وشواناتھ طاؤس پہلا حصہ
خاموش فلموں سے لے کر بولتی فلموں تک کے سفر کی دلچسپ روداد ہے اس کتاب میں
کیا کمال کی کتاب ہے، جیسے الف لیلیٰ۔۔۔۔ پڑھتے جائیے اور لطف اندوز ہوتے جائیے، دلچسپی ہے کہ کم نہیں ہوتی۔ فلمی دنیا سے جڑے کیسے کیسے دلچسپ واقعات و ادبی مضامین سے وشواناتھ طاؤس کی یہ کتاب روشناس کراتی ہے۔
خاموش فلموں سے لے کر بولتی فلموں تک کے سفر کی دلچسپ روداد ہے اس کتاب میں۔ راشد اشرف پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن ادب سے ان کی دلچسپی غیر معمولی ہے، پتا نہیں کہاں کہاں کی علمی دشت نوردی کی ہے راشد نے، اور پھر اٹلانٹس پبلی کیشنز جیسا علم دوست ادارہ ان کے ساتھ ہے۔
راشد نے اب تک 133 تصنیفات '' زندہ کتابیں'' کے عنوان سے شایع کی ہیں، انھیں ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ جو کتابیں اب تک شایع ہو چکی ہیں ان میں آپ بیتی، شکاریات، شخصی خاکے، یاد داشتیں، ناول اور نہ جانے کیا کیا، ہر کتاب ایک گوہر نایاب ہے۔
راشد ادب کے سمندر کے غوطہ خور ہیں، وہ جب اس سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں تو پرانی اور انمول ایسی کتابوں کو نکال کر لاتے ہیں جو اب نایاب ہیں۔
یعنی یہ کتابیں گوہر نایاب ہیں، میں دو کتابوں کا ضرور تذکرہ کروں گی جو زندہ کتابوں میں سرفہرست ہیں، پہلی مولانا عبدالسلام نیازی پر جو دلی کی ایک ایسی شخصیت تھے جن کا ذریعہ آمدن کچھ نہ تھا، لیکن ضرورت مندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے، انھیں یہ غیبی امداد کہاں سے ملتی تھی کسی کو نہیں معلوم۔ انشا اللہ کسی کالم میں اس کتاب سے یعنی مولانا عبدالسلام سے تعارف ضرور کراؤں گی۔
دوسری کتاب جو مجھے پسند ہے وہ ہے نصر اللہ خاں کی '' کیا قافلہ جاتا ہے'' خاکوں کی اس کتاب کو بہت پہلے اپنے کالم میں متعارف کروا چکی ہوں۔
زیر نظر کتاب ''وشواناتھ طاؤس کے فلمی و ادبی مضامین'' 609 صفحات پر مشتمل ہے۔ وشواناتھ کی تحریر شگفتہ اور سادہ ہے، کہیں بھی آپ اکتاہٹ محسوس نہیں کریں گے، اس میں 51 مضامین فلموں اور فلمی لوگوں سے متعلق ہیں اور 24 مضامین ادبی نوعیت کے ہیں۔
وشواناتھ نے فلم نگری کے اوائل کی جو داستانیں بیان کی ہیں ان میں بھائی چارہ، انسانیت اور مذہبی آزادی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد اور یگانگت کے بڑے قصے ہیں، وشواناتھ اردو کے عاشق تھے، ان کی تصنیف میں فلموں کے حوالے سے یہ بات بار بار سامنے آئی ہے کہ وہی اداکار اور اداکارائیں فلم میں کامیاب ہوتے تھے جن کا اردو تلفظ صحیح اور صاف ہوا کرتا تھا، وشواناتھ کے ان مضامین کو راشد نے '' اردو ادب ، ہماری زبان اور دیگر اردو رسائل سے اخذ کیا ہے۔
اس دلچسپ کتاب کو شروع کرنے کے بعد آپ اسے ختم کیے بغیر دم نہ لیں گے۔ پچھتر عنوانات میں سے چند ایک کی طرف ضرور اشارہ کروں گی جس سے قارئین کو اس کی دلچسپی کا اندازہ ہوگا۔
امراؤ جان ادا کا فلمی سفر (بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کا تذکرہ)۔ بیسویں صدی کا تان سین، کندن لال سہگل، اردو کی پہلی ناطق فلم، عالم آرا، بابو ماہیا، مشہور رومانی داستان، صبیحہ خانم اور اس کی والدہ بالو کی داستان۔ شیام جسے اردو زبان سے عشق تھا۔ ایک انوکھی فنکارہ، لیلا نائیڈو۔ مدھوبالا کے آخری لمحات کی پرسوز داستان، فلمی دنیا کے راز ہائے سربستہ، مدھوبالا کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات، پرانی فلمی یادیں، فلمی دنیا کے گمشدہ اوراق، فلمی دنیا کے چند واقعات، اداکارہ Fearless Nadia کے قصے، ماضی کے فلمی واقعات، فلمی دنیا کا سب سے بڑا مقدمہ، فلمی دنیا کا پہلا بڑا رومان، دیویکا رانی اور نجم الحسن، کمال امروہوی کی شاہکار فلم محل۔
جب اردو صحافت جوان تھی، یادیں بھولی بسری سی، اداکارہ ثریا کے عاشق ایک درزی کی داستان، دلی کی طوائفوں کا ترجمان ہفت روزہ '' عروس نو '' اردو کے مزاحیہ اخبارات، ماضی کی المناک یادیں، صحافی جو شراب کے ہاتھوں مر گئے، اردو صحافت کے برگ و بار، جب ایک درزی کو اخبار کا جنرل منیجر بنایا گیا۔
سارے مضامین بے حد دلچسپ ہیں، قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ اسی کتاب کے ایک مضمون '' بالو ماہیا '' سے پتا چلتا ہے کہ صبیحہ خانم کی ماں کا نام بالو تھا جو ایک متمول وکیل کی حسین و جمیل بیٹی تھی، ایک تانگے والا محمد علی بالو پر عاشق ہو گیا، یہ گجرات کا قصہ ہے۔ بالو اور محمد علی چوری چھپے ملنے لگے۔
کہتے ہیں، جوانی دیوانی ہوتی ہے، جب محبت میں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو تانگے والا بالو کے گھر کی بیرونی دیوار پر پنجابی میں شعر لکھنے لگا اور زور زور سے وہ شعر الاپنے بھی لگا، ماں باپ نے بالو کو بہت سمجھایا مگر بیٹی عشق سے باز نہ آئی، تانگے والا اپنی محبوبہ کو بغاوت پر اکساتا بھی تھا، ہر شام اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا تھا کہ محبوبہ کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے شعر الاپتا، گھر والوں نے کئی بار اس کی پٹائی بھی کی لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ دیوانہ وار اپنا حال دل اور عشق کی داستان گلی کوچوں اور بازاروں میں دہرانے لگا۔ اور محمد علی سے محمد علی ماہیا بن گیا۔
وکیل باپ نے تھک ہار کر بیٹی کا رشتہ ایک زمیندار کے اوباش بیٹے سے طے کر دیا، کیونکہ برادری کا کوئی بھی شریف نوجوان اب عشق کی بدنامی میں ملوث لڑکی کا ہاتھ تھامنے پر آمادہ نہ تھا، دونوں گھرانے متمول تھے، دونوں طرف زور و شور سے تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، محمد علی ماہیا نے شادی کا منصوبہ ناکام بنانے کا تہیہ کر لیا تھا، اور پھر دونوں عاشق و معشوق گھر سے فرار ہوگئے تھے۔
معاملہ پولیس تک پہنچ چکا تھا، آخر ایک روزگرفتار کر لیے گئے، معاملہ عدالت تک پہنچ گیا، لڑکی کے باپ نے روپیہ پانی کی طرح بہایا مگر لڑکی نے بے خوف ہو کر عدالت میں اپنے عشق کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے۔ منصف نے لڑکی کے حق میں فیصلہ دیا۔ عزت دار باپ سر پیٹتا رہ گیا اور تانگے والا جیت گیا۔ دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد بالو اقبال بیگم بن گئی۔
محبت کی منزل طے ہوگئی، لیکن پیٹ کی بھوک نے خوشیوں کو پامال کردیا، عشق کا بھوت سر سے اترنے لگا، زندگی کی تلخ حقیقتیں سامنے آنے لگیں۔ ایک معمولی تانگے والا بھلا کیسے محبت کے چاؤ چونچلے پورے کر سکتا تھا، اب ایک بچی بھی پیدا ہو چکی تھی، تنگ دستی نے زندگی عذاب بنا دی تھی، غربت اتنی تھی کہ ننھی سی بچی کو چھوٹی عمر میں ہی چکی پیسنی پڑتی تھی، ایک دن وہ ننھے ننھے ہاتھوں سے چکی پیس رہی تھی، تھکن کی وجہ سے وہ دیر تک چکی نہ چلا سکی، ماں نے دیکھا تو غصے میں آگئی اور ننھی سی بچی کی چٹیا چکی سے باندھ دی، وہ دیر تک روتی رہی، لیکن اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔
اس بچی کا نام تھا، صبیحہ جو فلمی دنیا میں صبیحہ خانم کے نام سے جانی گئی۔ غربت سے تنگ محمد علی ماہیا کو فلمی دنیا میں چکا چوند نظر آئی، اس نے بیوی کو فلم میں کام کرنے کو کہا، بالو خوش شکل تھی اور خود بھی غربت کے عذاب سے نکلنا چاہتی تھی، اس نے بھی فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، کچھ رنگین مزاج بھی تھی۔
اس لیے فلمی دنیا میں آسانی سے جگہ بنالی، بالو کی پہلی فلم '' ہیر سیال '' تھی جسے کے ڈی مہرہ نے ڈائریکٹ کیا تھا، بالو کی دوسری فلم ''میرا پنجاب'' تھی، تیسری فلم '' سسی پنوں'' تھی جسے داؤد چاند نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم ''سسی پنوں'' کے بننے کے دوران بالو کو ٹی بی ہو گئی جو اس زمانے میں ایک جان لیوا مرض تھا۔ فلم کی تکمیل سے پہلے بالو جان کی بازی ہار گئی۔
سن 1956 میں ''سسی'' اردو زبان میں پاکستان میں بنی تو اس کے ہدایت کار بھی داؤد چاند تھے اور اس کی ہیروئن بالو کی بیٹی صبیحہ تھی، جس کے ہیروئن بن جانے کے بعد محمد علی ماہیا دولت میں کھیلنے لگا۔
بیٹی کو فلمی دنیا کا رخ دکھا کر اس نے زندگی خوب عیش و عشرت میں گزاری، صبیحہ کا رومانس سنتوش سے چلا اور دونوں نے لندن میں شادی کرنی چاہی تو ماہیا نے لندن تار دے کر شادی رکوانے کی کوشش کی اور بھول گیا کہ اس نے ایک عزت دار لڑکی کو ورغلا کر گھر سے بھگایا تھا، بعد میں صبیحہ اور سنتوش نے شادی کر لی۔ صبیحہ کی وفات 13 جون 2020 میں ہوئی۔ سنتوش 11 جون 1982 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ( جاری ہے)
خاموش فلموں سے لے کر بولتی فلموں تک کے سفر کی دلچسپ روداد ہے اس کتاب میں۔ راشد اشرف پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن ادب سے ان کی دلچسپی غیر معمولی ہے، پتا نہیں کہاں کہاں کی علمی دشت نوردی کی ہے راشد نے، اور پھر اٹلانٹس پبلی کیشنز جیسا علم دوست ادارہ ان کے ساتھ ہے۔
راشد نے اب تک 133 تصنیفات '' زندہ کتابیں'' کے عنوان سے شایع کی ہیں، انھیں ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ جو کتابیں اب تک شایع ہو چکی ہیں ان میں آپ بیتی، شکاریات، شخصی خاکے، یاد داشتیں، ناول اور نہ جانے کیا کیا، ہر کتاب ایک گوہر نایاب ہے۔
راشد ادب کے سمندر کے غوطہ خور ہیں، وہ جب اس سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں تو پرانی اور انمول ایسی کتابوں کو نکال کر لاتے ہیں جو اب نایاب ہیں۔
یعنی یہ کتابیں گوہر نایاب ہیں، میں دو کتابوں کا ضرور تذکرہ کروں گی جو زندہ کتابوں میں سرفہرست ہیں، پہلی مولانا عبدالسلام نیازی پر جو دلی کی ایک ایسی شخصیت تھے جن کا ذریعہ آمدن کچھ نہ تھا، لیکن ضرورت مندوں کو کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے، انھیں یہ غیبی امداد کہاں سے ملتی تھی کسی کو نہیں معلوم۔ انشا اللہ کسی کالم میں اس کتاب سے یعنی مولانا عبدالسلام سے تعارف ضرور کراؤں گی۔
دوسری کتاب جو مجھے پسند ہے وہ ہے نصر اللہ خاں کی '' کیا قافلہ جاتا ہے'' خاکوں کی اس کتاب کو بہت پہلے اپنے کالم میں متعارف کروا چکی ہوں۔
زیر نظر کتاب ''وشواناتھ طاؤس کے فلمی و ادبی مضامین'' 609 صفحات پر مشتمل ہے۔ وشواناتھ کی تحریر شگفتہ اور سادہ ہے، کہیں بھی آپ اکتاہٹ محسوس نہیں کریں گے، اس میں 51 مضامین فلموں اور فلمی لوگوں سے متعلق ہیں اور 24 مضامین ادبی نوعیت کے ہیں۔
وشواناتھ نے فلم نگری کے اوائل کی جو داستانیں بیان کی ہیں ان میں بھائی چارہ، انسانیت اور مذہبی آزادی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد اور یگانگت کے بڑے قصے ہیں، وشواناتھ اردو کے عاشق تھے، ان کی تصنیف میں فلموں کے حوالے سے یہ بات بار بار سامنے آئی ہے کہ وہی اداکار اور اداکارائیں فلم میں کامیاب ہوتے تھے جن کا اردو تلفظ صحیح اور صاف ہوا کرتا تھا، وشواناتھ کے ان مضامین کو راشد نے '' اردو ادب ، ہماری زبان اور دیگر اردو رسائل سے اخذ کیا ہے۔
اس دلچسپ کتاب کو شروع کرنے کے بعد آپ اسے ختم کیے بغیر دم نہ لیں گے۔ پچھتر عنوانات میں سے چند ایک کی طرف ضرور اشارہ کروں گی جس سے قارئین کو اس کی دلچسپی کا اندازہ ہوگا۔
امراؤ جان ادا کا فلمی سفر (بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کا تذکرہ)۔ بیسویں صدی کا تان سین، کندن لال سہگل، اردو کی پہلی ناطق فلم، عالم آرا، بابو ماہیا، مشہور رومانی داستان، صبیحہ خانم اور اس کی والدہ بالو کی داستان۔ شیام جسے اردو زبان سے عشق تھا۔ ایک انوکھی فنکارہ، لیلا نائیڈو۔ مدھوبالا کے آخری لمحات کی پرسوز داستان، فلمی دنیا کے راز ہائے سربستہ، مدھوبالا کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات، پرانی فلمی یادیں، فلمی دنیا کے گمشدہ اوراق، فلمی دنیا کے چند واقعات، اداکارہ Fearless Nadia کے قصے، ماضی کے فلمی واقعات، فلمی دنیا کا سب سے بڑا مقدمہ، فلمی دنیا کا پہلا بڑا رومان، دیویکا رانی اور نجم الحسن، کمال امروہوی کی شاہکار فلم محل۔
جب اردو صحافت جوان تھی، یادیں بھولی بسری سی، اداکارہ ثریا کے عاشق ایک درزی کی داستان، دلی کی طوائفوں کا ترجمان ہفت روزہ '' عروس نو '' اردو کے مزاحیہ اخبارات، ماضی کی المناک یادیں، صحافی جو شراب کے ہاتھوں مر گئے، اردو صحافت کے برگ و بار، جب ایک درزی کو اخبار کا جنرل منیجر بنایا گیا۔
سارے مضامین بے حد دلچسپ ہیں، قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ اسی کتاب کے ایک مضمون '' بالو ماہیا '' سے پتا چلتا ہے کہ صبیحہ خانم کی ماں کا نام بالو تھا جو ایک متمول وکیل کی حسین و جمیل بیٹی تھی، ایک تانگے والا محمد علی بالو پر عاشق ہو گیا، یہ گجرات کا قصہ ہے۔ بالو اور محمد علی چوری چھپے ملنے لگے۔
کہتے ہیں، جوانی دیوانی ہوتی ہے، جب محبت میں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو تانگے والا بالو کے گھر کی بیرونی دیوار پر پنجابی میں شعر لکھنے لگا اور زور زور سے وہ شعر الاپنے بھی لگا، ماں باپ نے بالو کو بہت سمجھایا مگر بیٹی عشق سے باز نہ آئی، تانگے والا اپنی محبوبہ کو بغاوت پر اکساتا بھی تھا، ہر شام اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا تھا کہ محبوبہ کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے شعر الاپتا، گھر والوں نے کئی بار اس کی پٹائی بھی کی لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ دیوانہ وار اپنا حال دل اور عشق کی داستان گلی کوچوں اور بازاروں میں دہرانے لگا۔ اور محمد علی سے محمد علی ماہیا بن گیا۔
وکیل باپ نے تھک ہار کر بیٹی کا رشتہ ایک زمیندار کے اوباش بیٹے سے طے کر دیا، کیونکہ برادری کا کوئی بھی شریف نوجوان اب عشق کی بدنامی میں ملوث لڑکی کا ہاتھ تھامنے پر آمادہ نہ تھا، دونوں گھرانے متمول تھے، دونوں طرف زور و شور سے تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، محمد علی ماہیا نے شادی کا منصوبہ ناکام بنانے کا تہیہ کر لیا تھا، اور پھر دونوں عاشق و معشوق گھر سے فرار ہوگئے تھے۔
معاملہ پولیس تک پہنچ چکا تھا، آخر ایک روزگرفتار کر لیے گئے، معاملہ عدالت تک پہنچ گیا، لڑکی کے باپ نے روپیہ پانی کی طرح بہایا مگر لڑکی نے بے خوف ہو کر عدالت میں اپنے عشق کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے۔ منصف نے لڑکی کے حق میں فیصلہ دیا۔ عزت دار باپ سر پیٹتا رہ گیا اور تانگے والا جیت گیا۔ دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد بالو اقبال بیگم بن گئی۔
محبت کی منزل طے ہوگئی، لیکن پیٹ کی بھوک نے خوشیوں کو پامال کردیا، عشق کا بھوت سر سے اترنے لگا، زندگی کی تلخ حقیقتیں سامنے آنے لگیں۔ ایک معمولی تانگے والا بھلا کیسے محبت کے چاؤ چونچلے پورے کر سکتا تھا، اب ایک بچی بھی پیدا ہو چکی تھی، تنگ دستی نے زندگی عذاب بنا دی تھی، غربت اتنی تھی کہ ننھی سی بچی کو چھوٹی عمر میں ہی چکی پیسنی پڑتی تھی، ایک دن وہ ننھے ننھے ہاتھوں سے چکی پیس رہی تھی، تھکن کی وجہ سے وہ دیر تک چکی نہ چلا سکی، ماں نے دیکھا تو غصے میں آگئی اور ننھی سی بچی کی چٹیا چکی سے باندھ دی، وہ دیر تک روتی رہی، لیکن اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔
اس بچی کا نام تھا، صبیحہ جو فلمی دنیا میں صبیحہ خانم کے نام سے جانی گئی۔ غربت سے تنگ محمد علی ماہیا کو فلمی دنیا میں چکا چوند نظر آئی، اس نے بیوی کو فلم میں کام کرنے کو کہا، بالو خوش شکل تھی اور خود بھی غربت کے عذاب سے نکلنا چاہتی تھی، اس نے بھی فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، کچھ رنگین مزاج بھی تھی۔
اس لیے فلمی دنیا میں آسانی سے جگہ بنالی، بالو کی پہلی فلم '' ہیر سیال '' تھی جسے کے ڈی مہرہ نے ڈائریکٹ کیا تھا، بالو کی دوسری فلم ''میرا پنجاب'' تھی، تیسری فلم '' سسی پنوں'' تھی جسے داؤد چاند نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم ''سسی پنوں'' کے بننے کے دوران بالو کو ٹی بی ہو گئی جو اس زمانے میں ایک جان لیوا مرض تھا۔ فلم کی تکمیل سے پہلے بالو جان کی بازی ہار گئی۔
سن 1956 میں ''سسی'' اردو زبان میں پاکستان میں بنی تو اس کے ہدایت کار بھی داؤد چاند تھے اور اس کی ہیروئن بالو کی بیٹی صبیحہ تھی، جس کے ہیروئن بن جانے کے بعد محمد علی ماہیا دولت میں کھیلنے لگا۔
بیٹی کو فلمی دنیا کا رخ دکھا کر اس نے زندگی خوب عیش و عشرت میں گزاری، صبیحہ کا رومانس سنتوش سے چلا اور دونوں نے لندن میں شادی کرنی چاہی تو ماہیا نے لندن تار دے کر شادی رکوانے کی کوشش کی اور بھول گیا کہ اس نے ایک عزت دار لڑکی کو ورغلا کر گھر سے بھگایا تھا، بعد میں صبیحہ اور سنتوش نے شادی کر لی۔ صبیحہ کی وفات 13 جون 2020 میں ہوئی۔ سنتوش 11 جون 1982 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ( جاری ہے)