مرنے کو دل نہیں چاہتا

بلدیہ کے میئر اور ڈپٹی میئر سے گزارش ہے کہ وہ قبرستانوں میں معاوضے کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خصوصی توجہ دیں

meemsheenkhay@gmail.com

کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے ، آج اخبارات میں ایک خبر آئی ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے قبرستانوں میں قبر کی سرکاری قیمت 14500 روپے ہے جب کہ قبرستان کا عملہ میت کے لواحقین سے 25 سے 50 ہزار روپے تک وصول کر رہا ہے۔

ایک الزام یہ بھی ہے جو خبر کی صورت میں منظر عام پر آیا کہ کچھ قبرستانوں میں ایک سے لے کر 5 لاکھ تک بھی وصولی کی جارہی ہے ،یہ قبرستان یقینا پوش علاقوں میں ہوں گے۔

کراچی میں 213 قبرستان ہیں اور معلومات کی حد تک کراچی بلدیہ کی حدود میں 38 قبرستان ہیں ، ان قبرستانوں میں عیسیٰ نگری، سخی حسن، عظیم پورا، چکرا گوٹھ، کورنگی، سوسائٹی، ماڈل کالونی، یاسین آباد، میوہ شاہ، پاپوش نگراورلیاقت آباد شامل ہیں مگر یہاں پر جگہ ختم ہونے کی وجہ سے تدفین پر پابندی عائد ہے ،اگر آپ صاحب حیثیت ہیں تو جہاں جگہ نہیں ہے وہاں بھی میت کی تدفین کے لیے آپ کو جگہ مل جائے گی۔

یہ سلسلہ گزشتہ 40 سال سے چل رہا ہے، کیونکہ قبرستانوں کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے ایک صحافی دوست کا یہ کہنا تھا، اب ان نادان کو کون سمجھائے کہ جناب منصوبہ بندی صرف اور صرف خاندانی منصوبہ بندی میں ہوتی ہے ہمارے ہاں تو منصوبہ بندی کا کوئی فیشن ہے ہی نہیں اور مزے کی بات دیکھیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے ادارے بھی بھرپور فعال نہیں ہیں لہٰذا اب قوم کو ہر کام کے لیے اپنی ہی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی یہاں تو کراچی میں یومیہ تقریباً 250 اموات ہوتی ہیں اب ہر شخص تو لکھ پتی ہے نہیں صاحب حیثیت ہوں یا پکوڑے بیچنے والا دونوں کو قبر کی ضرورت تو ہوتی ہے۔

ادھر قبرستانوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں جو کرتا دھرتا ہیں وہ منہ مانگے پیسے طلب کرتے ہیں غریب کیا کرے گا گھر میں تو میت کی تدفین کرنے سے رہا اور اس شہر میں سیکڑوں حضرات سال کے 365 دنوں میں تدفین کے مراحل سے گزرتے ہیں اور انھیں جن مشکلات اور حالات سے گزرنا پڑتا ہے یہ ان کے دل جانتے ہیں جب کہ کفن اور دیگر چیزیں الگ ہیں۔

میت گاڑیوں نے ادھم مچا رکھا ہے 6 یا 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہزاروں روپے طلب کرتے ہیں مانا کہ ڈیزل مہنگا ہو گیا ہے مگر 6 کلو میٹر کے ہزاروں روپے کیوں مانگے جا رہے ہیں مانا کہ کراچی میں قبرستانوں کا فقدان ہے مگر منہ مانگے پیسے جو مانگے جا رہے ہیں اس پر کنٹرول کرنا ہوگا ۔باخبر ذرایع بتا رہے ہیں ضلع غربی میں 200 ایکڑ اراضی قبرستان کے لیے مختص کر دی گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملیر میں قبرستان میں تدفین کا عمل شروع ہو چکا ہے مگر ملیر شہر سے بہت دور ہے لوگ تو صرف عید اور بقر عید پر اپنے پیاروں کی قبروں میں جایا کریں گے ،ہاں اگر آپ صاحب حیثیت ہیں تو علاقے کے قبرستان میں تدفین کے لیے جگہ لے سکتے ہیں مگر اس کا معاوضہ بہت زیادہ ہے ایک غریب شخص نے ہم سے کہا کہ مہنگائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے پہلے تو مرنے کی آرزو کرتے تھے اب تو زندگی کی دعا مانگتے ہیں کہ مر گئے تو لواحقین کو کتنے دھکے کھانا پڑیں گے۔

واقعی غریب کے لیے تو مرنا اب بہت مہنگا پڑے گا،کیونکہ تدفین کے پیسے بھی منہ مانگے وصول کیے جا رہے ہیں ہم بے حسی کے کس مقام پر کھڑے ہوگئے ہیں اس کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل بنانا ہوگا تاکہ کم ازکم غریب تو مستفید ہو سکے غریب بیمار ہو جائے تو دوا کی قیمتیں اسے ویسے ہی مار دیتی ہیں کوئی پرسان حال نہیں نہ کوئی سننے والا ہے غریب کو تو مرنے کے بعد بھی سکون نہیں ہے ۔کیا خوب شاعر نے کہا ہے غربت کے حوالے سے:


مقدر میں جو سختی تھی وہ مر کر بھی نہیں نکلی

لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمیں نکلی

جب سرکاری فیس 14500 مقرر کر دی گئی ہے تو بلدیہ اس پر توجہ کیوں نہیں دیتی۔ اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ قبرستانوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے ۔چلیے آپ کی بات سر آنکھوں پر تو پھر بھاری معاوضے کی صورت میں قبرستان میں جگہ کیسے مل جاتی ہے۔ ڈپٹی میئر نے بتایا کہ ملیر میں قبر کی کوئی قیمت نہیں ہے یہاں فری ہے جب کہ جلد ہزاروں ایکڑ مزید اراضی ملیر میں قبرستان کے لیے فراہم کی جائے گی علاقے کے طور پر قبرستان بنائے جائیں ناظم آباد کے حوالے سے سرجانی ٹاؤن، گلشن کے حوالے سے ڈاؤ میڈیکل کالج کے قرب و جوار میں گلستان جوہر میں ہزاروں ایکڑ زمین مل سکتی ہے۔

سائٹ کے علاقے میں بلدیہ کے قرب و جوار میں جگہ مل سکتی ہے یہ بہت حساس مسئلہ ہے اس پر بلدیہ خصوصی توجہ دے اور جو قبرستان پرانے ہیں وہ جو منہ مانگے پیسے وصول کر رہے ہیں وہاں تدفین کے حوالے سے رقم مخصوص کی جائے اور بلدیہ وہاں بورڈ آویزاں کرے کہ اگر آپ کی میت کی تدفین کے لیے جگہ ملتی ہے تو قبرستان کی انتظامیہ صرف 14500 روپے وصول کرے کیونکہ یہ سرکاری فیس ہے اور قبرستان کے عملے نے بھی میت کو نئی جگہ نہیں دینی ہوتی وہ 30 سال پرانی قبر کو توڑ کر نئے سرے سے قبر بناتے ہیں جب یہ سلسلہ ہو رہا ہے تو پھر 40 سے پچاس ہزار کیوں طلب کیے جا رہے ہیں یہ صرف قبر کی قیمت بتائی ہے جب کہ پہلے مراحل میں قبر کھودنا، سلیب اور قبر کی تدفین کے مراحل الگ ہیں اس کے پیسے الگ لیے جاتے ہیں ۔ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے لوگ خاموشی سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں ۔

قبرستان والوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مرنے والا غریب تھا، لاوارث تھا اور وہ کس حال میں یہاں آیا ہے اوپر والے کا خوف تو ویسے بھی ختم ہوتا جا رہا ہے لے دے کر جو کسر رہ گئی تھی وہ قبرستان والوں نے اپنا حصہ ڈال کر پوری کر دی ہے کوئی ان میت گاڑی کے مالکان سے پوچھے کہ یہ ہزاروں روپے کیوں مانگ رہے ہیں (مجھے نہیں معلوم) ایک میت میں ایک صاحب بتا رہے تھے کہ میت کے کفن کے لیے آپ جب جاتے ہیں تو وہ کفن کے جو پیسے ہیں وہ وصول کرتے ہیں مگر ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ 1000 روپے زیادہ ہوں گے اگر آپ آب زم زم سے دھلا ہوا کفن لیں گے ہم بے حسی کی کس نہج پر آ کر کھڑے ہوگئے ہیں میں تو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ایدھی، چھیپا اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کو اور سیلانی کے بشیر فاروقی جو غریبوں کے لیے بہت ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں جو غریب معذور بیمار ہیں انھیں بلامعاوضہ گھر پر فری خدمات دیتے ہیں اداروں سے تو کچھ ہوتا نہیں اب صرف یہ تین سماجی تنظیمیں اس شہر میں غریبوں کی مفت خدمات انجام دے رہی ہیں۔

سیلانی کے بانی بشیر فاروقی نے تو اب میڈیکل کا شعبہ بھی بنا دیا ہے جہاں باقاعدہ ماہر ڈاکٹر فری میں مریضوں کو دیکھتے ہیں جب سب کچھ ان فلاحی اداروں نے کرنا ہے تو پھر اس شہر کے ادارے کیا کر رہے ہیں؟

اس کا جواب ہے کسی کے پاس یہ سوالیہ نشان ہے، سرکاری اداروں کی کیا کارکردگی ہے وہ آپ کے سامنے ہے میری بلدیہ کے میئر اور ڈپٹی میئر سے گزارش ہے کہ وہ قبرستانوں میں معاوضے کے حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خصوصی توجہ دیں۔ اس کا نظام بہترین کریں۔ کراچی کے عوام نے آپ پر بھرپور اعتماد کیا ہے خاص طور پر بلدیہ کے زیر سایہ جو اسپتال کام کر رہے ہیں ان پر خصوصی توجہ دیں مریض دھکے کھاتے ہیں مگر دوائیاں ناپید ہوتی ہیں۔

اکثر ڈاکٹر حضرات سے لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ وہ اوقات کار کا خیال نہیں رکھتے۔ میئر اور ڈپٹی میئر سے گزارش ہے کہ آپ بلدیہ کے زیر سایہ چلنے والے اسپتالوں پر خصوصی توجہ دیں تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ میئر کراچی والوں سے محبت کرتے ہیں، کراچی والوں نے بہت محبت سے آپ کو میئر منتخب کروایا ہے ،آپ بھی ان سے محبت کا عملی ثبوت دیں۔
Load Next Story