صدر کا ٹویٹ اور حکمرانوں کے اختیارات

یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے صدر عارف علوی کے دستخط خود سے کردیے اور انہیں قانون کی شکل بھی دے دی؟


صدر عارف علوی نے ٹویٹ کیا کہ منظور شدہ بل پر انھوں نے دستخط نہیں کیے۔ (فوٹو: فائل)

صدر عارف علوی کے ایک ٹویٹ نے عوام کو یہ بتادیا ہے کہ تمہیں کس قدر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ تمہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم قانون منظور کرتے ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے وہاں کچھ اور ہی چل رہا ہے۔


عوام کے ووٹوں کی حقیقت بھی اس سے کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عوام ووٹ دے کر جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں اور اپنے وعدے پورے نہ کرنے پر جن لوگوں کو برا بھلا کہتے ہیں، جنہیں بددعائیں دیتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا، وہ بے چارے تو خود بے بس ہوتے ہیں۔ کیونکہ پس پردہ کوئی اور طاقتیں ہیں جو ان لوگوں کو بھی اپنی مرضی سے کام نہیں کرنے دیتیں اور وہ لوگ ان خفیہ طاقتوں کے سامنے مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی قانون پر دستخط نہ بھی کریں تو ان کے دستخطوں سے قانون منظور ہوجاتا ہے اور اس قانون کو نافذ بھی کردیا جاتا ہے۔


الیکشن اور انتخابات تو محض ایک دکھاوا ہے جس پر اربوں روپے خرچ کرکے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ہوتا وہی ہے جو خفیہ طاقتیں چاہتی ہیں۔ ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کےلیے کسی صحافی نے ایک بہترین لفظ استعمال کیا ہے کہ Prisoners of Margalla یعنی مارگلہ کے قیدی اور درحقیقت یہ لوگ قیدی ہی ہوتے ہیں کہ عوام کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑتا ہے لیکن خفیہ طاقتیں انہیں اپنی مرضی سے کچھ کرنے نہیں دیتیں جس کی وجہ سے یہ لوگ دونوں طرف سے پھنس جاتے ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔


اگر یہ لوگ اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے تو انہیں چاہیے کہ ذرا سی جرأت کا مظاہرہ کریں اور اپنے عہدے اور اقتدار کی پرواہ کیے بغیر عوام کو حقائق سے آگاہ کریں۔ ہمارے سیاستدانوں سے اپنی مرضی کے کام کروا کر بدلے میں انہیں مال و دولت اور مراعات دے دی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں اور مجرم قرار پاتے ہیں۔


صدر عارف علوی نے عوام کے سامنے حقیقت کھول کر رکھ دی ہے، یقیناً یہ عارف علوی کی بہادری ہے۔ انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان خفیہ طاقتوں سے ڈرے بغیر انہوں نے عوام کے سامنے حقیقت رکھ دی ہے کہ دو قوانین آرمی (ترمیمی) ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) ایکٹ جو منظور ہوئے ہیں اور صدر کے دستخطوں سے جاری ہوئے ہیں ان پر انہوں نے دستخط ہی نہیں کیے بلکہ انہوں نے تو کہا تھا کہ یہ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیے جائیں کیونکہ میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ اس کے باوجود وہ بل منظور ہوگئے۔


یوں عوام کو کم از کم یہ تو معلوم ہوا کہ ان کے منتخب نمائندے جنہیں وہ جواب دہ خیال کرتے ہیں وہ درحقیقت مجبور محض ہوتے ہیں۔ وہ خود اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرپاتے بلکہ ان سے کرایا جاتا ہے اور اگر یہ ان کے سامنے انکار بھی کردیں تب بھی ہوتا وہی ہے جو خفیہ طاقتیں چاہتی ہیں۔ میں یہاں کسی بھی ادارے یا ایجنسی کی طرف اشارہ نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے معلوم ہے کہ یہ خفیہ طاقتیں کون سی ہیں لیکن صدر عارف علوی کے اس بیان سے پہلے بھی یہ بات بہت سے مواقع پر واضح ہورہی تھی کہ کوئی تو ایسی طاقت ہے جو سیاست دانوں کو اپنی مرضی سے کام نہیں کرنے دیتی مگر اب صدر عارف علوی کے ٹویٹ نے اس بات کو مزید پختہ کردیا ہے۔


یہ انتہائی حیران کن اور پریشان کن صورتحال ہے کہ عوامی نمائندے عوام کی مرضی کے مطابق یا اپنی مرضی سے عوام کےلیے کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان بڑے بڑے نعرے لگا کر اور بہت سے دعوے کرکے آتے ہیں لیکن وہ ان کو عملی جامع نہیں پہنا سکتے کیونکہ خفیہ طاقتیں انہیں کرنے نہیں دیتیں اور انہیں اپنے کام سے روکتی ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ملک کو چلانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے ہی قوانین بنانا چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے سیاست دانوں کو بھی چلانا چاہتے ہیں، جس میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہیں۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا تب سے انہی لوگوں کی حکومت ہے اور وہی لوگ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، اس کے علاوہ کوئی بھی اپنی مرضی سے یہاں پر تک نہیں مار سکتا۔


اب یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے صدر عارف علوی کے دستخط خود سے کردیے اور انہیں قانون کی شکل بھی دے دی، یہ بھی اداروں کو دیکھنا ہوگا۔ مگر کیا کریں ادارے بھی تو انہی کے ماتحت ہیں تو اداروں کو کون اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ اس کی تحقیقات کریں؟ سپریم کورٹ کی طرف سب کی نظریں ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن کیا معلوم کہ سپریم کورٹ بھی اپنی مرضی سے اس بات کا فیصلہ کرسکے یا نہیں؟


کس ادارے کی طرف دیکھیں اور کس شخصیت کی طرف دیکھیں، یہاں تو یہ حال ہے کہ ''ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے''۔ ہر ادارے کے اندر ایسے ہی لوگ بیٹھے ہیں جنہیں ملکی مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں ذاتی مفادات عزیز ہیں جس کی وجہ سے ملک روز بروز تنزلی کی طرف جارہا ہے ۔ 76 سال گزر جانے کے بعد بھی آج ہم انتہائی پستی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ نیچے کا ہی سفر کیا ہے، کبھی ہمارا ملک اوپر نہیں گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے سامنے کچھ اور ہوتا ہے لیکن پس پردہ کچھ اور چل رہا ہے جسے عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہم لوگوں کو صرف یہی بتایا جاتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اس ملک کو چلا رہے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔