آئی بی اے کراچی میں 2 پروفیسرز کی اکیڈمک بے قاعدگی سامنے لانے والے پروفیسر کو وارننگ لیٹر جاری
آئی بی اے کراچی کے دو پروفیسرز کے 7 مشترکہ مقالے عالمی جریدے میں شائع ہوئے، جس کو ٹیچر نے اجاگر کیا
آئی بی اے کراچی میں اکیڈمک بے قاعدگی کا حیران کن انکشاف اُس وقت سامنے آیا جب دو پروفیسرز کے 7 مشترکہ مقالے عالمی جریدے میں شائع ہوئے تاہم معاملہ سامنے لانے والے پروفیسر کو ہی انتظامیہ نے وارننگ لیٹر جاری کردیا۔
یہ معاملہ ریسرچ جرنل کے ایک ہی والیوم میں دو پروفیسرز کے 7 مشترکہ مقالات کی اشاعت سے شروع ہوا جس پر آئی بی اے انتظامیہ کی جانب سے نہ صرف اس معاملے کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے بلکہ اکیڈمک بے قاعدگی سے متعلق معاملے کو سامنے لانے والے پروفیسر ہی انتظامیہ کا ہدف بن گئے ہیں۔
پروفیسر نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاملے کو اجاگر کیا تو انتظامیہ نے بے قاعدگی سے پردہ اٹھانے والے پروفیسر کے خلاف آئی بی اے کوڈ آف بزنس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیا اور معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وارننگ لیٹر جاری کردیا۔
مبینہ طور پر اس بے قاعدگی میں ملوث دو میں سے ایک پروفیسر اس وقت آئی بی اے کے موجودہ رجسٹرار ڈاکٹراسد الیاس ہیں یہ معاملہ کم و بیش تقریباً 8 برس قبل آئی بی اے کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین کے آخری دور میں اس وقت رپورٹ ہوا جب business review کے نام سے شائع ہونے والے آئی بی اے کے تحقیقی جریدے research journal میں ڈاکٹر اسد الیاس اور ڈاکٹر ناصر افغان کے مشترکہ طور پر 7 تحقیقی مقالے ایک ہی موضوع پر شائع کردیے تھے۔
بعض افراد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شائع ہونے والے ریسرچ مقالے دراصل آئی بی اے کے متعلقہ طلبہ کے تھے جو مذکورہ دونوں اساتذہ کے نام سے شائع کیے گئے تاہم اس ریسرچ جرنل کی اشاعت اور تقسیم کے ساتھ ہی جیسے ہی آئی بی اے کمیونٹی میں اس بے قاعدگی کی گونج سنائی دی۔
اکیڈمک زرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے اس معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے والیوم کی تمام کاپیاں آئی بی اے کے دفاتر سے اٹھوا دیں تھیں اور انتظامیہ نے اسے اپنی تحویل میں لیا جبکہ والیوم کو آف لائن بھی کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں اسے اس نمبر کے دوسرے والیوم سے تبدیل کر دیا گیا تاہم کچھ کاپیاں بعض اساتذہ کے دفاتر میں رہ گئی جو ازاں بعد اس بے قاعدگی کے ثبوت کے طور پر آئی بی اے کے موجودہ رجسٹرار کے لیے وبال جان بن گئیں۔
"ایکسپریس" کو اس حوالے سے دستیاب ثبوت بتاتے ہیں کہ معاملہ سامنے آنے پر اپنے عہدے کی مدت کا آخری سال گزارے والے سابق ڈائریکٹر آئی بی اے ڈاکٹر عشرت حسین نے اس سلسلے میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جسے اس معاملے کے ذمے داروں کا تعین کرنا تھا لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ کمیٹٰی کی تشکیل کے کچھ ہی دنوں بعد ڈاکٹر عشرت حسین اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور بعد میں اس معاملے کو نہ صرف دبا دیا گیا بلکہ اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی۔
"ایکسپریس" نے جب کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر قاضی مسعود سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ اس تحقیقات کی finding کیا تھی جس پر انھوں اس معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 'اس کی فائنڈنگز بہت واضح تھی کیونکہ ایچ ای سے کے قواعد کے تحت ایک جریدے میں دو سے زائد آرٹیکلز نہیں آسکتے تھے لہذا ہم نے عشرت صاحب سے اسے واپس لینے کی سفارش کی تھی جس کے بعد انھوں نے اسے واپس لے لیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ چونکہ یہ ایچ ای سی قواعد کے تحت نہیں ہیں لہذا پرچے نہیں مانے جائیں گے یہ پرچے دونوں کی ترقی میں شمار بھی نہیں ہوں گے۔
کمیٹٰی کے رکن نے بتایا کہ 'انھوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اسی وجہ سے دونوں فیکلٹیز promote نہیں ہوسکے جو ایک بڑا نقصان ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عشرت صاحب جہاندیدہ آدمی ہیں انھوں نے کہا تھا کہ اس والیوم کو withdraw کردیں۔
واضح رہے کہ شواہد بتاتے ہیں کہ اکیڈمک بے قاعدگی سے متعلق 2015 کے اس واقع کے کچھ ہی عرصے بعد آئی بی اے بزنس ریویو کے اس وقت کے ایڈیٹر ڈاکٹر طفیل قریشی کو اس عہدے سے سبکدوش کردیا گیا تھا۔
ادھر اس معاملے کو گزرے 6 سال بعد آئی بی اے کے ایک پروفیسر ڈاکٹر محسن بٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم LinkedIn پر اٹھا دیا۔ ان کی جانب سے اس پلیٹ فارم پر معاملے کے حوالے سے کچھ ثبوت بھی پیش کیے گئے تاہم انھوں نے ایک ہی والیوم میں بیک وقت 7 آرٹیکل چھپوانے والے دونوں پروفیسر ڈاکٹر اسد الیاس اور ڈاکٹر ناصر افغان کو نام لے کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی کئی سوشل میڈیا پوسٹ میں معاملے کو ایک academic fraud تک قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کے بعد مذکورہ دونوں پروفیسرز کی جانب سے ایک باقاعدہ شکایت آئی بی اے انتظامیہ کو دی گئی اور کہا گیا کہ ڈاکٹر محسن بٹ سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر ان کو بدنام کررہے ہیں جس کے بعد آئی بی اے کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اکبر زیدی کی جانب رواں سال مارچ میں 5 رکنی grievance committee بنادی گئی جس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کیں اور صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب موجودہ انتظامیہ نے ڈاکٹر محسن بٹ کے خلاف آنے والی شکایت پر تو تحقیقات شروع کردی لیکن اصل معاملے کو صرف نظر کرڈالا۔
"ایکسپریس" نے اس سلسلے میں آئی بی اے کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اکبر زیدی سے بھی رابطہ قائم کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیوں کر اس معاملے کو دبایا جارہا ہے اور رپورٹ ہونے والے اس معاملے پر ڈاکٹر عشرت حسین کی تشکیل شدہ کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کہاں ہے تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ادھر ڈاکٹر اکبر زیدی کی قائم شدہ grievance committee کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "2 پروفیسرز کے ناموں سے شائع کیے گئے 7 ریسرچ پیپرز کا معاملہ اٹھانے والے ڈاکٹر محسن بٹ کے خلاف تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے آئی بی اے کے کچھ سینیئر ترین پروفیسرز کو اعتماد میں لے کر اس معاملے کے بارے میں پوچھا تھا جس پر سینئر فیکلٹی میں سے ایک نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ جرنل اپنے اجرا کے کچھ ہی دیر بعد تمام فیکلٹی سے واپس لے لیا گیا تھا کیونکہ اساتذہ نے بعض مصنفین author پر اعتراضات کردیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے جرنل کے ایڈیٹر کو بھی فارغ کردیا گیا تھا تاہم آئی بی اے منیجمنٹ کی جانب سے اس سلسلے میں مزید کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی تھی۔
ادھر آئی بی اے کے ایچ آر کے ذرائع بتاتے ہیں کہ اس معاملے کو سوشل میڈیا کے ذریعے زبان زد عام کرنے والے پروفیسر محسن بٹ کو انکوائری کے بعد آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ پہلے 6 جون کو وارننگ لیٹر جاری کرچکی ہے، جس میں ان سے جرنل کے ایک ہی والیوم میں 7 مقالوں کے خالق ڈاکٹر اسد الیاس اور ڈاکٹر ناصر افغان سے LinkedIn کے ذریعے مشروط معافی مانگنے کی سفارش کی گئی ہے اور کہا گیا کہ انھوں نے دونوں افراد کی شہرت اور آئی بی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ آئی بی اے نے مذکورہ کمیٹی کی سفارش پر ایک سوشل میڈیا پالیسی بھی ترتیب دی ہے جس میں فیکلٹی، اسٹاف اور طلبہ پر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کڑی شرائط نافذ کرنے کی سفارش کی جارہی ہے
علاوہ ازیں آئی بی اے نے ڈاکٹر محسن بٹ کی جانب سے اکیڈمک فراڈ کے مورد الزام ٹہرائے گئے ایک ہی والیوم میں 7 تحقیقی مقالوں کے خالق ڈاکٹر اسد الیاس اور ڈاکٹر ناصر افغان سے جب رابطہ کیا تو دونوں ہی افراد نے اپنا موقف دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں جبکہ ڈاکٹر اسد الیاس کی جانب سے موقف دینے سے انکار کے بعد توجہ دلائی گئی کہ آس حوالے سے یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائیٹ پر موجود کمنٹس دیکھے جاسکتے ہیں۔
مزید براں آئی بی اے انتظامیہ کا موقف جاننے کے لیے مارکوم شعبہ کی قائم مقام سربراہ مریم توحید سے رابطہ کیا گیا جس پر ان کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ جس میں یونیورسٹی کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ تحقیقات کے بعد معاملہ آشکار کرنے والے فیکلٹی ممبر کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کارروائی اس لیے کی گئی ہے کہ ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں ۔
موقف میں کہا گیا ہے کہ ریسرچ پبلیکیشن میں جن آرٹیکلز پر سوال اٹھائے گئے ہیں وہ وجود ہی نہیں رکھتے لہذا لگائے گئے الزامات یہ زمینی حقائق کے برعکس ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی بی اے کا موقف آئی بی اے بزنس ریویو ویب سائیٹ پر موجود ہے۔