مثالی صوبے کی مثالیں

حکومت میں شامل پارٹی حسب معمول، حسب روایت اورحسب عادت کچھ زیادہ ہی برتن پانڈے بھررہی ہے

barq@email.com

اکثر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ جب ہمارا جماعت اسلامی سے کوئی رشتہ نہیں، ناطہ نہیں ہے تو ہم اس کے امیر جناب سراج الحق کے اتنے بڑے فین کیوں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ بولتے ہیں تو بالکل سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے، بغیر کسی ''سیتاگیتا'' پر ہاتھ رکھے۔ ویسے فین تو ہم مولانا فضل الرحمان کے بھی ہیں لیکن وہ ہمیں ''پینڈے'' پر کبھی نہیں بلاتے اور اکیلے اکیلے ہی پینڈے کرتے رہتے ہیں۔

ہاں تو جناب سراج الحق نے جو تازہ تازہ سچائی ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ صوبے میں کرپشن کی مثالیں قائم ہوگئی ہیں یا ہوچکی ہیں یا قائم کی جارہی ہیں اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ واقعی ایسا ہی ہے اور صوبے میں کرپشن کی مثالوں کو دیکھ دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ

تری آنکھیں تری زلفیں ترے ابرو ترے لب

ساری دنیا میں ہیں مشہور ''مثالوں ''کی طرح

صوبے میں ''مثالوں'' والی بات اس لیے بھی سچ ہے کہ ہمارے جانے والے ''بت شکن'' جناب محمود سواتوی نے جب اقتدار سنبھالا تو اپنی تقریروں میں بہ تکرار کہتا رہا کہ ہم صوبے کو مثالی صوبہ بنا کر چھوڑیں گے اور اب کے بلیوں اور بلے کے بھاگوںچھینکابھی ٹوٹ گیاہے یعنی نگرانوں کو وقت کی تنگی بھی نہیں ہے۔


آرام آرام سے جتنی مثالی کرسکتے ہیں ،کرتے رہیں، ظاہرہے کہ جب وقت کی تنگی نہیں تو باقی تو ہزار پن چکیوں سے گزرکر آنے والے ''تجربہ کار''ہیں، اس لیے اتنی مثالیں قائم کریں گے کہ خود مثالیں بھی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر حیران رہ جائیں گی۔ اب تک بھی کافی مثالیں قائم ہوچکی ہیں اورآگے بھی بہت سارا وقت پڑاہے یعنی وقت زیادہ اور مثالیں کم۔ہمیں مولانا حالی کے وہ شعریاد نہیں آرہے ہیں لیکن ان کامفہوم کچھ یوں ہے کہ

اے نوجوانوں ، اٹھو کہ موج میں ہے دریا، کھیتوں کو سیراب کرلو سارے برتن پانڈے بھرلو کہ ایسی برسات کبھی پھر آئے یا نہ آئے جب پہلے پہل پی ڈی ایم نے پہلے ملک اور پھر صوبے کو فتح کیا تو مال غنیمت کی تقسیم پر دوسری جماعتوں نے کچھ شورشرابا کیا۔

حکومت میں شامل پارٹی حسب معمول، حسب روایت اورحسب عادت کچھ زیادہ ہی برتن پانڈے بھررہی ہے،اس پرجناب حاجی المان علی نے اعلان کیا کہ اگرمیرے خلاف کسی بھی تقرر یا تبادلے کاثبوت ملا تو استعفیٰ دے دوں گا۔

اب یہ ''ثبوت'' کامعاملہ اتنازیادہ پیچیدہ ہے کہ آج تک دنیامیں کسی کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں ملا، اور تو اورکسی کو ابھی تک یہ بھی ثبوت نہیں ملاہے کہ پاکستان کے دو وزیراعظموں کو لیاقت باغ میں قتل کیا گیاہے،زیادہ سے زیادہ ثبوت اور اشارے اس طرف ہیں کہ دونوں نے خود کو خود ہی گولی ماری تھی بلکہ آدھے ملک کابھی ابھی تک ثبوت نہیں ملاہے کہ کس نے اسے کاٹ کرخلیج بنگال میں پھینکا تھا ۔

مثالوں کی بات آئی تو اس صوبے میں ایسی ایسی مثالیں بھی قائم ہوئی ہیں جن کاریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکتا۔ اس صوبے میں ایک وزیر ہواکرتے تھے اس کے پاس جو وفود آتے تھے، دوردورکے علاقوں سوات،دیر، چترال یا ہزارہ، ڈی آئی خان سے ، تو پہلے وہ ان لوگوں کا ایکسرے لیتے تھے ،کوئی اچھی گرم چادر کوئی قیمتی ٹوپی یا واسکٹ دیکھ لیتے تھے تو سب سے پہلے اترواکر رکھ لیتے تھے۔

دراصل ان کاتعلق ایک ایسے دعاگو بزرگ کی اولاد سے تھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے پاس جاؤ گے تب بھی کچھ لے کر جاؤ گے اوراگر وہ آپ کے پاس آئیں تو بھی کچھ لے کرجائیں گے چنانچہ وہ پہلے ان وفود اور سائلوں کو ہلکا کردیتے تھے پھر سرکاری چائے کاکپ پلاکر اورکام کاوعدہ کرنے کے بعد پوچھتے ، کہاں ٹھہرے ہو؟ ظاہر ہے وہ کسی ہوٹل کانام بتادیتے تو وزیرصاحب اپنے آدمی کو ساتھ کردیتے کہ وہاں سے میرے لیے بھی کھانا پیک کرکے بھجوادو۔
Load Next Story