بٹگرام کا پیغام
بیرونی دنیا کے میڈیا حقائق کی تصویر پیش کرکے ملکی میڈیا کی جگ ہنسائی کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے
ملکی قیام کے 75 برس بعد بٹ گرام کے طالب علم بچوں اور تعلیم سے اپنی نسل کو بہرہ مند کرنے والے والدین سمیت علاقے کے عوام کا حکومت سے یہ مطالبہ تو حق بجانب ہے کہ بٹگرام واقعہ کے بعد یہاں کے باسیوں کے لیے سڑکیں اور راستے اور دہلیز پر اسکول بنائے جائیں تاکہ ملک کے دور افتادہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کے بچے تعلیم اور بہتر زندگی کی سہولیات لے سکیں جو کہ ان علاقوں کے عوام کا بنیادی آئینی حق ہے۔
بٹگرام کے عوام کے اس مطالبے کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی مثبت جواب دینے اور بنیادی سہولیات سے محروم ان علاقوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کا کوئی مثبت جواب تو نہ دیا گیا البتہ ملک کے بوسیدہ اور غیر ترقیاتی نظام زندگی کی بہتری یا سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانیوں کے مقابل وزیراعظم ہاؤس میں بٹگرام میں معصوم طالبعلم اور استاد کی زندگی کو بچانے والوں کے لیے تعریفی سند دینے کا ضرور انتظام کر لیا گیا، اب اس بے جا اور بے مصرف تقریب کے لیے کتنے لاکھ کے بل وزارت خزانہ کو دینے پڑیں گے، یہ ایک الگ اور بحث طلب سوال ہے۔
سوچتا ہوں کہ '' بٹگرام'' کے مقامیوں نے تو اپنے پیاروں کا دکھ سمجھ کر اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ''چیئر لفٹ'' میں موت و زندگی کی کشمکش میں پھنسے ہوئے اپنے پیاروں کو بچا لیا، مگر میں اپنے سندھ کے ان افراد کو قتل ہونے یا ان پر تشدد کرنے والے مقامی با اثر افراد سے کیسے بچائوں جن کو مسلسل با اثر افراد سفاکانہ انداز سے قتل کر رہے ہیں اور ہماری ریاست کے ادارے ان با اثر افراد کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، سندھ کے مقامی عوام ان کرداروں اور افراد سے کب تک اپنا حق نہیں لیں گے، جو سندھ کے بیٹے اور بیٹیوں کے لیے قہر اور سفاک قاتل کا کردار ادا کر رہے ہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔
ہمارے سندھی سماج اور ملک کے دیگر حصوں کے غیر سیاسی افراد اب تک نام نہاد پیروں کی دعائوں کے کرم سے وابستہ ہوکر کس قدر معصوم اور سادہ لوح ہیں کہ ان کو سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے بہیمانہ قتل میں ملوث صحافی نما لینڈ مافیا افراد نظر نہیں آتے، اور جان محمد مہر کے خاندان کے وہ دکھ درد اور وہ حقائق نظر نہیں آتے جن کا پردہ چاک کرنے میں سندھ کا بے باک اور نڈر صحافی نصیر گوپانگ پیش پیش رہا اور اب تک جان محمد کے اصل محرکات کی کھوجنا میں جتا ہوا ہے۔
میرے سندھ کے سادہ لوح مقامی عوام کو غلامانہ زندگی میں رکھنے والے وہ پیرِ وڈیرے اور عوام دشمن دولت مند جو زمینوں پر قبضے کی بنیاد پر صحافت کے پردے میں ''غیر مقامی'' افراد کیوں نظر آتے ہیں، جو میرے سندھ کے مقامیوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں، میرے سندھ کے مقامی عوام کے پاس رانی پور کے پیر کی ہوس پرست اور پر تشدد کارروائی کے بعد کمسن فاطمہ کے ظالمانہ قتل کے بعد اب تک اداروں کی '' بیوقوف'' بنانے والی ادائوں کو کھوجنے کا وقت کیوں نہیں ہے، بلکہ سندھ کے سادہ لوح عوام اداروں کی عوام دشمن بہلانے والی پالیسیوں پر یقین کرکے امید کے سہارے اپنی پسماندہ اور بے سہولت زندگی میں مگن ان بہیمانہ اقدامات سے بے پرواہ زندگی گزارنے پر کیوں مجبور کیے جا رہے ہیں، میرے سندھ کے عوامی حقوق پر نام نہاد پیر، وڈیرہ اور قبضہ مافیا سندھ کے سیاسی اور سماجی شعور کا مسلسل طمانچہ کیوں بنتا جا رہا ہے۔
کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ میرے سندھ کے وسائل اور اپنے حق سے محروم عوام اپنی نسلوں کی ذہنی اور تعلیمی اپاہجگی سے چھٹکارے کے لیے سیاسی اور سماجی شعور کی سوشلسٹ فکر اپنائیں اور اس ظلم سے نجات پائیں؟
سندھ میں ظلم و بربریت پر انگریزی اخبار کے صحافی امداد سومرو کی یہ رپورٹ حیران کن ہے کہ سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے قتل کے پس پردہ جو قوتیں تھیں انھی قوتوں کی خدمات اب معصوم فاطمہ کے قاتل رانی پور کے پیر اسد شاہ کو بچانے کے خاطر لی جا رہی ہیں، جن کے سوشل میڈیا کے جعلی ٹرولر سکھر پولیس کے ڈی آئی جی جاوید جسکانی پر سوشل میڈیا کے ذریعے من گھڑت الزام لگا کر فاطمہ فریرو کے بہیمانہ قتل میں ملوث ملزم پیر کو بچانا چاہتے ہیں، رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے کہا کہ ان پر اسد شاہ سے رقم مانگنے کے الزامات دراصل فاطمہ کے اصل قاتل کو بچا کر منصفانہ تحقیقات کے راستے کو روکنا ہے۔
ڈی آئی جی کے مطابق سوشل میڈیا پر چلائی جانے والا گمراہ کن پروپیگنڈے کے پیچھے چند وہ حضرات ہیں جنھوں نے صحافت کا چولا پہن رکھا ہے، پولیس نے خلیفہ سمیت مزید چالیس افراد کے خلاف من گھڑت اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسد شاہ کے خلیفہ کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ دیگر افراد جلد پولیس کی تحویل میں ہونگے، ڈی آئی جی سکھر نے یقین دلایا کہ فاطمہ کیس کو شفاف بنانے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی ہے جو تحقیقات کرکے اصل حقائق عوام کے سامنے لائے گی۔ سندھ میں صحافی جان محمد مہر اور کمسن فاطمہ فریرو کے قتل کے حقائق سامنے نہیں لائے جا رہے۔
حقائق کی دنیا سے بے خبر اپنی ذہنی پسماندگی ظاہر کرتے رہتے ہیں، جب کہ بیرونی دنیا کے میڈیا حقائق کی تصویر پیش کرکے ملکی میڈیا کی جگ ہنسائی کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
بٹگرام کے رہنے والے چیخ چیخ کر پیغام دے رہے ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن اور ملکی خزانے سے تقریبات منعقد کرنے سے زیادہ بٹگرام کے بچوں کی تعلیم اور بہتر زندگی کی خواہش کو سیاسی نعروں یا وطن کی محبت میں دان پر نہ لگائیں بلکہ ملک کے ہر اس علاقے کو اسکول، روڈ ، راستے اور ذرایع آمدورفت کی سہولیات اور سستا انصاف دیں، جن کو اقتدار کے طاقتور طبقات مسلسل پچھتر سال سے ڈکار رہے ہیں۔
بٹگرام کے عوام کے اس مطالبے کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی مثبت جواب دینے اور بنیادی سہولیات سے محروم ان علاقوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کا کوئی مثبت جواب تو نہ دیا گیا البتہ ملک کے بوسیدہ اور غیر ترقیاتی نظام زندگی کی بہتری یا سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانیوں کے مقابل وزیراعظم ہاؤس میں بٹگرام میں معصوم طالبعلم اور استاد کی زندگی کو بچانے والوں کے لیے تعریفی سند دینے کا ضرور انتظام کر لیا گیا، اب اس بے جا اور بے مصرف تقریب کے لیے کتنے لاکھ کے بل وزارت خزانہ کو دینے پڑیں گے، یہ ایک الگ اور بحث طلب سوال ہے۔
سوچتا ہوں کہ '' بٹگرام'' کے مقامیوں نے تو اپنے پیاروں کا دکھ سمجھ کر اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ''چیئر لفٹ'' میں موت و زندگی کی کشمکش میں پھنسے ہوئے اپنے پیاروں کو بچا لیا، مگر میں اپنے سندھ کے ان افراد کو قتل ہونے یا ان پر تشدد کرنے والے مقامی با اثر افراد سے کیسے بچائوں جن کو مسلسل با اثر افراد سفاکانہ انداز سے قتل کر رہے ہیں اور ہماری ریاست کے ادارے ان با اثر افراد کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، سندھ کے مقامی عوام ان کرداروں اور افراد سے کب تک اپنا حق نہیں لیں گے، جو سندھ کے بیٹے اور بیٹیوں کے لیے قہر اور سفاک قاتل کا کردار ادا کر رہے ہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔
ہمارے سندھی سماج اور ملک کے دیگر حصوں کے غیر سیاسی افراد اب تک نام نہاد پیروں کی دعائوں کے کرم سے وابستہ ہوکر کس قدر معصوم اور سادہ لوح ہیں کہ ان کو سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے بہیمانہ قتل میں ملوث صحافی نما لینڈ مافیا افراد نظر نہیں آتے، اور جان محمد مہر کے خاندان کے وہ دکھ درد اور وہ حقائق نظر نہیں آتے جن کا پردہ چاک کرنے میں سندھ کا بے باک اور نڈر صحافی نصیر گوپانگ پیش پیش رہا اور اب تک جان محمد کے اصل محرکات کی کھوجنا میں جتا ہوا ہے۔
میرے سندھ کے سادہ لوح مقامی عوام کو غلامانہ زندگی میں رکھنے والے وہ پیرِ وڈیرے اور عوام دشمن دولت مند جو زمینوں پر قبضے کی بنیاد پر صحافت کے پردے میں ''غیر مقامی'' افراد کیوں نظر آتے ہیں، جو میرے سندھ کے مقامیوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں، میرے سندھ کے مقامی عوام کے پاس رانی پور کے پیر کی ہوس پرست اور پر تشدد کارروائی کے بعد کمسن فاطمہ کے ظالمانہ قتل کے بعد اب تک اداروں کی '' بیوقوف'' بنانے والی ادائوں کو کھوجنے کا وقت کیوں نہیں ہے، بلکہ سندھ کے سادہ لوح عوام اداروں کی عوام دشمن بہلانے والی پالیسیوں پر یقین کرکے امید کے سہارے اپنی پسماندہ اور بے سہولت زندگی میں مگن ان بہیمانہ اقدامات سے بے پرواہ زندگی گزارنے پر کیوں مجبور کیے جا رہے ہیں، میرے سندھ کے عوامی حقوق پر نام نہاد پیر، وڈیرہ اور قبضہ مافیا سندھ کے سیاسی اور سماجی شعور کا مسلسل طمانچہ کیوں بنتا جا رہا ہے۔
کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ میرے سندھ کے وسائل اور اپنے حق سے محروم عوام اپنی نسلوں کی ذہنی اور تعلیمی اپاہجگی سے چھٹکارے کے لیے سیاسی اور سماجی شعور کی سوشلسٹ فکر اپنائیں اور اس ظلم سے نجات پائیں؟
سندھ میں ظلم و بربریت پر انگریزی اخبار کے صحافی امداد سومرو کی یہ رپورٹ حیران کن ہے کہ سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے قتل کے پس پردہ جو قوتیں تھیں انھی قوتوں کی خدمات اب معصوم فاطمہ کے قاتل رانی پور کے پیر اسد شاہ کو بچانے کے خاطر لی جا رہی ہیں، جن کے سوشل میڈیا کے جعلی ٹرولر سکھر پولیس کے ڈی آئی جی جاوید جسکانی پر سوشل میڈیا کے ذریعے من گھڑت الزام لگا کر فاطمہ فریرو کے بہیمانہ قتل میں ملوث ملزم پیر کو بچانا چاہتے ہیں، رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی نے کہا کہ ان پر اسد شاہ سے رقم مانگنے کے الزامات دراصل فاطمہ کے اصل قاتل کو بچا کر منصفانہ تحقیقات کے راستے کو روکنا ہے۔
ڈی آئی جی کے مطابق سوشل میڈیا پر چلائی جانے والا گمراہ کن پروپیگنڈے کے پیچھے چند وہ حضرات ہیں جنھوں نے صحافت کا چولا پہن رکھا ہے، پولیس نے خلیفہ سمیت مزید چالیس افراد کے خلاف من گھڑت اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسد شاہ کے خلیفہ کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ دیگر افراد جلد پولیس کی تحویل میں ہونگے، ڈی آئی جی سکھر نے یقین دلایا کہ فاطمہ کیس کو شفاف بنانے کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی ہے جو تحقیقات کرکے اصل حقائق عوام کے سامنے لائے گی۔ سندھ میں صحافی جان محمد مہر اور کمسن فاطمہ فریرو کے قتل کے حقائق سامنے نہیں لائے جا رہے۔
حقائق کی دنیا سے بے خبر اپنی ذہنی پسماندگی ظاہر کرتے رہتے ہیں، جب کہ بیرونی دنیا کے میڈیا حقائق کی تصویر پیش کرکے ملکی میڈیا کی جگ ہنسائی کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
بٹگرام کے رہنے والے چیخ چیخ کر پیغام دے رہے ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن اور ملکی خزانے سے تقریبات منعقد کرنے سے زیادہ بٹگرام کے بچوں کی تعلیم اور بہتر زندگی کی خواہش کو سیاسی نعروں یا وطن کی محبت میں دان پر نہ لگائیں بلکہ ملک کے ہر اس علاقے کو اسکول، روڈ ، راستے اور ذرایع آمدورفت کی سہولیات اور سستا انصاف دیں، جن کو اقتدار کے طاقتور طبقات مسلسل پچھتر سال سے ڈکار رہے ہیں۔