سانوں کی

میاں صاحب کو جب اسحاق خان نے اتارا تو ایک دن بھی نہیں گزرا منظور وٹو ان کی آدھی پارٹی اڑا کے لے گئے ۔۔۔


جاوید قاضی May 10, 2014
[email protected]

بالآخر عمران خان دھاندلی کا بہتان لگا کر سڑکوں پر آگئے۔ تحریک چلانا یا لانگ مارچ کرنا ان کا جمہوری حق ہے۔ شکایت تو زرداری صاحب کو بھی تھی، پنجاب سے پیپلزپارٹی کو یوں اکھاڑا کہ لگتا ہے وہ پنجاب میں کبھی تھے ہی نہیں، مگر تحریک چلانے کی انھیں نہ سوجھی، اور اگر چلاتے بھی تو کہنے والے کہتے خود ہی حکومت میں تھے اور خود ہی دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ دوسری طرف زرداری صاحب کا دھاندلیوں سے پرانا مقابلہ ہے۔

ایک تو ہم اصغر خان کیس کے حوالے سے جانتے ہیں، پھر 1996 کے بھاری مینڈیٹ نے ان کو مارا۔ لیکن جو بات اپنی زوجہ محترمہ سے سیکھی وہ اس بات پر اب بھی قائم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں آگے بڑھو، مگر عمران خان اٹک گئے ہیں، جس طرح PNA کی تحریک اٹک گئی تھی اور ''عزیز ہم وطنو'' کے عنوان سے ایک تقریر ہمیں پھر سننے کو ملی۔ PNA کی تحریک تو ایک لحاظ سے Legitimacy تھی، وہ اس طرح کہ انھوں نے انتخابات کے فوراً بعد کال دے دی تھی۔ مگر خان صاحب کو یہ خیال سال گزرنے کے بعد آیا۔ جب دیکھا لوہا گرم ہے، فوج اور سول حکومت تعلقات بالکل اس سطح پر آگئے ہیں جہاں پر تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کی ریل گاڑی پٹڑی سے اکھڑ سکتی ہے۔

کہا تو PNA تحریک نے بھی یہ تھا کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل ہرگز نہیں ہونے دیں گے، مگر وہ ہوگئی تھی۔ وہ ایک سرد جنگ کا مخصوص زمانہ تھا۔ CIA کو بھٹو صاحب کو روانہ کرنا تھا اور انھوں نے کیا۔ خود بھٹو صاحب دھاندلی کروا کے تو خود PNA تحریک کے ہاتھوں میں کھیل گئے اور ہم ارتقا کے سفر میں ایک صدی پیچھے دھکیل دیے گئے۔ وہ ''عزیز ہم وطنو'' نے کام کرکے دکھایا ملک کو اندر سے انتشار کی نذر کیا، اب اس ملک کا دشمن ملک کے باہر نہیں ملک کے اندر ہی رہتا ہے۔

خیر یہ بات تو صحیح ہے کہ عمران خان کی اس تحریک سے جمہوریت پٹڑی سے نہیں اترتی۔ وہ اس لیے کہ اب دنیا میں سرد جنگ نہیں رہی۔ ہاں مگر سردجنگ کے بعد پہلی مرتبہ پھر سے دنیا نئے بلاکوں میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یوکرین کے بحران نے یورپی یونین و روس کو آمنے سامنے کھڑا کردیا ہے۔ پورا کریمیا کا علاقہ روس نگل گیا اور دنیا اسے وہ مزا چکھانے کی جرأت بھی نہیں کرسکتی، جو صدام حسین کو کویت نگلنے پر امریکا نے چکھایا تھا۔ دوسری طرف عرب دنیا سنی و شیعہ تضاد میں بٹ گئی ہے۔

اسپرنگ انقلابات اپنے دوسرے فیز میں داخل ہوگئے ہیں، مرسی کی جلد بازی نے مصر میں پھر سے آمریت کے دروازے کھول دیے اور اگر واقعی مودی ہندوستان میں آجاتا ہے تو پھر اس خطے میں بھی سرد جنگ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہندوستان کے اندر جب بھی دائیں بازو کے لوگوں نے حکومت بنائی تو یہاں پر بھی فوجی حکومتوں کو موقع ملا۔ لیکن ایسی صورتحال کی شکل بنانا قبل ازوقت ہے۔ بس صرف خدشات ہیں تو پھر عمران خان کی تحریک کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنے جا رہی جو PNA تحریک نے کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے جس میں ہمارے سابق چیف جسٹس کی اچکزئی کیس میں رولنگ ہے کہ 58(2)(b) مارشل لاؤں کا راستہ روکتی ہے۔ خود شاہ صاحب کا یہ کہنا نظریہ ضرورت سے مدد لینے کے برابر تھا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک 58(2)(b) تھی تو پھر سول حکومت کے خلاف استعمال ہوئی۔ پھر جسٹس نسیم حسن شاہ جیسے جج بھی تھے جنھوں نے اس کے استعمال کا جو ٹیسٹ بنایا وہ اس کے استعمال کو ناممکن کردیتا تھا۔ لیکن پھر بعد میں اس کے استعمال کا ٹیسٹ وسیع کرکے آسان کردیا گیا۔ اور پھر جب 58(2)(b) نہیں رہی، تو پھر ایک ہی راستہ تھا میاں صاحب کو نکالنے کا وہ تھا مارشل لا۔ زرداری صاحب اٹھارویں ترمیم کے تحت 58(2)(b) کے تحت ملے ہوئے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس دے چکے۔ جس کی وجہ سے صدر پاکستان آج کل سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔

اگر آئین میں 58(2)(b) نہیں تو کیا، غیر جمہوری قوتوں کے پاس طاہر القادری تو ہے۔ پھر چوہدری شجاعت بھی بہت دور نہیں ۔ پھر سے پیر پگارا صاحب کے پاس بھی فرشتے آنا شروع ہوجائیں گے۔ متحدہ کا ایک تضاد عمران خان کے ساتھ فطری ہے کہ وہ کراچی میں اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔ مگر پھر سے یہ سب لوگ مل بیٹھ سکتے ہیں۔ اس پورے سپید و سیاہ میں دونوں طرف سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہے۔ وہ اس تحریک کا حصہ اگر ہوتے ہیں تو لگے گا کہ جیسے غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، اور اگر نہیں جاتے تو پھر عمران خان کے لیے میدان صاف ہے۔ ہر چینل پر آج کل خان صاحب نظر آتے ہیں۔ ان کے تو اشتہار بھی آتے ہیں اور بہت سے اقتداری سیاست کے کھلاڑی بڑے غور سے ان کو واچ کر رہے ہیں۔ موقع پرستوں کی ایک لمبی قطار جو پھر عمران خان کے پاس چلی آئے گی۔

میاں صاحب کو جب اسحاق خان نے اتارا تو ایک دن بھی نہیں گزرا منظور وٹو ان کی آدھی پارٹی اڑا کے لے گئے۔ جب مشرف نے اتارا بہت بڑا حلقہ چوہدری شجاعت صاحب لے اڑے۔ بڑی مشکل سے پنجاب کے اندر ان چوزوں کو اپنے چوبارے پر واپس لے آئے، اور اگر عمران خان نے پھر سے وہ دروازہ کھول دیا تو میاں صاحب جانتے ہیں تاریخ پھر سے کم از کم اس بات کو دہرائے گی۔

زرداری بھی جانتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی وہ والی جیالوں کی پارٹی نہیں رہی بلکہ وڈیروں کی پارٹی ہے۔ جتنا اقتدار کے قریب رہیں گے تو وڈیرے بھی ان کے ساتھ رہیں گے۔ ورنہ پھر یہ ہوگا کہ ''تیری کج ادائی سے ہار کر شب انتظار چلی گئی''۔

خان صاحب کا کیا ہے وہ سیاسی آدمی ہیں، کل جس طرح بے نظیر کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں میاں صاحب استعمال ہوئے، اس طرح اگر خان صاحب ہوئے تو کوئی نئی بات نہ ہوگی۔ مگر عمران خان کا ماضی اتنا برا نہیں ہے جتنا میاں صاحب کا۔ اور دونوں کے مقابلے میں اگر شاندار ماضی کسی کا ہے تو وہ زرداری صاحب کی زوجہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا ہے۔ وہ آمریت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت پی بیٹھیں۔ یہ وہی اکرم شیخ تھے جو مشرف ٹرائل میں وفاق کی پیروی کر رہے ہیں، کل یہ میموگیٹ میں وفاق کے خلاف پیروی کر رہے تھے اور آج کل نجی چینل کی بھی۔

موجودہ حکمرانوں کو بھی لگتا ہے مرسی والی جلدی تھی۔ جلدی سے PPO لانا تھا۔ سعودی عرب و شام کے تضاد میں شریک بننا تھا، طالبان سے لمبی دوستیاں کرنی تھیں اور بااثر حلقوں کو پیچھے دھکیلنا تھا۔ اور جس طرح مرسی کو لانے میں وہاں کے سیکولر بھی تھے، جو جب سیسی نے مرسی کو رخصت کیا تو مرسی نے جو سیکولر کو بدمزہ کیا وہ پھر اس چھوٹے سے تحریر اسکوائر پر جمہوریت کو بچانے کے لیے دوبارہ نظر نہیں آئے۔

جب قانون کی حکمرانی کی جنگ چلی، جس کی قیادت دائیں بازو کے لوگوں نے کی تو سیکولر قوتیں بھی اس میں شامل رہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ سب آمر کے خلاف ڈٹ گئے اور جب قانون کی حکمرانی کی تحریک نے وہی مرسی والا کام کیا تو ترقی پسند، لبرل و سیکولر لوگ اس سے بدظن ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ ظلم برپا کیا، جیسا ضیا الحق نے کیا تھا۔ (خیر اب تو وہ پیپلز پارٹی بھی اندر سے بیٹھ گئی)۔

اور اب جب نواز شریف جمہوری قوت بنے ہیں۔ اور عمران خان کچھ کچھ جیسے غیر جمہوری قوت نظر آرہے ہیں۔ اس میں لاہور اگر میاں صاحب کے ساتھ ہے تو راولپنڈی خان صاحب کے ساتھ۔ باقی سارا پاکستان بشمول کراچی کہتا ہے ''سانوں کی''۔ نہ سندھیوں کو فکر ہے، نہ بلوچوں کو، نہ پشتونوں کو، نہ سیکولر، ترقی پسند و لبرل پنجابیوں کو۔ اس ملک میں جب بھی شب خون مارا گیا جب کسی نہ کسی طرح کی ''سانوں کی'' والی بازگشت سنی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں