کراچی بلوچستان کے نقش قدم پر
بلوچستان میں بغاوت کی صورتحال ہے اس سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں ایک آئینی اور قانونی ۔۔۔
لاپتہ افراد کے خلاف بلوچستان میں پہلے ہی سے ایک شور محشر برپا تھا کہ اب کراچی میں بھی سیاسی کارکنوں کی گمشدگی نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے۔
بوری بند لاشیں کراچی میں ایک عرصے تک خوف و ہراس کا باعث بنی رہیںکہ ایک بار پھر ان لاشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ متحدہ اس ماورائے قانون قتل کے خلاف عرصے سے نالاں ہے پچھلے دنوں اس کے چار کارکنوں کی شدید تشدد زدہ لاشیں ملنے کے بعد متحدہ نے پورے سندھ میں یوم سوگ منایا۔ بازار بند، ٹرانسپورٹ بند، سڑکیں ویران،پورا سندھ ایک سوگ کی چادر میں لپٹا ہوا رہا۔ ابھی لاشوں کی بازیابی کا سلسلہ جاری ہے۔ متحدہ کی قیادت الزام لگا رہی ہے کہ سرکاری اہلکار سادہ لباس میں ڈبل کیبن گاڑیوں میں آکر سیاسی کارکنوں کو اٹھا رہے ہیں اورچند دن بعد ان کی لاشیں مختلف مقامات سے مل رہی ہیں۔ سندھ حکومت کا اصرار ہے کہ ایف آئی آر درج کرائیں۔ متحدہ کی طرف سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ کام قانون کے محافظ کرتے ہیں۔
یوں یہ الزام صوبائی حکومت کے سر آتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ لاپتہ کارکنوں کی لاشوں کا یہ سلسلہ ماورائے صوبائی حکومت ہو لیکن یہ خیال ہضم نہیں ہو سکتا کیونکہ متحدہ اور صوبائی حکومت کے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہیں۔یہ ساری کارروائیاں حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت اگرچہ کہ بڑے زور و شور سے اس حوالے سے اپنی بریت کا اظہار کر رہی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی سفاکانہ کارروائیوں میں کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟ حکومت نے ان لاشوں کے حوالے سے ایک تحقیقی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے لیکن جس ملک میں لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے اب تک کچھ نہ ہو سکا اس ملک میں سیاسی کارکنوں کے قتل کی تحقیقات کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ابھی ابھی متحدہ نے حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے اور اس مثبت پیشرفت میں آصف علی زرداری اور الطاف حسین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
متحدہ کی حکومت سندھ میں شمولیت کا مطلب یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان عدم اعتماد شکوک و شبہات کی جو فضا عرصے سے قائم تھی وہ اب ختم ہو رہی ہے۔ حکومت سندھ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے متحدہ کی حکومت میں شمولیت کو صوبے کے بہتر مستقبل اور امن و امان کے حوالے سے ایک نیک شگون قرار دیا جاتا رہا۔ سندھ کی صوبائی حکومت میں لاپتہ افراد اور ان کی لاشوں کی مذمت کے حوالے سے جو قرارداد منظور ہوئی ہے وہ متفقہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس ماورائے قانون قتل کے سخت خلاف ہیں۔ہمارے حکمران اٹھتے بیٹھتے قانون اور انصاف کی برتری کا جو وظیفہ پڑھتے نظر آتے ہیں کیا یہ لاشیں قانون اور انصاف کی برتری کے وظائف کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے۔ بلاشبہ مہذب معاشروں میں قانون اور انصاف کے اداروں کو شک و شبہ سے بالاتر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ اور مختلف تعصبات میں گھرے ہوئے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون اور انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ہمارا ملک اور ہمارے حکمران بات تو قانون اور انصاف کی برتری کی کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے قول کے بالکل برعکس رہتا ہے۔ اس کی ایک کلاسیکی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کی لپیٹ میں ہے جہاں تعصبات اور دشمنیوں کو بزرگوں کی میراث سمجھا جاتا ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اس قدر سنگین ہو گیا ہے کہ پورا ملک اس حوالے سے اضطراب کا شکار ہے اور بدقسمتی سے اس کی ذمے داری بھی سرکاری ایجنسیوں پر ڈالی جا رہی ہے بلوچستان عشروں سے اسی کلچر اور غیر یقینی کا شکار ہے اور اب تو صورتحال بغاوت کی ایسی منزل پر پہنچ گئی ہے کہ کئی لبریشن آرمیاں جنم لے چکی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب کسی حکومت کو مسلح بغاوت کا سامنا ہوتا ہے تو اس قسم کی سنگین صورتحال پر قابو پانے کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن مہذب ملکوں میں اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قانون اور انصاف کے اداروں ہی سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ اگر لاقانونیت کا جواب لاقانونیت سے دیا جانے لگا تو پھر قانون اور انصاف کے ادارے اور ان کا احترام بے معنی اور احمقانہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
بلوچستان میں بغاوت کی صورتحال ہے اس سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں ایک آئینی اور قانونی دوسرے غیر آئینی اور غیر قانونی اب یہ فیصلہ کرنا حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹے گی۔ ریاست کے خلاف بغاوت بلاشبہ ایک ناقابل قبول اور سنگین جرم ہے لیکن آئین اور قانون میں اس کے تدارک کے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ جن لوگوں پر بغاوت کا الزام ہے اول تو اس کی نوعیت کا تعین ضروری ہے کہ عوام کو اس آخری حد تک پہنچانے میں کیا حکومت کی غیر ذمے داریوں غیر دانشمندیوں کا بھی دخل ہے؟ اگر ہے تو اس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟ کیا عوام کی بغاوت کو روکنے کے لیے قانون میں گنجائش نہیں؟ اگر ہے اور باغیوں کے لیے احتساب کا نظام موجود ہے تو پھر لاپتہ کرنے کا اور لاشیں ملنے کا کیا جواز ہے؟ یہاں پر ہم بلوچستان کے ان دوستوں سے بھی یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ آپ نے جو راستہ اختیار کیا ہے خود آپ کی تحریک کے لیے یہ راستہ کس قدر فائدہ مند یا نقصان دہ ہے اور اگر آپ کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو بلوچستان اور بلوچ عوام کا مستقبل کیا ہو گا؟یہاں اس بات کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے ایسی بیرونی طاقتیں موجود ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اس کی جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں ہو سکتا ہے۔
یہ کام ان کے مفادات کے مطابق ہو لیکن کیا خود بلوچستان اور بلوچ عوام کے مفادات ان سازشوں سے متاثر نہیں ہوں گے؟ بلوچستان کے عوام کی ناراضی دور کرنے اور انھیں قریب لانے کے لیے اب تک جو تدبیریں کی گئیں ہم انھیں کاسمیٹک تدبیروں کا نام ہی دے سکتے ہیں بلوچ عوام کے اصل اور بنیادی مطالبات انتظامیہ اور بلوچستان کے قدرتی وسائل پر ان کا کنٹرول ہے یہ انتہائی جائز آئینی اور قانونی مطالبات ہیں۔ کیا حکومت یہ مطالبات پورے کرنے میں مخلص ہے؟کراچی میں سیاسی کارکنوں کی گمشدگی اور ان کی لاشوں کی بازیابی ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ خدانخواستہ اس کا رشتہ بلوچستان کے حالات سے نہ مل جائے۔ متحدہ ایک منظم جماعت ہے جو سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے اگر متحدہ کے کارکنوں پر کوئی الزام ہے تو انھیں عدالت میں لایا جانا چاہیے اور الزام یا الزامات ثابت ہونے پر انھیں قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ یہی بات متحدہ کی قیادت کر رہی ہے کیا یہ مطالبہ غیر قانونی یا غیر اخلاقی ہے؟
اس بات میں اب دو رائے نہیں کہ کارکن لاپتہ بھی ہو رہے ہیں اور ماورائے عدالت قتل بھی ہو رہے ہیں حکومت کا موقف ہے کہ وہ نہ ان کارروائیوں میں ملوث ہے نہ یہ کارروائیاں اس کی مرضی سے ہو رہی ہیں۔ اگر یہ موقف درست ہے تو پھر گمشدگیوں اور ماورائے قانون قتل کے ذمے دار کون ہیں؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ اگر یہ جواب تلاش نہ کیا گیا تو کراچی دوسرا بلوچستان بن سکتا ہے۔ اور ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو بلکہ پاکستان متحد رہے اور پاکستانی عوام ظلم و استحصال کے خلاف یکسوئی سے جدوجہد کر سکیں۔