صدر مملکت نے بھی فیسوں میں اضافے کی رائے دی تھی وائس چانسلر اردو یونیورسٹی
فیسوں میں اضافہ پر طلبہ کے احتجاج کے بعد جائزہ کمیٹی قائم، وائس چانسلر کی پریس کانفرنس
وفاقی اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دوران سیشن فیسوں میں 50 فیصد یا اس سے زائد تک اضافہ پر از سر نو غور کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ طلبہ کے جاری احتجاج کے تناظر میں کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ڈینز پر مشتمل جائزہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جبکہ کمیٹی کی سفارشات حتمی فیصلے کے لیے دوبارہ اکیڈمک کونسل میں پیش کی جائیں گی۔ اس دوران طلبہ سے لیٹ فیس چارج نہیں لیے جائیں گے تاہم فیسوں میں اضافہ کمیٹی کی کسی نئی سفارش اور اکیڈمک کونسل کے فیصلے تک قائم رہے گا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین نے منعقدہ ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ فیس کو ری اسٹریکچرل کرنے پر طلبہ چار روز سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان میں 2017 سے 2020 تک فیس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال معمولی اضافہ کیا گیا ملکی صورت حال کے سبب گزشتہ کئی سال سے ہماری گرانٹ میں اضافہ بھی نہیں ہو رہا، 3 ہزار ملین روپے کا بجٹ ہم نے ایچ ای سی سے مانگا تھا اور 800 ملین روپے کے لگ بھگ ہمیں ملے، ہم نے وفاقی حکومت کی سطح پر یہ معاملہ اٹھایا۔
وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ہم وفاقی حکومت کے تحت کام کر رہے ہیں، ہمیں صوبائی حکومت سے دیگر صوبائی جامعات کی طرح گرانٹ بھی نہیں ملتی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی کے چانسلر اور صدر پاکستان نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی کی فیس انتہائی کم ہے اسے بڑھنا چاہیے اور یہ بات سابق مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کے دور میں ایک اجلاس میں کی گئی تھی۔ وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ فیسوں میں 50 فیصد کا حالیہ اضافہ اساتذہ کی مشاورت سے کیا گیا ہے اور دیگر سرکاری جامعات سے ہمارا فیس اسٹریکچر اب بھی بہت کم ہے۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ہروفیسر اقبال نقوی کا کہنا تھا کہ اقبال عبدالحق کیمپس کے شعبوں کی سیمسٹر فیس 6 ہزار سے 9 ہزار اور کچھ شعبوں کی 10 ہزار سے 15 ہزار جبکہ سائنس کے شعبوں کی 14 ہزار روپے فی سیمسٹر سے 29 ہزار فیس سیمسٹر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وائس چانسلر نے ایچ ای سی، گورنر سندھ اور کچھ سینیٹرز سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور بتایا کہ یونیورسٹی کے اخراجات 3 ہزار روپے ملین سالانہ ہیں اور ہمیں صرف 895 ملین دیے جا رہے ہیں تاہم ہر جگہ سے ہمیں یہی بتایا گیا اس وقت ملکی صورت حال کے سبب گرانٹ میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔
ڈائریکٹر فنانس کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس شعبوں میں سامان کی خریداری کے لیے فنڈز نہیں ہیں، گزشتہ سال فیسوں سے 1200 ملین روپے آئے تھے اضافے کے بعد اب 1800 ملین روپے کی وصولی کا امکان ہے۔
یہ فیصلہ طلبہ کے جاری احتجاج کے تناظر میں کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ڈینز پر مشتمل جائزہ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جبکہ کمیٹی کی سفارشات حتمی فیصلے کے لیے دوبارہ اکیڈمک کونسل میں پیش کی جائیں گی۔ اس دوران طلبہ سے لیٹ فیس چارج نہیں لیے جائیں گے تاہم فیسوں میں اضافہ کمیٹی کی کسی نئی سفارش اور اکیڈمک کونسل کے فیصلے تک قائم رہے گا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین نے منعقدہ ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ فیس کو ری اسٹریکچرل کرنے پر طلبہ چار روز سے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان میں 2017 سے 2020 تک فیس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال معمولی اضافہ کیا گیا ملکی صورت حال کے سبب گزشتہ کئی سال سے ہماری گرانٹ میں اضافہ بھی نہیں ہو رہا، 3 ہزار ملین روپے کا بجٹ ہم نے ایچ ای سی سے مانگا تھا اور 800 ملین روپے کے لگ بھگ ہمیں ملے، ہم نے وفاقی حکومت کی سطح پر یہ معاملہ اٹھایا۔
وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ہم وفاقی حکومت کے تحت کام کر رہے ہیں، ہمیں صوبائی حکومت سے دیگر صوبائی جامعات کی طرح گرانٹ بھی نہیں ملتی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی کے چانسلر اور صدر پاکستان نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی کی فیس انتہائی کم ہے اسے بڑھنا چاہیے اور یہ بات سابق مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کے دور میں ایک اجلاس میں کی گئی تھی۔ وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ فیسوں میں 50 فیصد کا حالیہ اضافہ اساتذہ کی مشاورت سے کیا گیا ہے اور دیگر سرکاری جامعات سے ہمارا فیس اسٹریکچر اب بھی بہت کم ہے۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ہروفیسر اقبال نقوی کا کہنا تھا کہ اقبال عبدالحق کیمپس کے شعبوں کی سیمسٹر فیس 6 ہزار سے 9 ہزار اور کچھ شعبوں کی 10 ہزار سے 15 ہزار جبکہ سائنس کے شعبوں کی 14 ہزار روپے فی سیمسٹر سے 29 ہزار فیس سیمسٹر کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وائس چانسلر نے ایچ ای سی، گورنر سندھ اور کچھ سینیٹرز سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور بتایا کہ یونیورسٹی کے اخراجات 3 ہزار روپے ملین سالانہ ہیں اور ہمیں صرف 895 ملین دیے جا رہے ہیں تاہم ہر جگہ سے ہمیں یہی بتایا گیا اس وقت ملکی صورت حال کے سبب گرانٹ میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔
ڈائریکٹر فنانس کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس شعبوں میں سامان کی خریداری کے لیے فنڈز نہیں ہیں، گزشتہ سال فیسوں سے 1200 ملین روپے آئے تھے اضافے کے بعد اب 1800 ملین روپے کی وصولی کا امکان ہے۔