جیو کے خلاف آنے والی درخواست پر حکومت سے پوچھ کر فیصلے کئے جارہے ہیں ممبر پیمرا
ممبران حکومتی دباؤ پر معاملے کو ’’کونسل آف کمپلینٹ‘‘ میں بھیجنا چاہتے ہیں، ممبر پیمرا اسرار عباسی
SIALKOT:
آئی ایس آئی اوراس کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی پر جیو نیوز کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر پیمرا کا اجلاس ہوا جس کے دوران 2 ممبران نے اجلاس کا اس وجہ سے بائیکاٹ کردیا کہ ارکان کی اکثریت حکومتی دباؤ کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے قاصر رہی اور درخواست مشاورت کے لئے وزارت قانون کو بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اجلاس کو ایک بار پھر 16 مئی تک ملتوی کردیا گیا۔
پاکستان الیکٹرک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی کی جانب سے طلب کیا گیا جیو نیوز کے خلاف فیصلے کے لیے پیمرا اتھارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا ، ذرائع کے مطابق اجلاس میں حامد میر پر حملے کے بعد ملکی قومی سلامتی کے اہم ادارے پر حملے کا الزام اور ہرزہ سرائی کرنے پر جیو نیوز کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی سے متعلق غور کیا گیا لیکن اجلاس کے دوران پیمرا کے 2 ممبران اسرار عباسی اور میاں شمس نے دیگر ممبران کے رویے کے خلاف اجلاس کا بائیکاٹ کردیا جبکہ اسرار عباسی نے پیمرا کی 3 رکنی فیکٹ فائندنگ کمیٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔
اجلاس کے بائیکات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسرار عباسی کا کہنا تھا کہ 6 مئی کو سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سنے گئے جن پر آج کے ایجنڈے میں بحث کی گئی لیکن اجلاس میں اصل مدعے پر بات کرنے کے بجائے دیگر پہلوؤں کو چھیڑ دیا گیا، ممبران خود کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے اور حکومتی دباؤ پر معاملے کو ''کونسل آف کمپلینٹ'' میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ہم اتھارٹی کے کسی بھی متنازع فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہتے اس لئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
اس سے قبل جیو کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے وزرات دفاع اور آئی ایس آئی کی جانب سے جیو نیوز کے خلاف تحریری شکایت کی سماعت کی، جس میں جیو نیوز کو قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف الزام تراشی پر پیمرا کی جانب سے نوٹس جاری کرتے ہوئے انتظامیہ سے جواب طلب کیا اور کہا تھا کہ کیوں نہ جیو نیوز کا لائیسنس منسوخ کردیا جائے۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے، بھارتی میڈیا کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بھی جیو کی حمایت میں میدان میں کود پڑی تھی۔
آئی ایس آئی اوراس کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی پر جیو نیوز کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر پیمرا کا اجلاس ہوا جس کے دوران 2 ممبران نے اجلاس کا اس وجہ سے بائیکاٹ کردیا کہ ارکان کی اکثریت حکومتی دباؤ کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے قاصر رہی اور درخواست مشاورت کے لئے وزارت قانون کو بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اجلاس کو ایک بار پھر 16 مئی تک ملتوی کردیا گیا۔
پاکستان الیکٹرک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی کی جانب سے طلب کیا گیا جیو نیوز کے خلاف فیصلے کے لیے پیمرا اتھارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا ، ذرائع کے مطابق اجلاس میں حامد میر پر حملے کے بعد ملکی قومی سلامتی کے اہم ادارے پر حملے کا الزام اور ہرزہ سرائی کرنے پر جیو نیوز کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی سے متعلق غور کیا گیا لیکن اجلاس کے دوران پیمرا کے 2 ممبران اسرار عباسی اور میاں شمس نے دیگر ممبران کے رویے کے خلاف اجلاس کا بائیکاٹ کردیا جبکہ اسرار عباسی نے پیمرا کی 3 رکنی فیکٹ فائندنگ کمیٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔
اجلاس کے بائیکات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسرار عباسی کا کہنا تھا کہ 6 مئی کو سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سنے گئے جن پر آج کے ایجنڈے میں بحث کی گئی لیکن اجلاس میں اصل مدعے پر بات کرنے کے بجائے دیگر پہلوؤں کو چھیڑ دیا گیا، ممبران خود کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے اور حکومتی دباؤ پر معاملے کو ''کونسل آف کمپلینٹ'' میں بھیجنا چاہتے ہیں لیکن ہم اتھارٹی کے کسی بھی متنازع فیصلے کا حصہ نہیں بننا چاہتے اس لئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
اس سے قبل جیو کی جانب سے لگائے جانے والے الزام کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے وزرات دفاع اور آئی ایس آئی کی جانب سے جیو نیوز کے خلاف تحریری شکایت کی سماعت کی، جس میں جیو نیوز کو قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف الزام تراشی پر پیمرا کی جانب سے نوٹس جاری کرتے ہوئے انتظامیہ سے جواب طلب کیا اور کہا تھا کہ کیوں نہ جیو نیوز کا لائیسنس منسوخ کردیا جائے۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے، بھارتی میڈیا کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بھی جیو کی حمایت میں میدان میں کود پڑی تھی۔