمت کا راستہ نکال سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سب ہی اپنی اپنی موجودہ سخت گیر پوزیشن سے باہر نکلیں اور سب ہی اپنی اپنی جگہ سے ایک یا دو قدم پیچھے ہٹیں اور ان کے سامنے ذاتی معاملات کے مقابلے میں ریاستی مفاد کی ترجیح بنیادی شرط ہونی چاہیے ۔
کیونکہ جب ہم خود کو ریاستی اور معاشرتی مفاد سے نیچے رکھ کر دیکھیں گے تو ہم ریاست کے مفادات کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں ۔لیکن اگر ہم نے اب بھی ان سنگین حالات میں مفاہمت ، بات چیت اور مکالمہ کا راستہ تلاش کرکے آگے بڑھنے سے گریز کیا تو اس کا نتیجہ مزید انتشار و ٹکراؤ کی سیاست کے نتیجے میں سامنے آئے گا ۔
اس کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ سب ہی ان حالات کے ذمے دار ہونگے ۔ اس لیے گیند تو اب بھی اہل سیاست کی کورٹ میں ہے کہ وہ مفاہمت یا ٹکراؤ میں سے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ بحران ریاست کے درمیان مختلف طاقت کے مراکز یا فریقین کے درمیان ٹکراؤ کے منظر کو پیش کر رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ کوئی معمولی نوعیت کا بحران نہیں بلکہ موجودہ حالات کو غیر معمولی حالات کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اسی بنیاد پر ان مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی جانی چاہیے ۔
ہمیں حالات کی خرابی کو محض کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ان حالات کو ایک بڑے فریم ورک میں دیکھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔قومی مسائل کا حل جذباتیت یا فوری منفی ردعمل اور محاذ آرائی کی صورت میں ممکن نہیں ۔
اس وقت قومی سیاست کا المیہ یہ ہی ہے کہ سب ہی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اس سارے عمل میں ہمیں سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی راستے کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ قومی سیاست میں جمہوری مضبوطی کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔
ہائبرڈ نظام کو بنیاد بنا کر اسے جمہوری شکل دینے کی جو کوشش یہاں ہورہی ہے اس کے نتائج سیاست کی سطح پر نہ تو ماضی کی سیاست میں بہتر نکل سکے اور نہ ہی اس کے مثبت اثرات حال یا مستقبل کی سیاست میں بہتر نکل سکیں گے ۔
اگر ہم نے عملا آگے بڑھنا ہے تو ہمیں آئینی ، سیاسی ، قانونی اور جمہوری راستے کو ہی اپنی منزل بنانا ہے اور اسی بنیاد پر اگر ہم نے اپنے ریاستی فریم ورک کو مضبوط بنایا تو اس سے ہم مستقبل کے لیے بہتر امکانات پیدا کرسکیں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان موجودہ سنگین حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا ہے کہ محاذآرائی اور ٹکراؤ کی سیاست سے باہر نکل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔
مفاہمت محض اس بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم یا تو کمزور ہوگئے ہیں یا ہم مفاہمت کے ایجنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اپنے سیاسی مخالفین پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
مفاہمت کی بنیادی شرط یہ ہی ہوتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی سیاسی طاقت یا سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی حقیقت کو تسلیم کرکے ہی ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکیں گے ۔اس وقت قومی سیاست میں جو محاذ آرائی کا ماحول ہے اس میں مفاہمت یا بات چیت کی مدد سے ہی سیاسی راستہ کی تلاش کی جا سکتی ہے اور اس کو بنیاد بنا کر ہی ہم بحران سے باہر نکل سکتے ہیں ۔
اس وقت حکومت ہو یا حزب اختلاف ہو یا میڈیا یا سول سوسائٹی میں ہمیں ایک بڑی سیاسی کشمکش سمیت ہیجانی کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ سب ہی طاقت کے لنگوٹ کس کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور سب پر ہی ایک دوسرے کو شکست دینے کا بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے میں جذباتیت کا پہلو اس حد تک آگے چلا جاتا ہے جہاں افراد اور اداروں کے درمیان ٹھراؤ کہیں گم ہوکر رہ جاتا ہے ۔
ایسے میں ہماری جیت ہی دوسرے کے وجود کو ختم کرنا ہوتا ہے اور ایسے میں کوئی بھی آئینی اور قانونی بحث بھی پیچھے رہ جاتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا سیاسی جماعتیں چاہے ان کا تعلق سابقہ حکمران جماعتوں سے ہو یا ان میں آج کی نگران حکومت میں بھی لوگ شامل ہیں مل بیٹھ کر سیاسی راستہ کی تلاش میں سنجیدہ ہیں ۔
پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ ن ، پی ٹی آئی ،مسلم لیگ ق، جے یو آئی ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بحران کی سنجیدگی کے لیے مل بیٹھ سکیں گی ؟بالخصوص تین بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی شامل ہیں۔
ان میں جو بداعتمادی کا ماحول ہے وہ ان کو مل بیٹھنے کی طرف مجبور کرسکتا ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ ماضی میں کس جماعت نے کیا کیا اور کس نے کیا کیا اس سے آگے بڑھ کر مستقبل کے راستے کی تلاش ان کی ترجیحات ہوسکتی ہیں ۔ماضی کا تجربہ یہ ہی بتاتا ہے کہ ہم طاقت کی بنیاد پر نہ توکسی جماعت کو اور نہ ہی کسی قیادت کو ختم کرسکے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان موجودہ تناؤ اور بداعتمادی کے ماحول میں مذاکرات ہونے ہیں تو ان کا سیاسی ایجنڈا کیا ہوسکتا ہے ۔
اسی طرح یہ سوال بھی زیر بحث رہے گا کہ کیا مذاکرات محض سیاسی قوتوں کے درمیان ہی ہونگے یا ان میں دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی اس مذاکرات کا حصہ ہونگے ۔ اصولی طور پر ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے ایک بڑے سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر سیاسی ، معاشی ، انتظامی اور قانونی بحران سے نمٹ کر کچھ ایسے نکات پر متفق ہوسکیں جو سب کو آگے بڑھنے کا راستہ بھی دے اور ہم کچھ بنیادی نکات پر متفق ہوکر آگے کی طرف بڑھیں ۔
ہمیں مفاہمتی ایجنڈے میں چند نکات پر توجہ دینی ہوگی ان کی نوعیت میں اول سیاسی ، آئینی اور قانونی فریم ورک میں مسائل کا حل تلاش کرنا ، دوئم تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود تک محدود کرنا اور دوسروں کے امور میں عدم مداخلت کی پالیسی ۔ سوئم، ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنا، سیاسی حالات کو ایک دوسرے کے لیے سازگار اور قابل قبول بنانا، انتخابات میں ہر جماعت کی آزادانہ شرکت چہارم، ملک میں عام انتخابات کو ہر صورت یقینی بنانا اور ان کی شفافیت پر توجہ دے کر عملی طور پر منصفانہ انتخابات کا عمل ، چند بنیادی معاشی نکات پر متفق ہوکر اتفاق رائے پیدا کرنا ، انسانی حقوق کی قدروں کی بحالی اور ان کو مکمل تحفظ دینا شامل ہیں ۔
پاکستان میں موجود تمام سیاسی فریقین کی اگر پہلی ترجیح مفاہمت کی سیاست کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگی تو ہم یقینی طور پر مفاہمت کا راستہ نکال سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سب ہی اپنی اپنی موجودہ سخت گیر پوزیشن سے باہر نکلیں اور سب ہی اپنی اپنی جگہ سے ایک یا دو قدم پیچھے ہٹیں اور ان کے سامنے ذاتی معاملات کے مقابلے میں ریاستی مفاد کی ترجیح بنیادی شرط ہونی چاہیے ۔
کیونکہ جب ہم خود کو ریاستی اور معاشرتی مفاد سے نیچے رکھ کر دیکھیں گے تو ہم ریاست کے مفادات کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں ۔لیکن اگر ہم نے اب بھی ان سنگین حالات میں مفاہمت ، بات چیت اور مکالمہ کا راستہ تلاش کرکے آگے بڑھنے سے گریز کیا تو اس کا نتیجہ مزید انتشار و ٹکراؤ کی سیاست کے نتیجے میں سامنے آئے گا ۔
اس کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ سب ہی ان حالات کے ذمے دار ہونگے ۔ اس لیے گیند تو اب بھی اہل سیاست کی کورٹ میں ہے کہ وہ مفاہمت یا ٹکراؤ میں سے کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔