سب گول مال ہے

دونوں بل نافذالعمل ہوچکے ہیں تو صدر صاحب نے ٹویٹ کرکے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے

ایک سال سے پاکستان میں امریکی سازش کا بیانیہ زبان زد عام رہا ہے، ہم نے مبینہ سائفر کی گردان بہت سن رکھی ہے، جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں، بشمول جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر اسجد مجید کے درمیان ہونے والی ملاقات کا احوال تھا۔

مارچ 2022 میں موصول ہونے والے مبینہ سائفر کے متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے کہا کہ '' میرے خیال میں اگر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو امریکا کی جانب سے سب معاف کردیا جائے گا، سائفر کے مطابق امریکا، پاکستان کے سابق وزیراعظم کے دورہ روس پر خائف تھا۔

مارچ 2022 میں بحیثیت وزیراعظم چیئرمین تحریک انصاف نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سائفر لہرا کر اس کے مندرجات عوام کے سامنے رکھے، بعد ازاں وہ سائفر دفتر خارجہ کی فائل سے غائب ہوگیا۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کے مطابق وہ سائفر کہیں گم ہوگیا ہے۔ مبینہ سائفر کے معاملے کو لے کر قومی سلامتی کمیٹی نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی میں اس نکتے پر بھی غور کیا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جو بیانیہ بنایا وہ دراصل سیاسی مقاصد کے لیے ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق درحقیقت آفیشل سیکرٹ کے مندرجات کچھ اور تھے مگر اس پر سیاست کی گئی جو قومی مفاد کے خلاف ہے، پھر سائفر کو لے کر خان صاحب کی آڈیو کال ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آئی جس میں ان کا کہنا تھا ہم سائفر پر کھیلیں گے، سائفر کو لے کر چیئرمین تحریک انصاف پینترا بدل بدل کر مختلف بیانات دیتے رہے ہیں، کبھی ان کا کہنا تھا یہ سائفر میری حکومت کے خلاف تھا، پھر کہا یہ افواج پاکستان کے خلاف تھا، پھر کہنے لگے میں نے جو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں کاغذ لہرایا تھا وہ سائفر نہیں تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خان اور ان کی پارٹی جس ڈونلڈ لو سے نالاں تھے پھر اس سے ملاقات کرتے نظر آئے جس امریکا کی غلامی کے وہ خلاف تھے پھر اس سے مراسم اچھے کرنے کی غرض سے لابنگ کے لیے متحرک ہوئے، خان صاحب کے فرمان کے مطابق حزب اختلاف کے لوگ غیر ملکی سفارت کاروں سے نہیں مل سکتے مگر خود یہ عمل سرانجام دینے میں ذرا نہیں ہچکچائے۔


حالیہ دنوں میں سائفرکا معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ نو اگست کو '' انٹر سیپٹ '' نامی امریکی نیوز ویب سائٹ نے سائفر کو سچا کہنے کا دعویٰ کیا۔ رپورٹر ریان اور مرتضی حسین نے سائفر کی سچائی کا سورسکسی سرکاری اہلکار کا بتایا، جو کہ صحافتی تقاضے کی سرا سر خلاف ورزی ہے۔ سورس بتانے کا عمل ان کی نیت کو واضح کر رہا ہے، یعنی یہ اقدام جان بوجھ کر ایک بار پھر خلفشار پھیلانے کے لیے کیا گیا ہے۔

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ اگر سائفر لیک کرنے کا الزام ثابت ہوا تو خان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے، بعد ازاں 20 اگست 2023 کو تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قرشی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایف آئی اے کے ذرایع کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مبینہ سائفر کو لیک اور گم کرنے پر 15 اگست کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

توشہ خانہ کیس میں خان کو 5 اگست کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے تناظر میں اطلاعات ہیں کہ Absolutely not ہم کوئی غلام ہیں، امپورٹڈ حکومت نامنظور جیسا اسٹرونگ بیانیہ بنانے والے خان کی پارٹی نے اپنے چیئرمین کو جیل سے ریلیف دلانے کے لیے بین الاقوامی سفیروں سے رابطہ بھی کیا ہے، یعنی وہ اپنے ہی نعروں کی متضاد سمت میں رواں دواں ہوچکے ہیں۔

صدر پاکستان عارف علوی بھی کمال کے کھلاڑی ثابت ہوئے ہیں، انھوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے باخبر کیا کہ میں نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں، میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انھیں غیر موثر بنایا جا سکے، میرے عملے نے مجھے بارہا تسلی کروائی کہ تمام دستاویز بنا دستخط کے واپس بھجوائے جاچکے ہیں، یعنی ان کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری کا مجھے کوئی علم نہیں ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ انشا اللہ معاف کردے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے، یعنی علوی صاحب، خان اور شاہ محمود قریشی سے معذرت خواہ ہیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہنے والے صدر صاحب نے بروقت کیوں نہیں اپنے اعتراضات ریکارڈ پر رکھے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں تو مذکورہ بلوں کے متعلق ٹویٹ کرنے میں اتنی تاخیر کیوں جب کہ صدر مملکت کو یہ دستاویز 8 اگست کو موصول ہوگئے تھے، وہ فوری اعتراض لگا کر واپس کردیتے اور عادت کے مطابق ٹویٹ کر دیتے تو سارا معاملہ سامنے آجاتا، پھر اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں تو یہ ایکٹ غیر موثر ہوسکتا تھا، مگر علوی صاحب دس روز تک خاموش رہے۔

اب دستور کے مطابق دونوں بل نافذالعمل ہوچکے ہیں تو صدر صاحب نے ٹویٹ کرکے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مزے کی بات تو دیکھیں، اپنی دس دن کی خاموشی اور ان ایکٹس کو موثر ہونے کے 27 گھنٹے بعد علوی صاحب کو ٹویٹ کرنے کا خیال آیا جس میں انھوں نے متاثرین سے معافی مانگی ہے، اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ یعنی صدر مملکت وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے ماہر تھے۔ خان کو کسی اور نے نہیں ان کے دوستوں نے ہی اس حال کو پہنچایا ہے، کچھ نے ان کا ساتھ چھوڑ کر نئی پارٹیاں بنالی ہیں تو کچھ نے خاموشی سے وبال مچا دیا، بہرحال سب گول مال ہے، رہے اللہ کا نام...
Load Next Story