نگراں وزیر اطلاعات و نشریات کو مبارکباد
وزیر موصوف سے ہمارا التماس یہ ہے کہ ڈوبتے ہوئے ریڈیوپاکستان کوسنبھالا دیاجائے اور اس کے حال اورمستقبل کومحفوظ کیاجائے
محترم مرتضیٰ سولنگی کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔
میں اُس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
اُن کے وزارتِ اطلاعات و نشریات کے عہدے کا قلمدان سنبھالتے ہی میڈیا کے تمام حلقوں میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے قومی نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین نے تو اُن کے بروقت تقرر کو مسیحا کی آمد سے تعبیر کیا ہے اور یہ بات لفظ بہ لفظ حقیقت بھی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے اپنے نشریاتی سفر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے ہی کیا تھا اور پھر وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بِنا پر اِس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔
مرتضیٰ سولنگی نے بی بی سی اور وائس آف امریکا جیسے عالمی شہرت کے حامل نشریاتی اداروں میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کے جوہر دکھائے۔ موصوف کو اپنی مادری زبان سندھی کے علاوہ قومی زبان اردو پر یکساں عبور حاصل ہے اور وہ انگریزی پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہ وائس آف امریکا جیسے نشریاتی ادارے کو خیر باد کہہ کر سیدھے پاکستان آگئے، وہ ایک سچے اور کھرے محبِ وطن ہیں۔ وہ ایک وسیع المطالعہ دانشور ہیں اور کتابیں ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔
کتاب اُن کی جیون ساتھی ہے اور اِس کے بغیر اُن کو چین نہیں آتا۔ سچ پوچھیے تو کتاب کے ساتھ اُن کا تعلق ماہی اور آب جیسا ہے چناچہ جب امریکا سے اُن کی واپسی ہوئی تو اُن کی لائبریری اُن کے ساتھ ساتھ تھی۔
صحافت کے ساتھ بھی اُن کا ایک رومانوی رشتہ ہے۔ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کی نظرِ انتخاب کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے وزارتِ اطلاعات و نشریات کا قلمدان اُن کے سپرد کیا ہے۔
امید واثق ہے کہ مرتضیٰ سولنگی نہ صرف نگراں وزیرِ اعظم کی توقعات پر پورا اُتریں گے بلکہ اطلاعات و نشریات کے شعبہ میں اہم تبدیلیاں کریں گے اور اہم عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کریں گے جس میں ریڈیو پاکستان جیسا قومی اہمیت کا حامل نشریاتی ادارہ خاص طور پر شامل ہے۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس ادارے کے سربراہوں میں زیڈ اے بخاری، رشید احمد اور سلیم گیلانی جیسی ممتاز شخصیات ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر جلوہ گر ہوا کرتی تھیں اُس میں ایسی شخصیات کو ڈائریکٹر جنرل کی کرسی پر لا کر بٹھا دیا گیا جن کا نہ کوئی ثقافتی بیک گراؤنڈ تھا بلکہ دور پرے کا بھی واسطہ نہیں تھا۔وزیرِ موصوف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے اندر ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پینشنرز کو تین تین ماہ تک تنخواہ اور پینشن نہ ملنے کی وجہ سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنا پڑ رہی ہے ۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں تنخواہ اور پینشن میں 17.5 فیصد کا جو اضافہ کیا ہے وہ نہ صرف ابھی تک نہیں ملا ہے بلکہ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ اضافہ کب ملے گا اور آیا ملے گا بھی یا نہیں ملے گا۔مختصر یہ کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پینشنرز کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔
وزیرِ موصوف سے ہمارا التماس یہ ہے کہ ڈوبتے ہوئے ریڈیو پاکستان کو سنبھالا دیا جائے اور اِس کے حال اور مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔ ریڈیو پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اِس کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے اور اربابِ اختیار نے اِس کے تابناک ماضی کو یکسر فراموش کردیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِاعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اِس ادارے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اِسے ایک پبلک کارپوریشن بنا دیا تھا لیکن اِس کارپوریشن کو پی آئی اے جیسی کمرشل ادارے کی طرز پر نہیں بنایا جاسکا۔ اِس سے متعلق ایکٹ کے بغور مطالعہ سے یہ بات قطعی واضح ہوجائے گی کہ اِس سے کسی آمدنی کی توقع کرنا سراسر غلط ہوگا اور اِس کے لیے مطلوبہ فنڈز کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہوگی۔
اِس ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں نئے نئے ریڈیو اسٹیشن کھول کر ایک نیٹ ورک پھیلا دیا گیا تاکہ ریڈیو پاکستان کی آواز ملک کے کونے کونے تک پہنچائی جاسکے۔ ماضی میں ریڈیو پاکستان کی نشریات اے ایم کے ذریعہ ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے آواز صاف سنائی دینے میں دشواری ہوتی تھی لیکن ایف ایم کی آمد نے یہ مسئلہ بخوبی حل کردیا ہے لہذا اب یہ ذمے داری ریڈیو پاکستان کے شعبہ انجینئرنگ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ریڈیو پاکستان کی آواز کو بہتر طریقہ سے ملک کے کونے کونے تک پہنچائے۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ریڈیو پاکستان کے سربراہوں کی ایک اعلیٰ سطح کانفرنس کا انعقاد کرکے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ ہماری نیک خواہشات اور دعائیں محترم مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ ہیں۔