نگراں حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز
ماضی کی غلطیاں ملک کو پہلے ہی سنگین معاشی بحران کی طرف لے چکی ہیں
غیرملکی ایئرلائنز اور مختلف شعبوں کی کثیر القومی کمپنیوں کے ڈیوڈینڈز کی مد میں بیرونی ادائیگیاں شروع ہونے کے باعث اوپن مارکیٹ میں ڈالر 314 روپے اور انٹر بینک میں تین سو روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔
دوسری جانب نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں ڈالر کی بڑھتی قیمت اور ملک سے ڈالرز کی بیرون ملک اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے لائحہ عمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
آسمان سے چھوتی مہنگائی، گرتی ہوئی کرنسی، ڈالر کی اڑان، زرمبادلہ کی کمی، بیروزگاری، قرض اور سود کی ادائیگی، بلند شرح سود نگران حکومت کو وراثت میں ملی ہے۔
ان حالات میں وطن عزیز کی معیشت مزید بحران میں چلی جائے گی یا بحران سے نکل پائے گی؟ یہی اہم ترین سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرنی چاہیے، کیونکہ تاریخ میں پہلی بار الیکشن ایکٹ 2023ء کی شق 230 میں ترامیم کے ذریعے نگراں حکومت کو ملکی معاشی مفاد اور اہم فیصلوں کا اختیار حاصل ہوچکا ہے۔
نگراں حکومت دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے معاہدے کرسکے گی، لہٰذا یہ کہنا کہ نگران حکومت صرف الیکشن کروانے آئی ہے اور اپنا وقت گزار کر چلی جائے گی، قطعی غلط ہے، یہ ایک بااختیار نگران حکومت ہے جسے سابقہ حکومت نے رخصت ہونے سے قبل اختیارات آئین میں ترامیم کے ذریعے دیے ہیں، یوں نگران خود کو معاشی صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔
ڈالر کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ماضی میں بھی ایف آئی اے کارروائیاں کرتا رہا ہے جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالرز کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال میں ایکسپورٹ کی کمی اور بیرون ممالک سے ملک میں پیسے کم آنے کی وجہ سے ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جن سخت شرائط پر قرض لیا ہے اس کے اثرات مارکیٹ پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار زیادہ ہیں اور فروخت کرنے والے کم ہیں۔ ایل سیز کے لیے امپورٹرز مارکیٹ میں ڈالر تلاش کر رہے ہیں ایسے میں مارکیٹ فعال ہوگئی ہے۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے منہ مانگے ڈالر وصول کررہے ہیں۔ ڈالر میں اضافے کے اثرات ہر شعبے میں نظر آئیں گے۔
پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد عوام کے لیے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اشیائے خورونوش سمیت دیگر اشیاء باہر سے درآمد کی جاتی ہیں اور ڈالر میں اضافے کے ساتھ ہی ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ عوام براہِ راست متاثر ہوں گے۔
مہنگے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے والے شہریوں کو اب بچوں کے دودھ سے لے کر ہر شے پر اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستان میں 10کروڑ سے زائد لوگ سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں 3کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کرپشن ہر آئے دن بڑھ رہی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں معاشی نمو محض 0.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ سال کی شرح 6 فیصد سے کم ہے۔ مزید برآں، پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب نے کم از کم 40 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دی تھیں، جس نے بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 8.15 بلین ڈالر ہیں۔ اپنی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کے ساتھ تین سو روپے فی ڈالر تک گر گئی ہے، پاکستان کو غیر ملکی قرض ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ جنوری 2026 تک، چین جیسے دوست ممالک, عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا تقریباً 80 بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے ڈالر بچت پالیسی کے تحت صنعتی خام مال کی درآمد میں رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔ صنعتوں کے پاس خام مال نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صنعتوں میں کام مکمل بند ہوگیا ہے جب کہ بعض میں کام جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موبائل فون کی صنعت مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔
یہ صنعت سال 2018ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے 30 کے 30 یونٹس بند ہیں۔ پاکستان میں بنے موبائل کی مارکیٹ افریقی اور کم آمدنی والے ملک ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کئی کمپنیوں کے یونٹس مکمل بند ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت بھی 50 فیصد بندش کا عندیہ دے رہی ہے۔
پاکستان نے گزشتہ 30 سال سے قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس سے مجموعی بیرونی اور اندرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7 برسوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق حکومت نے ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34 فیصد قرضہ لیا، ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں سے مالیاتی اداروں کا حصہ 42 فیصد ہے اور مختلف ممالک سے قرض تقریباً 38 فیصد ہے۔
پاکستان کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک توانائی کا دائمی بحران ہے۔ بجلی کی مسلسل بندش اور لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ کافی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی، پرانی ٹیکنالوجیز کے ساتھ، توانائی کی ناقابل اعتماد فراہمی کا نتیجہ ہے، جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگاری معاشی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی نوجوان ملازمت کے متلاشیوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے معاشی استحکام کو متاثر کیا ہے۔
بجٹ کا ایک اہم حصہ قرض کی خدمت کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔
عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے اس چیلنج کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولیات سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بشمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع جیسے شمسی اور ہوا۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائیدار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
جامع تعلیمی اصلاحات، پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں اور صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داریوں کو نافذ کرنے سے افرادی قوت کو مسابقتی جاب مارکیٹ میں ترقی کے لیے درکار مہارتوں سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ مالیاتی خسارے اور عوامی قرضوں کے انتظام کے لیے حکومت کو مالی ذمے داری اور شفافیت پر توجہ دینی چاہیے۔
ٹیکس جمع کرنے کے موثر طریقہ کار کو نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے نگران حکومت کو بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔
موجودہ حالات میں بننے والی نگران حکومت کو ماضی کی طرح کام نہیں کرنا ہے، نگران حکومت کے وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ ذمے داریاں اپنے اندر یہ احساس بھی رکھتی ہیں کہ نگرانوں کو تنخواہیں اور مراعات عوام کے ٹیکسوں کی مد میں سے دیے جا رہے ہیں۔
ماضی کی غلطیاں ملک کو پہلے ہی سنگین معاشی بحران کی طرف لے چکی ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو قومی معیشت کی قیمت پر ایسی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان کو اقتصادی ترقی میں دوسرے ممالک کی تقلید کرنی چاہیے۔ مقامی صنعتوں اور قومی معیشت کی ترقی کے لیے مواقعے پیدا کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کو کاروبار کرنے کی لاگت کم کرنی ہو گی۔ خام مال کی درآمد اور شرح سود کو کم کرنا ہو گا، شرح سود میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی صنعت باقی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز پیچیدہ اورگہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں، جن کے موثر حل کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ توانائی کے بحران، بے روزگاری، مالیاتی خسارے، سیاسی استحکام اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے مسائل سے نمٹنے کے ذریعے، پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو کھول سکتا ہے۔
تاہم، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ درست حکمت عملی اور اصلاحات کے عزم کے ساتھ، پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پا سکتا ہے۔
دوسری جانب نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی زیرصدارت ہونے والے ایک اجلاس میں ڈالر کی بڑھتی قیمت اور ملک سے ڈالرز کی بیرون ملک اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے لائحہ عمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
آسمان سے چھوتی مہنگائی، گرتی ہوئی کرنسی، ڈالر کی اڑان، زرمبادلہ کی کمی، بیروزگاری، قرض اور سود کی ادائیگی، بلند شرح سود نگران حکومت کو وراثت میں ملی ہے۔
ان حالات میں وطن عزیز کی معیشت مزید بحران میں چلی جائے گی یا بحران سے نکل پائے گی؟ یہی اہم ترین سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرنی چاہیے، کیونکہ تاریخ میں پہلی بار الیکشن ایکٹ 2023ء کی شق 230 میں ترامیم کے ذریعے نگراں حکومت کو ملکی معاشی مفاد اور اہم فیصلوں کا اختیار حاصل ہوچکا ہے۔
نگراں حکومت دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے معاہدے کرسکے گی، لہٰذا یہ کہنا کہ نگران حکومت صرف الیکشن کروانے آئی ہے اور اپنا وقت گزار کر چلی جائے گی، قطعی غلط ہے، یہ ایک بااختیار نگران حکومت ہے جسے سابقہ حکومت نے رخصت ہونے سے قبل اختیارات آئین میں ترامیم کے ذریعے دیے ہیں، یوں نگران خود کو معاشی صورتحال سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔
ڈالر کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ماضی میں بھی ایف آئی اے کارروائیاں کرتا رہا ہے جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا اور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالرز کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال میں ایکسپورٹ کی کمی اور بیرون ممالک سے ملک میں پیسے کم آنے کی وجہ سے ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جن سخت شرائط پر قرض لیا ہے اس کے اثرات مارکیٹ پر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار زیادہ ہیں اور فروخت کرنے والے کم ہیں۔ ایل سیز کے لیے امپورٹرز مارکیٹ میں ڈالر تلاش کر رہے ہیں ایسے میں مارکیٹ فعال ہوگئی ہے۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے منہ مانگے ڈالر وصول کررہے ہیں۔ ڈالر میں اضافے کے اثرات ہر شعبے میں نظر آئیں گے۔
پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد عوام کے لیے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اشیائے خورونوش سمیت دیگر اشیاء باہر سے درآمد کی جاتی ہیں اور ڈالر میں اضافے کے ساتھ ہی ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ عوام براہِ راست متاثر ہوں گے۔
مہنگے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے والے شہریوں کو اب بچوں کے دودھ سے لے کر ہر شے پر اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ پاکستان میں 10کروڑ سے زائد لوگ سطح غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں 3کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، کرپشن ہر آئے دن بڑھ رہی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں معاشی نمو محض 0.5 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ سال کی شرح 6 فیصد سے کم ہے۔ مزید برآں، پچھلے سال کے تباہ کن سیلاب نے کم از کم 40 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دی تھیں، جس نے بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا۔
پاکستان کے موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 8.15 بلین ڈالر ہیں۔ اپنی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کے ساتھ تین سو روپے فی ڈالر تک گر گئی ہے، پاکستان کو غیر ملکی قرض ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ جنوری 2026 تک، چین جیسے دوست ممالک, عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کا تقریباً 80 بلین ڈالر قرض ادا کرنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے ڈالر بچت پالیسی کے تحت صنعتی خام مال کی درآمد میں رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔ صنعتوں کے پاس خام مال نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صنعتوں میں کام مکمل بند ہوگیا ہے جب کہ بعض میں کام جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موبائل فون کی صنعت مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔
یہ صنعت سال 2018ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے 30 کے 30 یونٹس بند ہیں۔ پاکستان میں بنے موبائل کی مارکیٹ افریقی اور کم آمدنی والے ملک ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کئی کمپنیوں کے یونٹس مکمل بند ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت بھی 50 فیصد بندش کا عندیہ دے رہی ہے۔
پاکستان نے گزشتہ 30 سال سے قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس سے مجموعی بیرونی اور اندرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7 برسوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق حکومت نے ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34 فیصد قرضہ لیا، ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں سے مالیاتی اداروں کا حصہ 42 فیصد ہے اور مختلف ممالک سے قرض تقریباً 38 فیصد ہے۔
پاکستان کو درپیش سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک توانائی کا دائمی بحران ہے۔ بجلی کی مسلسل بندش اور لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ کافی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی، پرانی ٹیکنالوجیز کے ساتھ، توانائی کی ناقابل اعتماد فراہمی کا نتیجہ ہے، جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگاری معاشی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی نوجوان ملازمت کے متلاشیوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے معاشی استحکام کو متاثر کیا ہے۔
بجٹ کا ایک اہم حصہ قرض کی خدمت کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔
عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے اس چیلنج کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولیات سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بشمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع جیسے شمسی اور ہوا۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائیدار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
جامع تعلیمی اصلاحات، پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں اور صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے درمیان شراکت داریوں کو نافذ کرنے سے افرادی قوت کو مسابقتی جاب مارکیٹ میں ترقی کے لیے درکار مہارتوں سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ مالیاتی خسارے اور عوامی قرضوں کے انتظام کے لیے حکومت کو مالی ذمے داری اور شفافیت پر توجہ دینی چاہیے۔
ٹیکس جمع کرنے کے موثر طریقہ کار کو نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے نگران حکومت کو بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔
موجودہ حالات میں بننے والی نگران حکومت کو ماضی کی طرح کام نہیں کرنا ہے، نگران حکومت کے وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ ذمے داریاں اپنے اندر یہ احساس بھی رکھتی ہیں کہ نگرانوں کو تنخواہیں اور مراعات عوام کے ٹیکسوں کی مد میں سے دیے جا رہے ہیں۔
ماضی کی غلطیاں ملک کو پہلے ہی سنگین معاشی بحران کی طرف لے چکی ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو قومی معیشت کی قیمت پر ایسی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان کو اقتصادی ترقی میں دوسرے ممالک کی تقلید کرنی چاہیے۔ مقامی صنعتوں اور قومی معیشت کی ترقی کے لیے مواقعے پیدا کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کو کاروبار کرنے کی لاگت کم کرنی ہو گی۔ خام مال کی درآمد اور شرح سود کو کم کرنا ہو گا، شرح سود میں اضافے کی وجہ سے پاکستانی صنعت باقی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز پیچیدہ اورگہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں، جن کے موثر حل کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ توانائی کے بحران، بے روزگاری، مالیاتی خسارے، سیاسی استحکام اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے مسائل سے نمٹنے کے ذریعے، پاکستان اقتصادی ترقی کے لیے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو کھول سکتا ہے۔
تاہم، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ درست حکمت عملی اور اصلاحات کے عزم کے ساتھ، پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پا سکتا ہے۔