یوں اسلام کو رسوا نہ کیجیے

لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تو انھوں نے مسیحی عبادت گاہوں اور آبادیوں کی جانب بڑھنا شروع کردیا

ashfaqkhan@express.com.pk

مسلمان آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مجتبیٰﷺ تک آنے والے تمام انبیاء کرام اور ان پر نازل آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان لائے بغیر اورانھیں بر حق جانے بغیر مسلمان ہو ہی نہیں سکتے۔

تو پھر مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب عبادت گاہوں کی توہین اور ان کے ماننے والوں کو کیسے کوئی اذیت دینے کا سوچ سکتے ہیں؟ رب ہمارا رب العالمین اور نبی ہمارے رحمت العالمین ہیں تو پھر ہم کسی دوسرے کو اذیت کیسے دے سکتے ہیں؟

مسلمان کوئی بھی عمل اسلام کے نام یا عشق مصطفیٰﷺ میں کرینگے تو اس کے پرکھنے کا پیمانہ تو قرآن وحدیث، نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیٰﷺکی سیرت طیبہ اور ان کے صحابہ کرام ؓ کے سیرت و کردار ہی ہیں۔

خاتم النبیین حضرت محمد مجتبیٰﷺ کی حیات طیبہ قرآن کی مجسم تفسیر ہے۔ اللہ رب العزت نے ان کی زندگی کے ہر ایک لمحہ کو ہماری راہنمائی کے لیے تاقیامت محفوظ کیا ہے، اور قرآن پاک کی حفاظت کا وعدہ قرآن پاک میں ہی کیا۔ لہٰذا ہر مسلمان اور خصوصاً عشق مصطفیٰﷺ کے دعویدار مسلمانوں کو اپنی عشق اور مسلمانیت کا جائزہ لینے کے لیے قرآن وسنت اور سیرت طیبہ حضرت محمد مجتبیٰ ﷺ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔

اب آتے ہیں فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں عیسائیوں کے ساتھ پیش ہونے والے واقعات کی طرف۔جہاں مسیحی برادری کے درجنوں گرجا گھروں کو توڑ پھوڑ کے بعد نذر آتش کیا گیا ان کی آبادیوں پر حملے کیے گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق دوافراد پرجڑانوالہ کے سنیما چوک میں توہین آمیز کلمات کہنے اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کا الزام ہے۔

واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس موقعے پر پہنچی تو وہاں قرآن پاک کے اوراق موجود تھے جن پر سرخ قلم سے توہین آمیز الفاظ تحریر تھے جب کہ ملزمان موقع سے فرار ہوچکے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے مگر حکمت سے کام نہیں لیا گیا اور مساجد سے اعلانات کرکے لوگوں کے اندر اشتعال پیدا کیا گیا۔

لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تو انھوں نے مسیحی عبادت گاہوں اور آبادیوں کی جانب بڑھنا شروع کردیا، پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن بپھرے ہوئے ہجوم کے آگے ان کی ایک نہ چلی، بعض لوگوں نے پولیس اہلکاروں پر تشدد بھی کیا۔ حالات کنٹرول کرنے کے لیے رینجرز کو بلانا پڑا۔

پولیس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے دو مبینہ ملزم اور مسیحی عبادتگاہوں پر حملے کرنے والوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کر لیے ہیں۔ مشتعل ہجوم نے لگ بھگ سو کے قریب گھروں کے سامان کو نکال کر آگ لگائی، سامان لوٹا گیا، گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی۔ ان کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی گئی۔ میرے خیال میں یہ گناہ کبیرہ کے زمرے میں ضرور آتا ہے اور عشق خدا اور عشق مصطفی میں کیا گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے؟

سیرت طیبہ، اسلامی تعلیمات اور اقدار کی رو سے تو یہ ظلم اور بربریت ہی ہے، مگر بحیثیت انسان اور ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت میں حملہ مسیحی برادری پر نہیں، ریاست پاکستان اور آئین پاکستان پربھی حملہ ہے۔

اسلام امن اور شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی ہے۔


اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ "دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودان باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے"۔ (سورہ بقرہ)، ایک اور مقام پر اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ "(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے"۔(سورہ کافرون)

اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "خبردار جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) لڑونگا"۔

علماء کرام اس حدیث کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک قانون ہے جو حضور اکرمﷺکے دور مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری ہوا تھا، جس پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا اور اب یہ اسلامی دستور مملکت کا ایک حصہ ہے۔

امام ابو یوسف اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''کتاب الخراج'' میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔

ایک دفعہ حضرت عمرو بن العاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اْنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا: ''تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔'' اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں ارشادفرمایا: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔

یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو وہاں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔''

چرچ آف پاکستان کے صدر بشپ آزاد مارشل کے جذبات اور احساسات سو فیصد ٹھیک ہیں، آنے والے چیف جسٹس کے دورے کے موقعے پر احساسات، نگران وزیر اعظم کے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم قابل تحسین ہیں مگر وفاق المدارس العربیہ کے صدر مفتی اعظم پاکستان، مفتی تقی عثمانی نے جڑانوالہ واقعے پر ردعمل میں جو کہا ہے یہی شریعت مطہرہ کے مطابق ہماری راہنمائی کے لیے کافی ہے، انھوں نے فرمایا کہ اسلام میں ایسی حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اسلام میں غیرمسلموں کو مذہبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی حقوق حاصل ہیں، آئین پاکستان بھی اس کا ضامن ہے۔ پھر کیسے کوئی گروہ، جتھہ اٹھ کر غیرمسلموں پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ جڑانوالہ واقعہ ہمارے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تو قرآن پاک کی توہین کرنے والوں اور اس کے ردعمل میں مسیحیوں کی عبادتگاہوں اور آبادیوں پر حملے کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔

اگر اس کیس میں اصل مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں تو یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ اگر توہین رسالت، توہین قرآن، توہین اہل بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر عبرت ناک سزائیں دی جائیں تو معاشرے میں کوئی ایسی جسارت نہیں کرے گا مگر سزا نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کا سسٹم سے اعتماد اٹھ رہا ہے اور معاشرے میں انتہا پسندی اور قانون ہاتھ میں لینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

پاکستان ایک مسلم ریاست ہے، یہاں اقلیتوں کی حفاظت ریاست سے پہلے ہم مسلمانوں کی ذمے داری ہے، اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ ہم سے پوچھیں گے کہ ہم نے اپنے ملک میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہم نے عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، کمزوروں کو گھروں سے بے گھر کیوں کیا؟

تمہیں پاکستان جیسی عظیم نعمت عطا کی گئی تھی تم نے اس میں رہنے والے غیر مسلموں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اگر سیدنا عیسیٰ ؓ یہ شکوہ لے کر آئے کہ آپﷺ کے امتیوں نے میرے ماننے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا۔ تو کیا ہم جواب دے سکیں گے؟ کیا ہم قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے جوابدہ ہو سکیں گے؟ اللہ کا حکم ہے کہ کوئی خبر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کرو۔ بغیر تحقیق کے کتنے چرچ، کتنے گھر جلا دیے گئے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اپنائیں یوں اسلام کو رسوا نہ کیجیے۔
Load Next Story