عمران خان کی تحریک
عمران خان اورجاوید ہاشمی نجانے کیوں یہ بات کرتے ہوئے شرما رہے ہیں کہ مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ ہرگزغیر جمہوری نہیں ہوتا
میں نے خود سے وعدہ کررکھا تھا کہ 11 مئی سے عمران خان جو تحریک چلانا چاہ رہے ہیں اس کے بارے میں کوئی پیشگی تجزیہ نہیں لکھوں گا۔ وجہ یہ نہیں کہ گھبرا گیا ہوں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب کئی وہ لکھاری اور ٹیلی ویژن اسکرینوں پر حق و باطل کے معرکے برپا کرنے والے جو اکتوبر 2011ء کے بعد سے عمران خان میں سے ایک مسیحا برآمد کرنے کی کوششوں میں مئی 2013ء کے انتخابات تک دن رات مصروف رہے، ان کے شدید مخالف بن گئے ہیں۔ کھل کر مخالفت نہ کرنے والے ماضی کے چند مداحین کو ان سے دوستانہ گلے شکوے ہیں اور چند ایک کو اس بات پر بہت مایوسی کہ ''کپتان'' اپنے پتے صحیح طور پر نہ کھیل پایا۔ غلط لوگوں کے گھیرے میں آ گیا ہے۔ انگریزی والی بس کو مس کر گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں اپنی اوقات کو خوب پہچان کر کونے میں دہی کھانے والا صحافی ہوں۔ سیاست دان حکومت میں ہوں یا اس سے باہر میرا ان کے بارے میں رویہ اس اونٹ والا ہے جس سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں اُترائی اچھی لگتی ہے یا چڑھائی تو اس نے اُکتا کر بس اتنا کہا کہ دونوں کی اچھائی یا برائی سے اسے کیا لینا۔ چڑھنا ہو یا اُترنا، اسے ہر صورت وزن ہی اٹھانا ہے اور بوجھ اٹھائے ہوئے چلنا کسی صورت بھی خوش گوار نہیں ہوا کرتا۔
پیشگی تجزیہ میں اب بھی نہیں کروں گا۔ مگر بدھ اور جمعرات کے دونوں دن قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف کے لوگ ہی چھائے رہے۔ ابتداء جاوید ہاشمی کی ایک طویل تقریر سے ہوئی۔ انتہائی دیانت داری سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ان کے سیاسی کیریئر کی ایک بہترین تقریر تھی۔ اس تقریر میں مضمر پیغامات کو مگر نواز شریف اور عمران خان کے جیالوں نے پوری طرح سمجھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ اپنی متعصبانہ خواہشات کے مطابق ان کے چند الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل جدا کر کے انٹرنیٹ پر اول فول کہانیاں بُننا شروع ہو گئے۔ مسلم لیگ کے متوالوں نے سب سے زیادہ زور یہ تاثر پھیلانے پر بھی صرف کیا کہ ہاشمی صاحب کے اندر بیٹھا ''باغی'' تحریک انصاف سے اُکتا گیا ہے۔ مسلم لیگ کی صفوں میں لوٹنے کو بے چین ہو رہا ہے۔
جمعرات کی صبح اپنے پارلیمانی ساتھیوں سے طویل مشاورت کے بعد عمران خان بھی قومی اسمبلی میں کھڑے ہوگئے۔ ان کی تقریر کے ابتدائی کلمات نے عین وہ پیغام دہرایا جو ایک روز پہلے جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ جاوید ہاشمی اور عمران خان دونوں کو شدید دُکھ اس بات پر تھا کہ ہیجان کے اس موسم میں جب میڈیا میں نواز حکومت کے بارے میں ''صبح گیا یا شام گیا'' والا ڈھول بجایا جا رہا ہے، 11 مئی کی تحریک کو ''گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو'' کی صورت دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں اس بات پر بار ہا اصرار کرتے رہے کہ ان کی تحریک نواز حکومت یا موجودہ قومی اسمبلی کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ ملک میں ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو آیندہ ہونے والے انتخابات کو ہر صورت صاف، شفاف اور منصفانہ بنانے کا یقین دلائے۔ ایسا نظام وضع ہو جانے کے بعد پاکستان میں ''نوزائیدہ جمہوریت'' اور زیادہ مضبوط ہو گی۔
میرے پاس عمران خان یا جاوید ہاشمی کی نیت پر شک کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں۔ ان کی تحریک کے مقاصد یقینا وہی ہوں گے جو ان دونوں نے بیان کیے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ دونوں 11 مئی سے چند ہی روز قبل اتنی وضاحت سے اپنا دل کھول کر لوگوں کے سامنے نہ رکھتے۔ سیاست بڑا ظالم کھیل ہے۔ اس میں ایک شے ہوتی ہے جسے Ambiguity کہا جاتا ہے۔ سیاست دان کے لیے یہ ایک ترپ کا پتہ ہوا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو پورا یقین تھا کہ ان کی پہلی حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدنیتی کے ساتھ برطرف کیا اور پھر 1990ء کے انتخابات کے ذریعے دھاندلی کے تمام تر ممکنہ ذرایع استعمال کرتے ہوئے IJI میں جمع ہوئی سیاسی جماعتوں کو اکثریت دلوا کر نواز شریف کو پاکستان کا وزیر اعظم بنوا دیا۔
اپنی اس سوچ کے باوجود وہ بھی 1990ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے بجائے قومی اسمبلی میں اپنے ساتھیوں سمیت آ کر بیٹھ گئیں اور اچھے وقت کا انتظار کرتی رہیں۔ محض اقتدار کے کھیل کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کا اصل دشمن غلام اسحاق خان تھا۔ وہ جب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے بطور صدر سالانہ خطاب کرنے آئے تو محترمہ نے ''گو بابا گو'' کے نعرے لگاتے ہوئے ڈیسک بجا بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر لیے۔ پھر افتخار گیلانی اور محمود خان اچکزئی کے ذریعے انھوں نے نواز شریف سے روابط استوار کیے اور انھیں اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ وہ دونوں ''نوجوان قیادتیں'' متحد ہو کر ''فرسودہ آمرانہ نظام کی علامت'' غلام اسحاق خان سے نجات حاصل کر لیں۔ نواز شریف کو یہ خیال بہت بھایا مگر چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف نے بات آگے نہ بڑھنے دی۔ نواز شریف سے مایوس ہو کر محترمہ نے چوہدری الطاف حسین، فاروق خان لغاری اور آفتاب احمد شیر پاؤ کے ذریعے ایوان صدر سے روابط قائم کیے اور بالآخر نئے انتخابات حاصل کر لیے اور 1993ء میں دوبارہ اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔
عمران خان اور جاوید ہاشمی صاحب نجانے کیوں یہ بات کرتے ہوئے شرما رہے ہیں کہ مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ ہرگز غیر جمہوری نہیں ہوتا۔ میں ذاتی طور پر تحریک انصاف کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران بے پناہ دھاندلیوں کے ذریعے ان کے ووٹ چرائے گئے۔ تاہم وہ اگر اپنی اس سوچ پر پوری طرح قائم ہیں تو انھیں اپنے کارکنوں اور مداحین کے جوش و خروش کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ اٍمید جگائے رکھنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے رہنما کسی نہ کسی طریقے سے قبل از وقت انتخاب کی کوئی راہ نکال لیں گے۔
یہ راہ دکھائی نہ شروع ہو گئی اور نواز حکومت اور موجودہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرتی نظر آئیں تو عمران خان کا ''تحریکی پٹرول'' بتدریج ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس ذخیرے کی مقدار اور توانائی برقرار رکھنے کے لیے نئے انتخابات کی امید کو زندہ ر کھنا ہو گا۔ بدھ اور جمعرات کے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لیکن عمران خان اور جاوید ہاشمی امید کے دیے کی لو کو بڑھاتے نہیں مدہم کرتے نظر آئے۔ بہتر ہوتا وہ خاموش رہتے اور خلقِ خدا کے دلوں میں ان کی 11 مئی کی تحریک کے بارے میں جو Perception بن رہا تھا اسے کسی نہ کسی طرح برقرار رکھتے۔ پتہ نہیں کس وجہ سے کنی کترا گئے۔
میں اپنی اوقات کو خوب پہچان کر کونے میں دہی کھانے والا صحافی ہوں۔ سیاست دان حکومت میں ہوں یا اس سے باہر میرا ان کے بارے میں رویہ اس اونٹ والا ہے جس سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں اُترائی اچھی لگتی ہے یا چڑھائی تو اس نے اُکتا کر بس اتنا کہا کہ دونوں کی اچھائی یا برائی سے اسے کیا لینا۔ چڑھنا ہو یا اُترنا، اسے ہر صورت وزن ہی اٹھانا ہے اور بوجھ اٹھائے ہوئے چلنا کسی صورت بھی خوش گوار نہیں ہوا کرتا۔
پیشگی تجزیہ میں اب بھی نہیں کروں گا۔ مگر بدھ اور جمعرات کے دونوں دن قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف کے لوگ ہی چھائے رہے۔ ابتداء جاوید ہاشمی کی ایک طویل تقریر سے ہوئی۔ انتہائی دیانت داری سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ان کے سیاسی کیریئر کی ایک بہترین تقریر تھی۔ اس تقریر میں مضمر پیغامات کو مگر نواز شریف اور عمران خان کے جیالوں نے پوری طرح سمجھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔ اپنی متعصبانہ خواہشات کے مطابق ان کے چند الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل جدا کر کے انٹرنیٹ پر اول فول کہانیاں بُننا شروع ہو گئے۔ مسلم لیگ کے متوالوں نے سب سے زیادہ زور یہ تاثر پھیلانے پر بھی صرف کیا کہ ہاشمی صاحب کے اندر بیٹھا ''باغی'' تحریک انصاف سے اُکتا گیا ہے۔ مسلم لیگ کی صفوں میں لوٹنے کو بے چین ہو رہا ہے۔
جمعرات کی صبح اپنے پارلیمانی ساتھیوں سے طویل مشاورت کے بعد عمران خان بھی قومی اسمبلی میں کھڑے ہوگئے۔ ان کی تقریر کے ابتدائی کلمات نے عین وہ پیغام دہرایا جو ایک روز پہلے جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔ جاوید ہاشمی اور عمران خان دونوں کو شدید دُکھ اس بات پر تھا کہ ہیجان کے اس موسم میں جب میڈیا میں نواز حکومت کے بارے میں ''صبح گیا یا شام گیا'' والا ڈھول بجایا جا رہا ہے، 11 مئی کی تحریک کو ''گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو'' کی صورت دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں اس بات پر بار ہا اصرار کرتے رہے کہ ان کی تحریک نواز حکومت یا موجودہ قومی اسمبلی کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ ملک میں ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جو آیندہ ہونے والے انتخابات کو ہر صورت صاف، شفاف اور منصفانہ بنانے کا یقین دلائے۔ ایسا نظام وضع ہو جانے کے بعد پاکستان میں ''نوزائیدہ جمہوریت'' اور زیادہ مضبوط ہو گی۔
میرے پاس عمران خان یا جاوید ہاشمی کی نیت پر شک کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں۔ ان کی تحریک کے مقاصد یقینا وہی ہوں گے جو ان دونوں نے بیان کیے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ بہتر ہوتا کہ وہ دونوں 11 مئی سے چند ہی روز قبل اتنی وضاحت سے اپنا دل کھول کر لوگوں کے سامنے نہ رکھتے۔ سیاست بڑا ظالم کھیل ہے۔ اس میں ایک شے ہوتی ہے جسے Ambiguity کہا جاتا ہے۔ سیاست دان کے لیے یہ ایک ترپ کا پتہ ہوا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو پورا یقین تھا کہ ان کی پہلی حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدنیتی کے ساتھ برطرف کیا اور پھر 1990ء کے انتخابات کے ذریعے دھاندلی کے تمام تر ممکنہ ذرایع استعمال کرتے ہوئے IJI میں جمع ہوئی سیاسی جماعتوں کو اکثریت دلوا کر نواز شریف کو پاکستان کا وزیر اعظم بنوا دیا۔
اپنی اس سوچ کے باوجود وہ بھی 1990ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے بجائے قومی اسمبلی میں اپنے ساتھیوں سمیت آ کر بیٹھ گئیں اور اچھے وقت کا انتظار کرتی رہیں۔ محض اقتدار کے کھیل کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کا اصل دشمن غلام اسحاق خان تھا۔ وہ جب پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے بطور صدر سالانہ خطاب کرنے آئے تو محترمہ نے ''گو بابا گو'' کے نعرے لگاتے ہوئے ڈیسک بجا بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر لیے۔ پھر افتخار گیلانی اور محمود خان اچکزئی کے ذریعے انھوں نے نواز شریف سے روابط استوار کیے اور انھیں اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ وہ دونوں ''نوجوان قیادتیں'' متحد ہو کر ''فرسودہ آمرانہ نظام کی علامت'' غلام اسحاق خان سے نجات حاصل کر لیں۔ نواز شریف کو یہ خیال بہت بھایا مگر چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف نے بات آگے نہ بڑھنے دی۔ نواز شریف سے مایوس ہو کر محترمہ نے چوہدری الطاف حسین، فاروق خان لغاری اور آفتاب احمد شیر پاؤ کے ذریعے ایوان صدر سے روابط قائم کیے اور بالآخر نئے انتخابات حاصل کر لیے اور 1993ء میں دوبارہ اس ملک کی وزیر اعظم بن گئیں۔
عمران خان اور جاوید ہاشمی صاحب نجانے کیوں یہ بات کرتے ہوئے شرما رہے ہیں کہ مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ ہرگز غیر جمہوری نہیں ہوتا۔ میں ذاتی طور پر تحریک انصاف کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران بے پناہ دھاندلیوں کے ذریعے ان کے ووٹ چرائے گئے۔ تاہم وہ اگر اپنی اس سوچ پر پوری طرح قائم ہیں تو انھیں اپنے کارکنوں اور مداحین کے جوش و خروش کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ اٍمید جگائے رکھنا چاہیے کہ تحریک انصاف کے رہنما کسی نہ کسی طریقے سے قبل از وقت انتخاب کی کوئی راہ نکال لیں گے۔
یہ راہ دکھائی نہ شروع ہو گئی اور نواز حکومت اور موجودہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرتی نظر آئیں تو عمران خان کا ''تحریکی پٹرول'' بتدریج ختم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس ذخیرے کی مقدار اور توانائی برقرار رکھنے کے لیے نئے انتخابات کی امید کو زندہ ر کھنا ہو گا۔ بدھ اور جمعرات کے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لیکن عمران خان اور جاوید ہاشمی امید کے دیے کی لو کو بڑھاتے نہیں مدہم کرتے نظر آئے۔ بہتر ہوتا وہ خاموش رہتے اور خلقِ خدا کے دلوں میں ان کی 11 مئی کی تحریک کے بارے میں جو Perception بن رہا تھا اسے کسی نہ کسی طرح برقرار رکھتے۔ پتہ نہیں کس وجہ سے کنی کترا گئے۔