وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل
بے شک سیرت پاکؐ کو لکھنا اس قدر آساں ہرگز نہیں ہے، بڑی احتیاط، توجہ اور وسیع مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے
'' پیغمبر اسلام ﷺ '' کے عنوان سے چند ماہ قبل اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے، اس کے مولف محمد عبدالقیوم ہیں، یہ ان کی خوش بختی ہے کہ انھیں اللہ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی حیات طیبہ پر لکھنے کا موقع فراہم کیا۔
عبدالقیوم نے اللہ کے حبیب احمد مجتبیٰ ﷺ ، خاتم النبین، رحمت اللعالمین کی زندگی اور زندگی میں آنے والے واقعات کو بے حد محبت اور عقیدت سے قلم بلند کیا ہے، ان کا علم تعظیم کے ساتھ صفحہ قرطاس کو بوسے دیتا ہے، نتیجے میں معطر لفظوں کا ذخیرہ دمکتے ہوئے نگینوں کی شکل میں نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے اورکتاب کے اوراق نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔
اسلام کی حقانیت اور آپؐ کا عفو و درگزر، ایثار کی مثالیں سامنے آجاتی ہیں۔بے شک سیرت پاکؐ کو لکھنا اس قدر آساں ہرگز نہیں ہے، بڑی احتیاط، توجہ اور وسیع مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مولف میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور حب رسولؐ کی روشنی ان کے دل و دماغ میں تازگی بخشنے کا سبب ہے، رسول پاکؐ بے پناہ محبت و عاشقی 700 صفحات لکھنے کی وجہ خاص بنی۔اظہار تشکر کے عنوان سے محمد عبدالقیوم نے اپنے قلمی معاونین کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ابتدا میں پروفیسر خیال آفاقی کا شکریہ ادا کیا ہے اور اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پروفیسر خیال آفاقی عصر حاضر کے مایہ ناز ادیب اور عظیم سیرت نگار ہونے کے ساتھ بے حد شفیق اور پرخلوص شخصیت ہیں اس کے ساتھ ہی جناب ڈاکٹر حافظ منشا طیب کو اپنا محسن قرار دیتے ہوئے ان کی کتاب کے سلسلے میں رہنمائی اور تعاون کو سراہا ہے، پروفیسر ڈاکٹر رفاقت شاہد کے بھی ممنون ہیں کہ انھوں نے مضامین کی اصلاح کا فریضہ انجام دے کر کتاب کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔
الحمدللہ سیرت پاکؐ کے حوالے سے کچھ کتابیں میرے بھی مطالعے میں رہیں لیکن مذکورہ کتاب جیسا حسن و جمال، زیور طباعت سے آراستہ، کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک، نفیس کاغذ اور دھنک رنگوں سے مرصع تحریر و سرورق میری نگاہ سے نہیں گزری۔ مولف کی اپنے آقا، سرور کونینؐ سے محبت و احساس کے رنگوں سے رنگی ہوئی یہ ضخیم کتاب قاری کے لیے دلکشی اور توجہ کا باعث ہے۔
آغاز رسول پاکؐ کے مبارک و طیب والدین سے کیا گیا ہے، اس قدر دل نشیں انداز میں تعارف اور سیرت و کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مکمل معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔اس کتاب کے ابتدائی صفحات علامہ اقبال کے اشعار سے جگ مگ کر رہے ہیں اور قلب و نظر میں ایمان کی حرارت کو گرمانے کا باعث ہیں۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ
٭......٭
اصالتِ کل' امامتِ کل' سیادتِ کل' امارتِ کل
حکومتِ کل' ولایت کل' خدا کے یہاں تمہارے لیے
صبا وہ چلے کہ باغ پھلے' وہ پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے
لوا کے تلے ثنا میں کھلے' رضا کی زباں تمہارے لیے
یہ شمس و قمر' یہ شام و سحر' یہ برگ و شجر' یہ باغ و ثمر
یہ تیغ و سپر' یہ تاج و کمر' یہ حکم رواں تمہارے لیے
عطائے رب' جلائے کرب' فیوضِ عجب' بغیر طلب
یہ رحمتِ رب' کس کے سبب' یہ رب جہاں تمہارے لیے
.........
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
حضرت محمد ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ جلیل القدر سردار عبدالمطلب کے دس بیٹوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، باوقار، فضیلت و بزرگی کے آئینہ دار، اور پاکیزگی و اعلیٰ کردار میں اپنی مثال آپ تھے۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنی منت کے مطابق انھیں اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا تو قریش مکہ کے سرداروں نے تشویش کا اظہار کیا، گھر والے بھی پریشان تھے چنانچہ قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا گیا، سو اونٹوں کی قربانی کا قرعہ نکل آیا۔ لہٰذا حضرت عبداللہ کے بدلے حضرت عبدالمطلب نے سو اونٹ قربان کر دیے لیکن اس دوران حضرت عبداللہ کا چہرہ بے حد پرسکون رہا، پھر حضرت عبداللہ کی شادی اور چند ماہ بعد ہی انتقال کا ذکر بے حد موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے، چند ماہ بعد ہی بی بی آمنہ کا انتقال بھی اس وقت راستے میں ہو جاتا ہے جب آپ حضرت عبدالمطلب کے ننھیال سے اپنے شہزادے رسول پاکؐ کے ساتھ واپس آ رہی تھیں، ساتھ میں بی بی آمنہ کی کنیز (برکہ) ام ایمن بھی ساتھ تھیں۔
مکہ کی طرف واپسی کا یہ حسرت ناک سفر ثابت ہوا۔ والدہ کے انتقال کے وقت رسول پاکؐ کی عمر صرف چھ سال تھی۔ آپؐ نے صحرا کی اداس اور بے نور شام میں اپنی جان سے زیادہ پیاری والدہ کو آنکھوں کے سامنے موت کی آغوش میں اترتے دیکھا۔وہ وقت بھی بڑا کٹھن اور صبر آزما تھا جب آپؐ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوا۔ اس وقت آنحضرتؐ کی عمر آٹھ سال دو ماہ اور دس دن تھی۔
حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے گھر ان کی سرپرستی میں آگئے، ابو طالب کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے، لہٰذا آپؐ نے چچا ابو طالب کا ہاتھ بٹانے کے لیے مکہ کے تپتے ریگزاروں اور جھلسا دینے والی گرمی میں شہر والوں کی بکریاں چرانا شروع کردیں۔ اللہ کے پیارے نبیؐ نے زندگی کا بیشتر حصہ غموں اور تکلیفوں، اپنوں کی ایذا رسانیوں میں گزارا لیکن صبر و شکر میں کمی نہیں آئی۔
جب آپؐ کے صاحبزادگان سیدنا ابراہیم اور سید عبداللہ کی وفات نے دشمنوں کو تمسخر اڑانے کا موقعہ فراہم کیا انھی دنوں اللہ رب العزت نے سورۃ الکوثر کا نزول فرمایا اور حوصلہ دیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی اورآپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا، اور ایسا ہی ہوا۔
آج کفار مکہ کا کوئی نام لیوا نہیں لعنتی اور جہنم کا ایندھن کے نام سے پکارے گئے جب کہ ہمارے پیارے نبیؐ کے امتی، چاہنے اور جان قربان کرنے والوں کی تعداد میں آج تک اضافہ ہو رہا ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 55 ممالک نبی پاکؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔رسول پاکؐ کے اعلان نبوت کے بعد تین سال تک تو توحید کا پیغام کامیابی کے ساتھ جاری رہا اس راہ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن آپؐ راضی بہ رضا رہے اور اپنے رب کے حکم کے سامنے سر خم کردیا۔
نبوت کے آغاز سے لے کر پیارے چچا ابو طالب اور ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی وفات، سفر طائف اور اہل طائف کا ظالمانہ سلوک، جنگ بدرکی شاندار اور عظیم الشان کامیابی، جنگ احد اور جنگ خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ یہ وہ اہم جنگیں اور واقعات ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو سربلندی نصیب ہوئی، تاریخ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی ترویج و تبلیغ کی کاوشوں کو محمد عبدالقیوم نے سلیس اور سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔
فتح مکہ کے بعد کے حالات کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے مولف نے اپنی توانا تحریر کے ذریعے اپنے قارئین کی رسائی اس اہم واقعے کی طرف مبذول کردی ہے ۔جس وقت رسول پاک ﷺ نے اپنے عصائے مبارک کی ضرب سے بتوں کوگرانا شروع کردیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر اس آیت کریمہ کے یہ الفاظ تھے آج حق غالب آگیا، باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ قربان جاؤں یا نبی ﷺ ۔
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام
اس پوری کتاب میں سلام پیش کرنے کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔
عبدالقیوم نے اللہ کے حبیب احمد مجتبیٰ ﷺ ، خاتم النبین، رحمت اللعالمین کی زندگی اور زندگی میں آنے والے واقعات کو بے حد محبت اور عقیدت سے قلم بلند کیا ہے، ان کا علم تعظیم کے ساتھ صفحہ قرطاس کو بوسے دیتا ہے، نتیجے میں معطر لفظوں کا ذخیرہ دمکتے ہوئے نگینوں کی شکل میں نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے اورکتاب کے اوراق نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔
اسلام کی حقانیت اور آپؐ کا عفو و درگزر، ایثار کی مثالیں سامنے آجاتی ہیں۔بے شک سیرت پاکؐ کو لکھنا اس قدر آساں ہرگز نہیں ہے، بڑی احتیاط، توجہ اور وسیع مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
مولف میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور حب رسولؐ کی روشنی ان کے دل و دماغ میں تازگی بخشنے کا سبب ہے، رسول پاکؐ بے پناہ محبت و عاشقی 700 صفحات لکھنے کی وجہ خاص بنی۔اظہار تشکر کے عنوان سے محمد عبدالقیوم نے اپنے قلمی معاونین کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ابتدا میں پروفیسر خیال آفاقی کا شکریہ ادا کیا ہے اور اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ پروفیسر خیال آفاقی عصر حاضر کے مایہ ناز ادیب اور عظیم سیرت نگار ہونے کے ساتھ بے حد شفیق اور پرخلوص شخصیت ہیں اس کے ساتھ ہی جناب ڈاکٹر حافظ منشا طیب کو اپنا محسن قرار دیتے ہوئے ان کی کتاب کے سلسلے میں رہنمائی اور تعاون کو سراہا ہے، پروفیسر ڈاکٹر رفاقت شاہد کے بھی ممنون ہیں کہ انھوں نے مضامین کی اصلاح کا فریضہ انجام دے کر کتاب کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔
الحمدللہ سیرت پاکؐ کے حوالے سے کچھ کتابیں میرے بھی مطالعے میں رہیں لیکن مذکورہ کتاب جیسا حسن و جمال، زیور طباعت سے آراستہ، کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک، نفیس کاغذ اور دھنک رنگوں سے مرصع تحریر و سرورق میری نگاہ سے نہیں گزری۔ مولف کی اپنے آقا، سرور کونینؐ سے محبت و احساس کے رنگوں سے رنگی ہوئی یہ ضخیم کتاب قاری کے لیے دلکشی اور توجہ کا باعث ہے۔
آغاز رسول پاکؐ کے مبارک و طیب والدین سے کیا گیا ہے، اس قدر دل نشیں انداز میں تعارف اور سیرت و کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مکمل معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔اس کتاب کے ابتدائی صفحات علامہ اقبال کے اشعار سے جگ مگ کر رہے ہیں اور قلب و نظر میں ایمان کی حرارت کو گرمانے کا باعث ہیں۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ
٭......٭
اصالتِ کل' امامتِ کل' سیادتِ کل' امارتِ کل
حکومتِ کل' ولایت کل' خدا کے یہاں تمہارے لیے
صبا وہ چلے کہ باغ پھلے' وہ پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے
لوا کے تلے ثنا میں کھلے' رضا کی زباں تمہارے لیے
یہ شمس و قمر' یہ شام و سحر' یہ برگ و شجر' یہ باغ و ثمر
یہ تیغ و سپر' یہ تاج و کمر' یہ حکم رواں تمہارے لیے
عطائے رب' جلائے کرب' فیوضِ عجب' بغیر طلب
یہ رحمتِ رب' کس کے سبب' یہ رب جہاں تمہارے لیے
.........
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
حضرت محمد ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ جلیل القدر سردار عبدالمطلب کے دس بیٹوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، باوقار، فضیلت و بزرگی کے آئینہ دار، اور پاکیزگی و اعلیٰ کردار میں اپنی مثال آپ تھے۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنی منت کے مطابق انھیں اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہا تو قریش مکہ کے سرداروں نے تشویش کا اظہار کیا، گھر والے بھی پریشان تھے چنانچہ قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا گیا، سو اونٹوں کی قربانی کا قرعہ نکل آیا۔ لہٰذا حضرت عبداللہ کے بدلے حضرت عبدالمطلب نے سو اونٹ قربان کر دیے لیکن اس دوران حضرت عبداللہ کا چہرہ بے حد پرسکون رہا، پھر حضرت عبداللہ کی شادی اور چند ماہ بعد ہی انتقال کا ذکر بے حد موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے، چند ماہ بعد ہی بی بی آمنہ کا انتقال بھی اس وقت راستے میں ہو جاتا ہے جب آپ حضرت عبدالمطلب کے ننھیال سے اپنے شہزادے رسول پاکؐ کے ساتھ واپس آ رہی تھیں، ساتھ میں بی بی آمنہ کی کنیز (برکہ) ام ایمن بھی ساتھ تھیں۔
مکہ کی طرف واپسی کا یہ حسرت ناک سفر ثابت ہوا۔ والدہ کے انتقال کے وقت رسول پاکؐ کی عمر صرف چھ سال تھی۔ آپؐ نے صحرا کی اداس اور بے نور شام میں اپنی جان سے زیادہ پیاری والدہ کو آنکھوں کے سامنے موت کی آغوش میں اترتے دیکھا۔وہ وقت بھی بڑا کٹھن اور صبر آزما تھا جب آپؐ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوا۔ اس وقت آنحضرتؐ کی عمر آٹھ سال دو ماہ اور دس دن تھی۔
حضرت عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے گھر ان کی سرپرستی میں آگئے، ابو طالب کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے، لہٰذا آپؐ نے چچا ابو طالب کا ہاتھ بٹانے کے لیے مکہ کے تپتے ریگزاروں اور جھلسا دینے والی گرمی میں شہر والوں کی بکریاں چرانا شروع کردیں۔ اللہ کے پیارے نبیؐ نے زندگی کا بیشتر حصہ غموں اور تکلیفوں، اپنوں کی ایذا رسانیوں میں گزارا لیکن صبر و شکر میں کمی نہیں آئی۔
جب آپؐ کے صاحبزادگان سیدنا ابراہیم اور سید عبداللہ کی وفات نے دشمنوں کو تمسخر اڑانے کا موقعہ فراہم کیا انھی دنوں اللہ رب العزت نے سورۃ الکوثر کا نزول فرمایا اور حوصلہ دیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی اورآپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا، اور ایسا ہی ہوا۔
آج کفار مکہ کا کوئی نام لیوا نہیں لعنتی اور جہنم کا ایندھن کے نام سے پکارے گئے جب کہ ہمارے پیارے نبیؐ کے امتی، چاہنے اور جان قربان کرنے والوں کی تعداد میں آج تک اضافہ ہو رہا ہے اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 55 ممالک نبی پاکؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔رسول پاکؐ کے اعلان نبوت کے بعد تین سال تک تو توحید کا پیغام کامیابی کے ساتھ جاری رہا اس راہ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن آپؐ راضی بہ رضا رہے اور اپنے رب کے حکم کے سامنے سر خم کردیا۔
نبوت کے آغاز سے لے کر پیارے چچا ابو طالب اور ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی وفات، سفر طائف اور اہل طائف کا ظالمانہ سلوک، جنگ بدرکی شاندار اور عظیم الشان کامیابی، جنگ احد اور جنگ خندق، صلح حدیبیہ، فتح مکہ یہ وہ اہم جنگیں اور واقعات ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو سربلندی نصیب ہوئی، تاریخ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی ترویج و تبلیغ کی کاوشوں کو محمد عبدالقیوم نے سلیس اور سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔
فتح مکہ کے بعد کے حالات کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے مولف نے اپنی توانا تحریر کے ذریعے اپنے قارئین کی رسائی اس اہم واقعے کی طرف مبذول کردی ہے ۔جس وقت رسول پاک ﷺ نے اپنے عصائے مبارک کی ضرب سے بتوں کوگرانا شروع کردیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر اس آیت کریمہ کے یہ الفاظ تھے آج حق غالب آگیا، باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ قربان جاؤں یا نبی ﷺ ۔
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام
اس پوری کتاب میں سلام پیش کرنے کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔