آنسوؤں سے چارج ہونے والی اسمارٹ کانٹیکٹ لینس بیٹری
حیاتی مطابقت رکھنے والے مواد سے بنائی گئی یہ بیٹری آنکھوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے
سنگاپور کے سائنس دانوں نے اسمارٹ کانٹیکٹ لینس کی ایک مہین بیٹری بنائی ہے جس کو آنسوؤں سے چارج کیا جاسکتا ہے۔
سِنگاپور کی نان یینگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی (این ٹی یو) کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ جامعہ کے محققین نے ایک انتہائی مہین بیٹری بنائی ہے جو اسمارٹ کانٹیکٹ لینسز کو توانائی دینے کے ساتھ آنسوؤں سے چارج بھی ہوسکتی ہے۔
کانٹیکٹ لینسز کو عرصہ دراز سے نظروں کی درستی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔اب ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ متعدد کمپنیاں اسمارٹ فون اور اسمارٹ ٹیلی ویژن کی طرح لینسز کو بھی اسمارٹ طرز کا بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ پہننے والا معلومات کو نظروں سے قریب تر رکھ سکے اور اس کے لیے لینسز کے اندر بیٹری کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
این ٹی یو کے اسسٹنٹ پروفیسر اور تحقیق کے سربراہ لی سیوک وُو نے ایک بیٹری بنائی ہے جس میں کوئی دھات استعمال نہیں ہوئی ہے۔اس سے قبل بنائی گئی بیٹریوں میں انڈکشن کوائل اور دھات کے تار موجود تھے جو اپنے اندر آنکھوں کو نقصان پہنچانے کا خطرہ رکھتے تھے۔
یہ بیٹری حیاتی مطابقت رکھنے والے مٹیریل سے بنائی گئی ہے اور اس پر گلوکوز پر مبنی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ یہ تہہ بیٹری کے اندر موجود پانی میں سوڈیم اور کلورائیڈ آئنز سے مل کر ردِ عمل کر سکتی ہے، جو بجلی بننے کے سرکٹ کے طور پر کام کرے گی۔
چونکہ سوڈیم اور کلورائیڈ آئنز آنسوؤں میں بھی ہوتے ہیں اس لیے ان لینسز کو پہن کر عملی طور پر چارج بھی کیا جاسکتا ہے۔
بیٹری کے انتہائی باریک ہونے کی وجہ سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس میں کتنی بجلی جمع کی جاسکتی ہے اور کتنے عرصے تک اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ محققین نے اپنی ایجاد کو آزمانے کے لیے اس کو ایک آنکھ کے ماڈل پر استعمال کیا۔
تجربے میں دیکھا گیا کہ یہ بیٹر 45 مائیکرو ایمپیئرز کا کرنٹ اور 201 مائیکرو واٹ کی زیادہ سے زیادہ توانائی پیدا کر سکتی ہے۔ توانائی کی یہ مقدار اس ڈیوائس کو دن کا زیادہ تر حصہ چلانے کے لیے کافی ہوگی۔
سِنگاپور کی نان یینگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی (این ٹی یو) کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ جامعہ کے محققین نے ایک انتہائی مہین بیٹری بنائی ہے جو اسمارٹ کانٹیکٹ لینسز کو توانائی دینے کے ساتھ آنسوؤں سے چارج بھی ہوسکتی ہے۔
کانٹیکٹ لینسز کو عرصہ دراز سے نظروں کی درستی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔اب ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ متعدد کمپنیاں اسمارٹ فون اور اسمارٹ ٹیلی ویژن کی طرح لینسز کو بھی اسمارٹ طرز کا بنانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ پہننے والا معلومات کو نظروں سے قریب تر رکھ سکے اور اس کے لیے لینسز کے اندر بیٹری کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
این ٹی یو کے اسسٹنٹ پروفیسر اور تحقیق کے سربراہ لی سیوک وُو نے ایک بیٹری بنائی ہے جس میں کوئی دھات استعمال نہیں ہوئی ہے۔اس سے قبل بنائی گئی بیٹریوں میں انڈکشن کوائل اور دھات کے تار موجود تھے جو اپنے اندر آنکھوں کو نقصان پہنچانے کا خطرہ رکھتے تھے۔
یہ بیٹری حیاتی مطابقت رکھنے والے مٹیریل سے بنائی گئی ہے اور اس پر گلوکوز پر مبنی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ یہ تہہ بیٹری کے اندر موجود پانی میں سوڈیم اور کلورائیڈ آئنز سے مل کر ردِ عمل کر سکتی ہے، جو بجلی بننے کے سرکٹ کے طور پر کام کرے گی۔
چونکہ سوڈیم اور کلورائیڈ آئنز آنسوؤں میں بھی ہوتے ہیں اس لیے ان لینسز کو پہن کر عملی طور پر چارج بھی کیا جاسکتا ہے۔
بیٹری کے انتہائی باریک ہونے کی وجہ سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس میں کتنی بجلی جمع کی جاسکتی ہے اور کتنے عرصے تک اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ محققین نے اپنی ایجاد کو آزمانے کے لیے اس کو ایک آنکھ کے ماڈل پر استعمال کیا۔
تجربے میں دیکھا گیا کہ یہ بیٹر 45 مائیکرو ایمپیئرز کا کرنٹ اور 201 مائیکرو واٹ کی زیادہ سے زیادہ توانائی پیدا کر سکتی ہے۔ توانائی کی یہ مقدار اس ڈیوائس کو دن کا زیادہ تر حصہ چلانے کے لیے کافی ہوگی۔