پاکیزہ دل
’’اے اﷲ! میرے دل کو غلطیوں اور گناہوں سے ایسا صاف فرما دے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔‘‘
ہمارے جسم میں خون کی گردش کو برقرار رکھنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے دل کی ایسی مشین رکھ دی ہے کہ اگر حرکت قلب جاری ہو تو انسان کو زندہ سمجھا جاتا ہے اور جب اس کی حرکت بند ہو جائے تو وہ انسان مردہ کہلاتا ہے۔
ایک تو یہ دل ہے جس سے جسم کی زندگی اور موت کا تعلق ہے، دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں انسان کے باطن یعنی اس کے اندر کی حقیقت کا تعلق بھی دل ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے تو تمام بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ فرمایا: وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔'' (بخاری و مسلم)
جب حق کو دیکھنے کے باوجود لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے سورۂ حج کی چھیالیسویں آیت میں فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ! ان لوگوں کی آنکھیں نہیں لیکن ان کے دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔''
جس طرح ہماری روز مرہ کی زندگی میں آنکھوں سے دیکھنے کے لیے دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک آنکھ کی روشنی اور دوسری باہر کی روشنی' اگر نابینا ہو تو دن کی چمکتی دھوپ میں بھی نہیں دیکھ سکتا اور اگر آنکھیں تو صحیح سلامت ہوں لیکن باہر گہری تاریکی ہو تو بھی دیکھ نہیں سکے گا، بالکل اسی طرح انسان کے لیے معاشرے میں صحیح سوچ رکھنے، صحیح عمل کرنے اور درست زندگی گزارنے کے لیے بھی دو روشنیوں کی ضرورت ہے۔
ایک دل کی روشنی اور دوسری اسلامی تعلیمات کی روشنی۔ اگر ان میں سے ایک بھی روشنی نہ رہے تو یہ انسان زندگی میں گم راہی کے سوا کچھ بھی نہ پا سکے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ دل کو بھی درست، روشنی سے منور اور پاک و صاف رکھنا ہوگا جبھی یہ انسان دنیا کی زندگی اور آخرت کی دائمی زندگی میں کا م یابی کی دولت سے سرفراز ہوگا۔
دل کوکن چیزوں سے پاک وصاف رکھا جائے اس بارے میں اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں خوب واضح فرما دیا۔
امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں دل کی ان بیماریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور پھر سب سے پہلے دل کی بیماری یہ بتائی کہ دل کو حرص و لالچ سے پاک رکھنا چاہیے، کیوں کہ حرص و لالچ دل میں آجائے تو پھر انسان کو دو چیزوں کی طلب بہت زیادہ ہو جاتی ہے ایک مال اور دوسرا مرتبہ، جسے حبّ جاہ کا نام دیا گیا۔ جب یہ دو باتیں انسان کے دل کے اندر آجائیں تو پھر تکبر، ریاکاری، حسد، کینہ اور عداوت جیسی آفتیں دل میں جمع ہو جائیں گی، جو دین و دنیا تباہ کرنے والی ہیں۔
اس لیے دل کو ان تمام بیماریوں سے پاک کرنا لازمی ہے۔ دل میں تکبر پیدا ہُوا تو پھر دوسروں کے بارے میں دل میں حقارت آجائے گی اور اسی وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔ دل میں ریاکاری، دکھلاوا آگیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے چھوٹا شرک قرار دیا۔ حسد پیدا ہُوا تو فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
لہٰذا جب دل سے ان تمام بیماریوں کو صاف کر لیا جائے تو اس کے ساتھ ان خوبیوں سے دل کو آراستہ اور منور کیا جائے جس کی تعلیم اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو داغ دھل کر دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر گناہ کرتا رہے توبہ نہ کرے تو دل داغ پڑتے پڑتے سیاہ ہو جاتا ہے۔
اب ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گناہ تو بار بار انسان کرتا رہتا ہے تو پھر بار بار توبہ کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے جب انسان سے گناہ ہونا ہی ہے تو پھر توبہ کا کیا فائدہ ؟ جب بھی ذہن میں یہ خیال آئے تو سوچیے تو سہی انسان نئے اور صاف ستھرے کپڑے آج پہنے پھر جب میلے ہو جائیں گے تو انہی کپڑوں کو دھلوا کر پہن لیں گے پھر میلے ہوں گے تو پھر دھلوا لیں گے تو جب ان کپڑوں نے میلا ہونا ہی ہے تو پھر بار بار دھلوانے کی کیا ضرورت ہے، میلا ہونے دیا جائے۔ جب بالکل خراب ہو جائیں تو ضایع کر دیا جائے حالاں کہ کوئی سمجھ دار انسان ایسا نہیں کرتا۔
بالکل اسی طرح انسان کا دل اگر اﷲ کی نافرمانی کی وجہ سے میلا ہو جائے تو اسے بھی بار بار صاف کر لیا جائے ورنہ یہ دل بھی اگر اس قدر میلا ہوگیا تو پورے انسانی نظام کی خرابی کا سبب بن جائے گا اور توبہ کی توفیق جب ہوتی ہے جب کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر موجود ہو، پھر اس دل کے اندر صبر کی دولت ہو جس سے وہ دل پر آنے والی مصیبتوں کو بہ خوشی جھیل سکے اور جب نعمتوں سے زندگی آرام سے گزرنے لگے تو یہ انسان اب دل کے اندر شکر جیسی نعمت پیدا کرے۔
جب بھلائی کرنے لگے تو دل کے اندر خلوص کو خوب اچھی طرح سنبھال کر رکھے کہیں ریا کاری نہ آجائے، کہیں حقارت اور دل آزاری نہ آجائے اور جتنی نعمتیں ملیں ان پر قانع ہو۔ مزید نعمتوں کے لیے اﷲ پر توکل رکھتے ہوئے دن رات کوشش و محنت میں لگا رہے لیکن دل میں دنیا کی محبت اور حرص جگہ نہ بنا سکیں۔ اسلام دنیا سے دور رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے۔
انسان اور دنیا میں کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ امام غزالیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''احیاء العلوم'' میں بڑی خوب صورت مثال دی کہ دنیا اور انسان کا تعلق اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کشتی اور پانی کا تعلق، کشتی بغیر پانی کے بالکل بے کار ہے اس کی صلاحیت پانی کے بغیر ظاہر نہیں ہوسکتی اسی طرح انسان کی صلاحیتیں بھی بغیر دنیا کے بے کار ہیں البتہ ایک احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہونے پائے بس یہ کشتی پانی کے اوپر چلتی رہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منزل تک پہنچ جائے لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو یہ کشتی ڈوب جائے گی، فرمایا کہ اسی طرح انسان دنیا اور اس کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا رہے لیکن اس دنیا کو اپنے دل کے اندر نہ آنے دے اگر یہ دل کے اندر آگئی تو پھر فلاح و کام یابی کی منزل تک پہنچنا انسان کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دل کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے اور اس زنگ کا علاج تلاوت قرآن حکیم اور موت کا دھیان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ دل کو سکون اﷲ کی یاد ہی سے نصیب ہوتا ہے۔
آخر میںہم بھی وہی دعا زبان پر لاتے ہیں جو دل کی صفائی کے بارے میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی، مفہوم:
''اے اﷲ! میرے دل کو غلطیوں اور گناہوں سے ایسا صاف فرما دے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔''
ایک تو یہ دل ہے جس سے جسم کی زندگی اور موت کا تعلق ہے، دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں انسان کے باطن یعنی اس کے اندر کی حقیقت کا تعلق بھی دل ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست رہے تو تمام بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ فرمایا: وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے۔'' (بخاری و مسلم)
جب حق کو دیکھنے کے باوجود لوگوں نے اسے تسلیم نہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے سورۂ حج کی چھیالیسویں آیت میں فرمایا، مفہوم: ''بلاشبہ! ان لوگوں کی آنکھیں نہیں لیکن ان کے دل اندھے ہیں جو سینوں میں ہیں۔''
جس طرح ہماری روز مرہ کی زندگی میں آنکھوں سے دیکھنے کے لیے دو روشنیوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک آنکھ کی روشنی اور دوسری باہر کی روشنی' اگر نابینا ہو تو دن کی چمکتی دھوپ میں بھی نہیں دیکھ سکتا اور اگر آنکھیں تو صحیح سلامت ہوں لیکن باہر گہری تاریکی ہو تو بھی دیکھ نہیں سکے گا، بالکل اسی طرح انسان کے لیے معاشرے میں صحیح سوچ رکھنے، صحیح عمل کرنے اور درست زندگی گزارنے کے لیے بھی دو روشنیوں کی ضرورت ہے۔
ایک دل کی روشنی اور دوسری اسلامی تعلیمات کی روشنی۔ اگر ان میں سے ایک بھی روشنی نہ رہے تو یہ انسان زندگی میں گم راہی کے سوا کچھ بھی نہ پا سکے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ دل کو بھی درست، روشنی سے منور اور پاک و صاف رکھنا ہوگا جبھی یہ انسان دنیا کی زندگی اور آخرت کی دائمی زندگی میں کا م یابی کی دولت سے سرفراز ہوگا۔
دل کوکن چیزوں سے پاک وصاف رکھا جائے اس بارے میں اﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں خوب واضح فرما دیا۔
امام غزالیؒ نے اپنی کتاب اربعین میں دل کی ان بیماریوں کو ایک جگہ جمع کیا اور پھر سب سے پہلے دل کی بیماری یہ بتائی کہ دل کو حرص و لالچ سے پاک رکھنا چاہیے، کیوں کہ حرص و لالچ دل میں آجائے تو پھر انسان کو دو چیزوں کی طلب بہت زیادہ ہو جاتی ہے ایک مال اور دوسرا مرتبہ، جسے حبّ جاہ کا نام دیا گیا۔ جب یہ دو باتیں انسان کے دل کے اندر آجائیں تو پھر تکبر، ریاکاری، حسد، کینہ اور عداوت جیسی آفتیں دل میں جمع ہو جائیں گی، جو دین و دنیا تباہ کرنے والی ہیں۔
اس لیے دل کو ان تمام بیماریوں سے پاک کرنا لازمی ہے۔ دل میں تکبر پیدا ہُوا تو پھر دوسروں کے بارے میں دل میں حقارت آجائے گی اور اسی وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔ دل میں ریاکاری، دکھلاوا آگیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے چھوٹا شرک قرار دیا۔ حسد پیدا ہُوا تو فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
لہٰذا جب دل سے ان تمام بیماریوں کو صاف کر لیا جائے تو اس کے ساتھ ان خوبیوں سے دل کو آراستہ اور منور کیا جائے جس کی تعلیم اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو داغ دھل کر دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر گناہ کرتا رہے توبہ نہ کرے تو دل داغ پڑتے پڑتے سیاہ ہو جاتا ہے۔
اب ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ گناہ تو بار بار انسان کرتا رہتا ہے تو پھر بار بار توبہ کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے جب انسان سے گناہ ہونا ہی ہے تو پھر توبہ کا کیا فائدہ ؟ جب بھی ذہن میں یہ خیال آئے تو سوچیے تو سہی انسان نئے اور صاف ستھرے کپڑے آج پہنے پھر جب میلے ہو جائیں گے تو انہی کپڑوں کو دھلوا کر پہن لیں گے پھر میلے ہوں گے تو پھر دھلوا لیں گے تو جب ان کپڑوں نے میلا ہونا ہی ہے تو پھر بار بار دھلوانے کی کیا ضرورت ہے، میلا ہونے دیا جائے۔ جب بالکل خراب ہو جائیں تو ضایع کر دیا جائے حالاں کہ کوئی سمجھ دار انسان ایسا نہیں کرتا۔
بالکل اسی طرح انسان کا دل اگر اﷲ کی نافرمانی کی وجہ سے میلا ہو جائے تو اسے بھی بار بار صاف کر لیا جائے ورنہ یہ دل بھی اگر اس قدر میلا ہوگیا تو پورے انسانی نظام کی خرابی کا سبب بن جائے گا اور توبہ کی توفیق جب ہوتی ہے جب کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کا خوف اور ڈر موجود ہو، پھر اس دل کے اندر صبر کی دولت ہو جس سے وہ دل پر آنے والی مصیبتوں کو بہ خوشی جھیل سکے اور جب نعمتوں سے زندگی آرام سے گزرنے لگے تو یہ انسان اب دل کے اندر شکر جیسی نعمت پیدا کرے۔
جب بھلائی کرنے لگے تو دل کے اندر خلوص کو خوب اچھی طرح سنبھال کر رکھے کہیں ریا کاری نہ آجائے، کہیں حقارت اور دل آزاری نہ آجائے اور جتنی نعمتیں ملیں ان پر قانع ہو۔ مزید نعمتوں کے لیے اﷲ پر توکل رکھتے ہوئے دن رات کوشش و محنت میں لگا رہے لیکن دل میں دنیا کی محبت اور حرص جگہ نہ بنا سکیں۔ اسلام دنیا سے دور رہنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکلنے کی تعلیم دیتا ہے۔
انسان اور دنیا میں کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ امام غزالیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''احیاء العلوم'' میں بڑی خوب صورت مثال دی کہ دنیا اور انسان کا تعلق اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کشتی اور پانی کا تعلق، کشتی بغیر پانی کے بالکل بے کار ہے اس کی صلاحیت پانی کے بغیر ظاہر نہیں ہوسکتی اسی طرح انسان کی صلاحیتیں بھی بغیر دنیا کے بے کار ہیں البتہ ایک احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ پانی کشتی کے اندر نہ داخل ہونے پائے بس یہ کشتی پانی کے اوپر چلتی رہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منزل تک پہنچ جائے لیکن اگر وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو یہ کشتی ڈوب جائے گی، فرمایا کہ اسی طرح انسان دنیا اور اس کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا رہے لیکن اس دنیا کو اپنے دل کے اندر نہ آنے دے اگر یہ دل کے اندر آگئی تو پھر فلاح و کام یابی کی منزل تک پہنچنا انسان کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دل کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے اور اس زنگ کا علاج تلاوت قرآن حکیم اور موت کا دھیان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ دل کو سکون اﷲ کی یاد ہی سے نصیب ہوتا ہے۔
آخر میںہم بھی وہی دعا زبان پر لاتے ہیں جو دل کی صفائی کے بارے میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی، مفہوم:
''اے اﷲ! میرے دل کو غلطیوں اور گناہوں سے ایسا صاف فرما دے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔''