بائیومیڈیکل انجینئرنگ

آج کتنے ہی شفاء خانوں کے بائیو میڈیکل کے صدر شعبہ ہمارے اسی شعبے کے فارغ التحصیل ہیں



8 اکتوبر 1993کا وہ تاریخی دن جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی کوشش سے سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں آیا ،اس تعلیمی ادارے کے قیام میں ظل ِ احمد نظامی ،ذاکر علی خان اور ان کے رفقاء کی مثالی جدوجہد شامل تھی۔

جنوری1994سے جامعہ نے کمپیوٹر اور الیکٹرانک انجینئرنگ سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا بعد ازاں 1996سے دو اور فیکلٹیز کا اضافہ کیا گیا جس میں بائیو میڈیکل اور سول انجینئرنگ شامل تھیں۔ شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کے قیام نے جامعہ سرسید کو اس اعزاز سے بھی نوازا کہ وطن عزیز میں یہ منفرد فیلڈ کی بانی جامعہ ہے اس مایہ ناز شعبے میں ڈگری تعلیم کے آغاز کے کئی سال بعد ملک کی دیگر جامعات میں بھی اس نایاب شعبے میں تعلیم کا انعقاد ہوا اور اب ماشاء اللہ اس میں اعلیٰ تعلیم، پی ایچ ڈی کے مواقع میسر ہیں۔

اپنے آغاز سے ہی جامعہ نے اس کی نظری تعلیم کے لیے بے انتہا لائق اساتذہ کا اہتمام کیا،طبی آلات کی عملی تربیت کے لیے مختلف طبی اداروںکی تجربہ گاہوں اور ان کے اساتذہ کو تعینات کیا گیا۔ ظاہر ہے ایک نوزائیدہ پودے کو پھل دار درخت بننے میں انتہائی مشکل دور سے گزرنا پڑتا ہے رفتہ رفتہ ہی وہ اپنی جڑیں مضبوط کر پاتا ہے تو اس وقت یہی صورت حال اس نووارد شعبے کی تھی مگر اس کے قیام کے ذمے داران نے یہ کوشش کی کہ انسانی جسم کے مصنوعی اعضاء بھی تیار کیے جاسکیں، تو کیا بات ہو گی۔

ابتداء میں وسائل نہ ہونے پر بھی اس شعبے کے لیے بھرپور جدوجہد کی گئی پر وطن عزیز میں ایک مخصوص ٹولے کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا کہ مثبت کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ آج اس شعبے کے قیام کو تقریبا ستائیس سال گذ ر گئے ہیں اور اس شعبے سے وابستہ طالب علموں نے اپنے بل بوتے پر کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازی سے منسلک افراد نے ان بچوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی تیار نہیں کی جس سے وطن عزیز کو نت نئی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار کیا جاسکے۔

بجٹ میں اس شعبے کے لیے خطیر رقم مختص کی جائے' ان کے لیے جابز رکھی جائیں، طالبعلموں کی تعلیمی محنت کو بروئے کار رکھتے ہوئے ان کی مراعات مقرر کی جائیں تحقیق کے نئے رحجانات تراشے جائیں جو کہ ریاست کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہیں۔ جب مرحومہ ڈاکٹر سیمی جمالی(جناح) اور ڈاکٹر سلمان فریدی (لیاقت نیشنل) اور دیگر اسپتالوں کے ڈائریکٹرز ادارے کا نظم و نسق چلا رہے ہیں تو یہ موقع ایک بائیو میڈیکل انجینئر کو بھی دیا جاسکتا ہے کیوں اس شعبے کے فارغ التحصیل طالبعلموں کو نظر انداز کیا جارہا ہے؟

روزگار کی وجہ سے وہ اپنی فیلڈ تبدیل کرنے پر مجبور ہورہے ہیں یا وہ اپنوں کو چھوڑ کر دیار غیر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں سرگرم عمل ہیں کیوں؟ ان تمام عوامل میں کہیں نہ کہیں ہماری مادر علمی کے نظم و نسق چلانیوالوں کی بھی ذمے داری ہے ایک ماں کا آنچل اپنے سبھی بچوں پر ہمیشہ دراز رہتا ہے چا ہے وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوجائیں تو کیوں ہماری جامعہ کے کرتا دھرتا مادر علمی کی طرف سے اس کے بچوں کا حق کیوں نہیں طلب کرتے ہم اس ملک کے شہری ہیں وہ بھی فرسٹ کلاس تو ہم اپنا حق پورے حق سے سر اٹھا کر کیوں نہیں لیتے ہمارے پیسوں سے حکمران عیش کرتے ہیں۔

ایک انجینئر یا ڈاکٹر جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے کو ان کے کام کی جائز تنخواہ مراعات دیتے ان کی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ والدین کتنے پیسے خرچ کرکے اپنے بچوں کو یہ فنی تعلیم دلواتے ہیں، اس دن کے لیے کہ ان کے بچے بے روزگار رہیں یا پھر روزگار گھر بار کی مجبوری لیے ان کو سہارے کی عمر میں بے سہارا کردیں۔ آج اس مہنگائی کے دور میں تعلیمی اخراجات میں ہوشربا حد تک اضافہ ہوگیا ہے نجانے کس طرح والدین یہ اخراجات ادا کرتے ہیں۔

ایک مثبت تجویز ہمارے ان بزرگوں کے لیے جو عمر اور صحت کی طوالت کے باوجود اپنے عہدوں پر براجمان ہیں، ظاہر ہے یہ دونوں عوامل انسان کی فعالیت پر بھرپور اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ مسائل جو فوری توجہ کے مستحق ہیں وہ نظرانداز ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے بزرگ اگر پھر بھی کام کرنے کا جوش و جذبہ رکھتے ہیں تو وہ اعزازی طور پر اپنی خدمات پیش کریں تاکہ مندرجہ بالا عوامل فوری توجہ کے مسائل میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔

ظاہر ہے یہ بزرگ ایک طویل عرصہ نوکری کرکے اپنی تنخواہ لے کر اب وظیفے پر ہوتے ہیں اور اولادوں کو بھی مستحکم اور اچھے روزگار سے وابستہ کرچکے ہوتے ہیں، تو اب ان کو اپنی خدمات اپنی اخروی زندگی کے حوالے سے دینی چاہیے تاکہ فیصلہ سازی کے اس عہدے پر ایک چاق و چوبند اور اہل فرد کا تقرر ہوسکے۔ بزرگ افراد نئے آنیوالوں کو اپنے تجربے کی روشنی میں ٹرینڈ کریں۔

حال ہی میں راقم نے ایک تقریب میں اردو کے ایک مایہ ناز پروفیسر کو نظامت کے فرائض سنبھالتے دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کسی طالبعلم کو درست ادائیگی تلفظ سیکھا کر یہ موقع فراہم کرتے تو آج کا بچہ جو اردو زبان سے ہی بلکہ سیکھنے سکھانے سے بھی دور ہوگیا ہے وہ کچھ سیکھ جاتا۔

پروفیسر موصوف کئی جرائد سے بھی منسلک ہیں انھیں چاہیے کہ وہ نئے بچوں کو بھی قلم کی دنیا سے روشناس کروائیں، انھیں بھی موقع دیں، ان میں بھی اس کی رغبت پیدا کریں۔ جامعہ کراچی میں ایک بہت سینئر پروفیسر صدر شعبہ کی حیثیت سے وظیفے پر سبکدوش ہونے کے باوجود وزیٹنگ فیکلٹی سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ کی ایک خصوصی سیل کے ڈائریکٹر بھی رہے آخر وہ کب تک ون مین شو کریں گے جو معاشرے میں بدترین بے روزگاری کو بھی پروان چڑھا رہی ہے۔

خیر بات ہورہی تھی شعبہ بائیو میڈیکل کی آج الحمدللہ اس شعبے کے المنائز کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ طاہر جلیل بزنس کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور اپنے جونیئرز کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے میں سرگرم رہتے ہیں، یہی حال عدنان چشتی، عبداللہ فاروقی، ذیشان اور نجانے کتنے فارغ التحصیل طالبعلم اپنے طور پر کسی نہ کسی شکل میں کار خیر کر رہے ہیں۔ حال ہی میں عماد جدون نے ایک ایکسرے مشین ڈیزائن کی۔ عاصم رسول عامر مصباح حارث اور نجانے کتنے المنائز اس شعبے میں ایک منفرد مقام پیدا کرچکے۔

آج کتنے ہی شفاء خانوں کے بائیو میڈیکل کے صدر شعبہ ہمارے اسی شعبے کے فارغ التحصیل ہیں یہاں تک کہ جامعہ سرسید کی بائیومیڈیکل کی چیئرپرسن سدرہ عابد بھی اسی شعبے کی المنائی ہیں، ایک طالبعلم سے صدر شعبہ تک کے ان کے سفر میں وہ اس شعبے سے متعلق تمام امور کو سمجھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دن رات اس شعبے کی ترقی و آسودگی کے لیے کوشاں ہیں، وہ ہر ماہ باقاعدگی سے شعبہ جاتی سرگرمیوں پر مبنی نیوز بلیٹن آگاہی کے مقصد سے نکالتی ہیں۔

حال ہی میں انھوں نے یورپین گرانٹ کمیشن حاصل کی یہ گرانٹ شعبہ بائیو میڈیکل کی نشر و اشاعت اور جدید دور تعلیم کی نئی نئی سہولتوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے دی جاتی ہے اور عملی مشقوں کی تربیت گاہوں میں آلات کی افزائش کے لیے جو طالبعلموں کے سیکھنے سکھانے کے عمل میں معاون اور مددگار ہو۔ اس شعبے کے المنائز بے چین ہیں اپنی مادر علمی اور نئے اور زیر تعلیم طالبعلموں کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے تجربہ گاہوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ان کے جذبے صادق ہیں۔

یہ ہمارے محترم اساتذہ کا فیض جنھوں نے اپنا بہترین وقت دیا، ان کو جامعہ سے منسلک کرنے میں قرار واقعی طور پر ان بزرگوں کا بھی حصہ ہے جنھوں نے مادر علمی کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ آخر میں راقم الحروف کی مودبانہ درخواست ہے موجودہ انتظامیہ سے کہ جہاں طالبعلموں کو ایک خوشگوار ماحول کی فراہمی کے لیے مختلف سوسائٹیزکا قیام عمل میں لایا گیاہے تاکہ وہ بغیر تناؤ کے تعلیم پر توجہ دے سکیں، وہاں ان عملی مشقوں کے لیے مختص کی گئی تجربہ گاہوں میں آلات کی دستیابی یقینی بنائیں، تاکہ عملی زندگی میں ہمارے طالب علم بغیر کسی خوف و خطر کے آگے بڑھ سکیں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے ضامن بن سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں