40 سے 50 فیصد ٹیکس بجلی بلوں میں اضافے کا سبب

صوبوں سے 0.5 فیصد ڈیوٹی، 7 روپے یونٹ یکساں ٹیرف فیس،18 فیصد جی ایس ٹی وصول


Zafar Bhutta August 27, 2023
0.43 روپے مالیاتی سرچارج،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی،جی ایس ٹی بھی شامل۔ (فوٹو: فائل)

بجلی کے زیادہ بل صرف بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس میں شامل زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے بھی ہیں جو ہر بل کا 40 سے 50 فیصد ہوتے ہیں۔

حکومتی چارجز میں بجلی ڈیوٹی، ٹی وی فیس 35 روپے،جی ایس ٹی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور ایکسائز ڈیوٹی شامل ہے،وفاقی حکومت صوبوں سے 0.5 فیصد بجلی ڈیوٹی وصول کرتی ہے، ملک بھر میں ٹیرف کو یکساں رکھنے کیلیے 5 سے 7 روپے فی یونٹ سرچارج رکھا گیا ہے، حکومت بجلی کے بلوں میں صارفین سے 0.43 روپے فی یونٹ مالیاتی سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔

کمرشل اور صنعتی صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، صارفین پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی لاگو ہے، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر مزید جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے موجودہ بلوں میں صارفین سے بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی وصولی کے لیے بل ایڈجسٹمنٹ بھی وصول کی، بجلی کے نرخ 42 روپے فی یونٹ ہونے پر صارفین نے بھی شور مچایا تھا، ماہانہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دی جاتی تھی اور ان کیلئے نرخ 10 روپے فی یونٹ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بزنس مین گروپ اور کراچی چیمبر کا بجلی ٹیرف میں غیرمعمولی اضافے پر شدید احتجاج

تاہم آئسکو نے 200 فی یونٹ استعمال کرنے والے صارفین سے 22.9 روپے فی یونٹ وصول کیا، آئسکو حکام کا کہنا ہے کہ 200 یونٹ پر سبسڈی کی سہولت ان صارفین کیلئے ہے جو متواتر 6 ماہ 200 یونٹ استعمال کریں،بجلی صارفین کے ریلیف کیلیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی تجویز کردہ 25 روپے ریڈیو فیس لاگو نہیں کی گئی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکس اور لیویز کو مختصر مدت میں کم نہیں کیا جا سکتا، ماہرین کے مطابق مالیاتی توازن برقرار رکھنے اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے پیش نظر موجودہ نگران حکومت کیلیے کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیر ممکن نہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل مدتی حل صرف یہ ہے کہ بجلی اور گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں کو بند کر دیا جائے اور بغیر کسی سیاسی یا دیگر مداخلت کے ان کی نجکاری کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں