عمران خان کیا کر سکتا ہے
عمران خان موقع شناس نہیں ہیں، اُن کی سیاسی دانائی اوسط درجہ کی ہے، یہ کوئی بڑے عیب نہیں تجربہ انہیں گر سکھا دے گا
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
عمران خان کیا کر سکتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اگر آپ یہ حساب کتاب لگائیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ اُن کو اس موقع کا احساس ہی نہیں جو حالات، قسمت اور اُس کے مخالفین کی نااہلیوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لیے پیدا کر دیا ہے۔ وہ لاہور کے حلقوں کی سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ تمام ملک قیادت کے ایک ایسے بحران میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے جو بجلی کے بحران سے بھی کہیں زیادہ گھمبیر اور کمر توڑ ہے۔
اگر آپ پاکستان کی مضروب عوام کی ترجیحات ترتیب دیں، تو تمام تجربہ، مشاہدہ، اعداد و شمار اور دانش مندوں کے مشورے اکا دکا معاملات کے علاوہ جو فہرست بنائیں گے اُن میں 2013ء کے الیکشن میں ہونے والا مبینہ فراڈ یا تو سب سے نیچے ہو گا یا فہرست میں سے مکمل طور پر غائب۔ عوام اپنے روزانہ کے حالات کے پیش نظر سیاسی نقطہ فکر ترتیب دیتے ہیں وہ جو سالوں سے یا دہائیوں سے راحت کے انتظار میں گھل گھل کر ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ زندگی کی سختیوں میں کمی کے امکان پر سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہو سکتے ہیں۔ مگر ایک ایسی سیاسی بحث جس کا نہ سر ہے نہ پیر جس سے متعلق شواہد کم اور خدشات زیادہ ہیں۔ یعنی دھاندلی کا معاملہ اُس پر عوام کو سڑکوں پر آنے کا کیا جواز مہیا کیا جا سکتا ہے کہ وہ لبیک کہیں۔ ہاں مولانا طاہر القادری (جن سے متعلق ہر نازک جملہ میرے پیارے مدیر کے قلم سے کاٹ دیا جاتا ہے) اپنی تنظیمی صلاحیت کے ذریعے لوگوں کو جی ٹی روڈ پر دوبارہ سے سفر یقیناً کرا سکتے ہیں۔
خداوند تعالیٰ نے اُن پر مال کی بڑی رحمت کی ہے، اُن کی نیکیوں کے صدقے اُن کے یہاں رزق کی نہریں ہمیشہ موج میں رہتی ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن بھی قیادت کے کہنے پر باہر آ ہی جائیں گے۔ جلسہ بھی ہو جائے گا۔ مگر باہر بلوا کر جلسہ کرانے میں اور لوگوں کے خود باہر آنے میں جو محرکات کارفرما ہیں عمران خان اُن کو سمجھنے میں مسلسل ناکام ر ہے ہیں۔ لہٰذا وہ آج کل ہر جگہ بیٹھ کر گیارہ مئی کے احتجاج کا خود ہی دفاع کر رہے ہو تے ہیں۔ عقل مند لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو یہ کہہ پائے کہ میں یہ کرنا نہیں چاہتا مگر عوام کی رائے مجھے اس سمت میں دھکیل رہی ہے۔
گیارہ مئی کا جلسہ حقیقت میں عوامی ہوتا اگر اس کا تعلق بجلی کے بحران سے ہوتا۔ عدالتوں سے لے کر سبزی منڈی تک ہر جگہ آپ کو رعایا بلبلاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ حکومت ایک ایسے مسئلے پر کسی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے جو دس سالوں سے وبال جان بنا ہوا ہے۔ نواز لیگ کی پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کا محور بدعنوانی اور بجلی کا بحران تھا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جنہوں نے افسر شاہی کو ٹینٹوں میں گھسا کر پسینے سے صرف اس وجہ سے شرابور کر دیا کہ وہ مرکز کو احتجاجی پیغام دینا چاہتے تھے۔ اُن کا اپنے ہی صوبے میں جی ٹی روڈ پر مارچ اس کے علاوہ تھا۔ انتخابات کی اتنی تقاریر مجھے یاد ہیں کہ اُس میں ہر کوئی یہی ڈھول پیٹ رہا تھا۔ طاقت میں آنے کے بعد گردشی قرضوں کی ادائیگی اور موافق موسم کی وجہ سے جو وقتی آرام میسر ہوا تھا اب وہ گرمی اور نااہلی کی تپش میں پگھل گیا ہے۔
نواز لیگ کے وعدوں کے تناظر میں بجلی کے موجودہ بحران پر پی ٹی آئی عوام میں احتجاج کی تحریک کو بڑھا سکتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں جہاں بجلی کی قیمت تمام صوبوں سے زیادہ ہے یہ معاملہ شاید عمران خان کی جماعت کو اُن کی اپنی انتظامی کوتاہیوں اور معمولی کارکردگی جیسے مسائل سے توجہ ہٹانے کا بہانہ بھی فراہم کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ درجنوں دوسرے قومی مسائل ہیں جن کے حل کو عوامی آواز میں تبدیل کر کے اگر انقلاب کا نہیں تو احتساب اور تبدیلی کا ماحول بنایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی جانوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ تھانے اور کچہری میں جبر اور ظلم جوں کا توں ہے۔ بنیادی زندگی کی وہ تمام سہولتیں جن سے متعلق خوش فہمی پر مبنی اشتہارات روزانہ عوام کا منہ چڑاتے ہیں احتجاج کی دیرپا بنیاد بنائے جا سکتے تھے اور پھر یہ ضروری بھی نہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کی کوتاہیوں کے تناظر میں اپنا سیاسی مقام بلند کیا جائے۔ احتجاج اُس وقت جچتا تھا جب تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں وہ باکمال کام کیے ہوں کہ ہر کوئی عش عش کر رہا ہو۔ پچھلے دنوں حیات آباد کے اسپتال میں وارڈ سمیت ہر جگہ پر پانی ختم ہو گیا جب اس سے متعلق معلومات میں نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک سرکردہ رکن کو بھیجیں تو اُن کی طرف سے جو اب اسپتال سے پانی غائب ہو جانے سے زیادہ پریشان کن تھا۔ انھوں نے لکھا ''بہت بری بات ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے''۔
خیبرپختونخوا کی حقیقت کروڑوں روپوں سے چلائی جانے والی اشتہاری مہم سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان کی تصاویر اور پوسٹرز کی خوبصورتی بدنما حقائق کو جاذب نظر نہیں بنا سکتی (ویسے کوئی یہ سوال صوبائی اسمبلی میں کیوں نہیں اٹھاتا کہ عمران خان کس قاعدے اور ضابطے کے تحت خیبرپختونخوا کو اسلام آباد سے بیٹھ کر چلاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار آصف علی زرداری کے سندھ پر اثر و رسوخ اور نواز شریف اور شہباز شریف کا مرکز اور پنجاب کو رائے ونڈ سے چلانے کے لائحہ عمل سے کتنا مختلف ہے) ایک سال میں خیبرپختونخوا نہ امن و امان کے مسئلے کو موثر انداز میں حل کر سکا اور نہ بین الا قوامی شرمندگی سے بچنے کے لیے پولیو مہم میں اپنی طرف سے کوئی حصہ ڈال پایا۔ ایک سال میں اگر پنجاب میں وفاقی حکومت کا یہ خاصہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنی کابینہ مکمل نہیں کی تو پاکستان تحریک انصاف کی وجہ شہرت کا بینہ میں دھڑا دھڑ بھرتیاں رہی ہیں۔
کرسی کا جو کھیل خیبرپختونخوا میں کھیلا جا رہا ہے اُس کے لیے کسی زمانے میں بلوچستان مشہور ہوا کرتا تھا۔ عمران خان اپنی جماعت کو ملے ہوئے مینڈیٹ کو خیبرپختونخوا میں کامیاب انداز میں استعمال کروا کر ایک بہترین اور ملک گیر تحریک چلوا سکتے تھے۔ اٹک کے اس پار جہاں پر پاکستان تحریک انصاف کے مطابق کوئی دھاندلی نہیں ہوئی کارکردگی پشیمانی کے قریب تر ہے۔ جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ صلاحیت کے استعمال کا مسئلہ انتخابات میں فراڈ کے معاملے سے کہیں زیادہ سنگین اور اہم ہے۔ خیبرپختونخوا کی حالت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ سوال یقیناً کر سکتے ہیں کہ عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کی صورت میں وہ مرکز کو اس صوبے سے کتنا بہتر چلا پاتے۔ اُن کی وفاقی کابینہ محترم خٹک کی صوبائی کابینہ سے کتنی مختلف ہوتی۔ مرکز میں اُن کی کارکردگی صوبے کی ترقیاتی رپورٹ سے کتنی مختلف ہوتی جہاں پر ترقیاتی بجٹ کا تقریبا 70 فیصد استعمال ہی نہیں ہوا۔ عمران خان بڑے قومی مسائل اور پاکستان کے زمینی حقائق سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔
اُن کا خیال ہے کہ ملک کے عوام اُن کی جماعت کے ممبران کی طرح ہیں جو اُن کا کہا ہوا ہر لفظ حقائق پر حاوی سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔ عمران خان موقع شناس نہیں ہیں۔ اُن کی سیاسی دانائی اوسط درجہ کی ہے۔ یہ کوئی بڑے عیب نہیں ہیں تجربہ ان پر قابو پانے کا گر سکھا دیگا مگر مصیبت یہ ہے کہ عمران خان خود کو تجربے سے بڑا استاد سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ وہ ذاتی اور سیاسی زندگی میں ایک ہی غلطی کو دہرا کر مختلف نتائج حا صل کر سکتے ہیں حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ غلطیاں دہرانے سے بڑھتی ہیں گھٹتی نہیں۔ پیدا وہی ہوتا ہے جو بویا جاتا ہے۔ عمران خان کی نہ سیکھنے کی یہ ضد اب اُن کی جماعت کو ایسے موڑ میں لے آئی ہے جہاں پر ان کے پیش امام طاہر القادری ہیں اور اُن کے دست راست شیخ رشید۔ اور یہ وہ ٹیم ہے جس سے وہ پاکستان کو ایک عظیم جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ملک کی حالت تبدیل کر نے سے پہلے عمران خان کو اپنی عادات اور ترجیحات تبدیل کرنی ہوں گئی۔