پنجاب کے چڑیا گھروں میں ویٹرنری ڈاکٹروں کا بحران
لاہور زو، سفاری پارک اور جلوپارک میں جانوروں، پرندوں کی دیکھ بھال کیلیے صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر رہ گیا
سروس اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ویٹرنری ڈاکٹر، پنجاب وائلڈ لائف کے زیر انتطام چڑیا گھروں اور وائلڈ لائف پارکوں میں ملازمت چھوڑ کر بھاگنے لگے۔
گزشتہ چند برسوں میں صرف لاہور چڑیا گھر سے متعدد ویٹرنری ڈاکٹر بیرون ملک جا چکے ہیں، اس وقت پنجاب وائلڈ لائف کو ویٹرنری ڈاکٹروں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ لاہور چڑیا گھر، لاہور سفاری زو اور وائلڈ لائف پارک جلو میں جانوروں اور پرندوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک ویٹرنری ڈاکٹر ہے۔
پنجاب وائلڈلائف کے چڑیا گھر اور وائلڈ لائف پارک ویٹرنری ڈاکٹروں کے لیے تجربہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ ویٹرنری ڈاکٹر چڑیا گھروں میں چند سال پریکٹس کرتے اور پھر تجربہ حاصل کرکے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن (ڈی وی ایم) کے دوران ڈاکٹروں کو جنگلی حیات خاص طور پر شیروں، ٹائیگر، ہاتھی، زرافہ اور گینڈے کے علاج اور دیکھ بھال کی کوئی پریکٹس نہیں کروائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر جب کسی چڑیا گھر اور وائلڈ لائف پارک میں تعینات ہوتے ہیں تو وہاں نوکری کے ساتھ جنگلی جانوروں کا علاج کرنا سیکھتے ہیں اور جب انہیں چند سال کا تجربہ ہوجاتا ہے تو وہ بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ایک درجن کے قریب ویٹرنری ڈاکٹر پنجاب وائلڈ لائف کے پارکوں اور چڑیا گھروں کی نوکری چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر بابر سلیم بھی ان ڈاکٹروں میں شامل ہیں جو لاہور چڑیا گھر کو خیرباد کہہ کر ان دنوں قطر کے ایک چڑیا گھر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف میں اس وقت ریگولر ویٹرنری ڈاکٹروں کی 14 سیٹیں ہیں جو آدھی سے زیادہ خالی ہیں۔ پنجاب کے سب سے قدیم اور اہم لاہور زو کی دونوں ویٹرنری ڈاکٹر یکے بعد دیگر چھٹی لیکر بیرون ملک چلی گئی ہیں، وائلڈلائف پارک جلو میں تعینات خاتون ڈاکٹر نے بھی ایم فل کرنے کے لیے چھٹی لے رکھی ہے جبکہ دوسرے ویٹرنری ڈاکٹر طویل عرصہ سے ڈیوٹی سے غیرحاضر ہیں۔ سفاری زو میں تعینات سینیئر ڈاکٹر رضوان کو اس وقت لاہور چڑیا گھر، جلو اور سفاری میں جانوروں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
لاہور چڑیا گھر میں طویل عرصہ بطور ویٹرنری ڈاکٹر خدمات سرانجام دینے کے بعد اب قطر میں ملازمت کرنے والے ڈاکٹر بابر سلیم نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چڑیا گھروں میں کوئی انفراسٹرکچر ہے اور نہ ہی سروس اسٹرکچر ہے۔ چڑیا گھر میں کوئی سینیئر ڈاکٹر نہیں ہوتا جس سے نئے آنے والے سیکھ سکیں۔ اس وجہ سے جب کوئی نیا ڈاکٹر آتا ہے تو اسے دو، تین سال تو جنگلی جانوروں خاص طور پر بگ کیٹس، گینڈا، زرافہ، دریائی گھوڑا، ان کے مزاج، ان کی بیماریوں اور علاج کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے جنگلی جانوروں کی شرح اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب چار، پانچ سال بعد ویٹرنری ڈاکٹر یہ سمجھتا ہے کہ اب وہ کسی بھی چڑیا گھر کی دیکھ بھال کرسکتا ہے تو پھر وہ اچھے مستقبل کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔
واضع رہے کہ گزشتہ چند برسوں میں صرف لاہور چڑیا گھر سے متعدد ڈاکٹر کینیڈا، یو اے ای، سعودی عرب جا چکے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں لاہور چڑیا گھر کی دو خواتین ویٹرنری ڈاکٹر بھی بیرون ملک گئی ہیں۔ ان میں سے ڈاکٹر مدیحہ اشرف سعودی عرب جبکہ ڈاکٹر وردہ گل یو اے ای میں ہیں۔
اس حوالے سے پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور فوکل پرسن مدثرحسن نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا ڈی جی وائلڈ لائف نے سیکریٹری لائیو اسٹاک کو درخواست بھیجی ہے جس میں ان سے ڈیپوٹیشن پر ڈاکٹروں کو پنجاب وائلڈ لائف میں بھیجنے کی استدعا کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا یہ درست ہے کہ ویٹرنری ڈاکٹروں کا کوئی سروس اسٹرکچر نہیں ہے لیکن دیگر سرکاری محکموں کی طرح پنجاب وائلڈ لائف میں یہ پالیسی ہے کہ ویٹرنری ڈاکٹر جو 17 ویں گریڈ میں بھرتی ہوتے ہیں دس سال سروس کے بعد ان کی پرومشن یعنی 18 واں گریڈ دے دیا جائے گا اور 20 سال سروس کے بعد انہیں 19 واں گریڈ ملے گا۔ پنجاب وائلڈ لائف میں 19 ویں گریڈ کی صرف ایک ہی پوسٹ ہے جو ڈائریکٹر کی ہے لیکن کافی عرصہ سے یہ پوسٹ بھی خالی پڑی ہے۔
پنجاب کی نگراں حکومت اس وقت لاہور چڑیا گھر سمیت صوبے کے دیگر چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے سرگرم ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف حکومت ویٹرنری ڈاکٹر اور چڑیا گھر میں جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی ٹریننگ اور ان کی سروس سے متعلق کوئی اقدام نہیں اٹھا رہی ہے۔
ملک کے نامور وائلڈ لائف کنزرویٹر عاشق احمد خان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا جب آپ چڑیا گھروں کو اَپ گریڈ کرنا چاہتے اور انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب صرف نئے جانور اور پرندے لانا اور ان کی رہائش گاہوں کو تبدیل کرنا نہیں ہے اس کے لیے ان جانوروں کی خوراک، ان کی صحت کا خیال رکھنے والوں کی ٹریننگ بھی ضروری ہے۔ ان لوگوں کی جاب سیکیورٹی ہونی چاہیے۔ اگر آپ کسی ملازم کو بہتر تنخواہ، سہولتیں اور جاب سیکیورٹی نہیں دیں گے تو وہ یقیناً بیرون ملک جائیں گے۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت ویٹرنری ڈاکٹروں کا سروس اسٹرکچر بنانے سمیت چڑیا گھروں میں کام کرنے والے 70 فیصد سے زائد ڈیلی ویجز ملازمین کو بھی ریگولر کرے تاکہ حقیقی معنوں میں چڑیا گھروں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔