11 مئی سے پہلے
عمران خان سیاسی دنیا میں ایک نیا لیڈرہے جو روایتی نہیں اوراس وقت تک اندازہ یہی ہے کہ وہ شاید سمجھوتوں کا قائل بھی نہیں
امریکا کے خفیہ اداروں نے ہماری یہ چھیڑ بنا لی ہے کہ وہ تفریح طبع کے لیے اپنے کسی زیر تربیت جاسوس کو ہمارے ہاں بھجوا دیتے ہیں۔ اس کی کسی غلطی سے اس کی جاسوسی پکڑی جاتی ہے تو وہ ہماری پولیس اور عدالت کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے ہمارا یہ عجیب ملزم ہوتا ہے کہ ابھی وہ زیر تفتیش ہوتا ہے کہ امریکا اس کی بخریت واپسی کا اعلان بھی کر دیتا ہے لیکن اپنی تسلی اور عزت بچانے کے لیے ہمارے ادارے بھی اپنی کارروائی کرتے ہیں جس کی تفصیلات اخباروں میں چھپا کرتی ہیں لیکن نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا امریکا پہلے سے اعلان کر چکا ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی بخیر و عافیت واپس امریکا اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جائے گا۔ پاکستانی دوست زیادہ متفکر نہ ہوں اور کسی امریکی کی جگہ اپنا خیال رکھیں۔
امریکا ایسا کیوں کرتا ہے کیا محض اپنی تفریح طبع کے لیے یا ہماری قومی غیرت کے پیمانے کی وقتاً فوقتاً آزمائش کے لیے۔ اگرچہ امریکا کو ہمارا ایسا کوئی امتحان لینے کی ضرورت نہیں اور وہ ہمیں خوب جانتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں لیکن ہمارے حکمراں جس عجز و انکساری سے امریکا کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور جو سب امریکا کے سامنے ہے اس کے باوجود بظاہر کسی مزید کارروائی کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب ہمارے اخباروں میں یہ امریکی حکم چھپے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات برادرانہ رکھیں تا کہ امریکا اور پاکستان کا سلسلہ چلتا رہے تو پھر کسر کس بات کی رہ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام طور پر کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ ہمیں اقتدار امریکا دیتا ہے اور وہ ہی ہمارے اقتدار کو باقی بھی رکھتا ہے اس لیے ہمیں بے فکر ہو کر عزت کا کلچہ کھانا چاہیے۔
یہ سب طے ہے مگر اس کے باوجود اگر امریکا ہماری کسی آزمائش کے لیے چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آتا تو ہمیں صبر کے ساتھ یہ سب برداشت کرنا چاہیے جب تک ہم اپنے آپ کو عجز و انکسار اور کمزوری اور ناتوانی کی موجودہ کیفیت میں باقی رکھیں گے تب تک محلے کا بدمعاش بھی ڈرانے او بدامنی کے لیے کافی ہو گا امریکا تو امریکا ہے دنیا کی سپر پاورکو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ امریکا پاکستان جیسے ملک میں کیوں دلچسپی لیتا ہے اور اس پر اپنا وقت کیوں ضایع کرتا ہے لیکن بڑی طاقتوں کے مسئلے بہت ہوتے ہیں۔
روس کی طرح امریکا نے بھی غلطی کی اور افغانستان میں افغانوں سے لڑ پڑا اور نہ صرف اپنے بلکہ دنیا بھر میں اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لے آیا تب وہ روسی جرنیل کی یہ بات بھول گیا تھا کہ روسی فوج کے جرنیل نے جو غالباً بریگیڈئر تھا جب افغانستان کی حد دریائے آمو کو عبور کر رہا تھا تو اس طویل نو دس برس کی جنگ کی تلخیاں اس کے پورے وجود میں سرائیت کر چکی تھیں اس نے بے قرار ہو کر کہا کہ خبردار کوئی اس طرف نہ آئے اور افغانستان سے دور رہے لیکن طاقت کے گھمنڈ میں امریکا نے یہ بات نہ مانی اور اسے دشمن کا مشورہ قرار دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا حال بھی روس والا ہو رہا ہے اور وہ افغانستان سے باہر جانے کے راستے ڈھونڈ رہا ہے ایک سب سے مناسب اور آسان راستہ پاکستان ہے اس لیے وہ اس راستے پر قدم بڑھا رہا ہے اور پاکستان کو اپنے ساتھ مصروف رکھے ہوئے ہے۔
حکمرانوں سے دور رہنے والے اس صحافی کو اندازہ نہیں کہ ہمارے حکمران امریکا کی اس پاکستانی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اس سے صرف طول اقتدار کی طلب ہی کرتے ہیں اور یہ طول اقتدار اگر اپنے عوام سے لیا جائے تو یہ باعزت بھی ہوتا ہے اور مستقل بھی بالکل ایسے ہی جیسا اس بار میاں صاحب کو عوام کی طرف سے ملا ہے اور جب تک میاں صاحب عوام سے یہ اقتدار واپس نہیں لیں گے وہ ان کے پاس ہی رہے گا لیکن افسوس کہ حکومت کی بعض پالیسیاں عوام کی پسند کی نہیں ہیں چنانچہ ان کی اپوزیشن بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی اصل اپوزیشن پیپلز پارٹی تھی جو بالکل چپ چاپ تھی۔ اگر کبھی بولتی بھی تھی تو شریفانہ انداز میں مگر اب تو عمران خان ایک اپوزیشن بن کر آ گئے ہیں اگر عمران کی ناتجربہ کاری میاں صاحب کے کام آ رہی ہے لیکن حالات عمران خان کو بدلیں گے اور اس کی تربیت کریں گے وقت کی ضرورت بے رحم ہوتی ہے اور جن لوگوں کا عمران خان کے ساتھ سیاسی مستقبل وابستہ ہے وہ عمران کے لیے آسان راستے نکال لیں گے۔ ان میں کچھ لوگ بہت تجربہ کار ہیں تو کچھ بہت بااثر جو ووٹوں کا ایک گروہ لیے ہوئے ہیں۔
عمران خان سیاسی دنیا میں ایک نیا لیڈر ہے جو روائتی نہیں ہے اور اس وقت تک اندازہ یہی ہے کہ وہ شاید سمجھوتوں کا قائل بھی نہیں ہے اور آج تم کل ہماری باری ہے کی روائتی سیاست کا قائل بھی نہیں۔ میں عمران خان کو اپنے دوست کی نشانی سمجھ کر اس کا ذکر کیا کرتا ہوں اور اس کی سیاسی پارٹی سے دور ہی ہوں لیکن اس کے ساتھ میں میڈیا میں جن سیاستدانوں کو دیکھتا ہوں وہ مجھے متاثر نہیں کرتے۔ میں اب تجربے کے اس مرحلے تک پہنچ چکا ہوں کہ پتھر اور ہیرے میں فرق سمجھتا ہوں۔ مجھے بیمار جاوید ہاشمی میں سیاست کی چمک دکھائی دیتی ہے لیکن جماعتیں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے ہجوم سے چلتی ہیں۔ عمران خان تنہا نہیں ہیں لیکن انھیں اپنے ساتھیوں کو تربیت دینے کے لیے سیاسی استادوں کی ضرورت ہے لیکن سیاست کے مدرسے کے استاد بڑے استاد ہوتے ہیں۔
میں یہ کالم ختم کرنے والا تھا کہ یاد آیا 11 کی تاریخ تو سامنے ہے اب تو عمران خان کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ایک اور صاحب بھی اسی دن نمودار ہونے والے ہیں۔ جناب طاہر القادری۔ موصوف کینیڈا کے شہری ہیں اور اس شہریت کی دستاویزات جن پر ان کے دستخط موجود ہیں ان میں صاف درج ہے کہ میں ملکہ برطانیہ کی رعایا ہوں۔ جناب قادری صاحب کو داد دیجیے کہ انھوں نے انگریز کی غلامی کو جوں کا توں قائم رکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ شیخ الاسلام اس قوم کی سزا ہے۔
اب اصل سوال یہ ہے امریکا میاں نواز شریف' اور عمران خان میں سے فی الوقت کس کو پسند کرتا ہے یعنی کس کے ساتھ ہے اس سوال کا مستند جواب جناب نجم سیٹھی صاحب کے پاس موجود ہے ملاقات ہو گی تو پوچھیں گے اور بیان کر دیں گے لیکن امریکا حالات کے چنگل میں ہے اور افغانستان میں پھنسا ہوا ہے مگر ایک سپر طاقت کو ایسی باتوں کی کیا فکر۔