کیا ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی جو عوامی مفادات پر مبنی روڈ میپ ہو درکار ہے
ہمارے لیے بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہی ہے کہ کیا یہ سب کچھ جو ہمارے سامنے ہورہا ہے یا جس انداز میں نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ ہی ہمارا نصیب ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہم آزادی سے لے کر اب تک روداری پر مبنی معاشرے کی تشکیل نو نہیں کرسکے۔
یہ ناکامی کس کی ہے یہاں مقصد کسی ایک فریق پر الزام دینا نہیں بلکہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم اس حالیہ مقام تک کیونکر پہنچے ہیں اوراس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔یہ جو طاقت حکمران طبقہ چاہے ان کا تعلق سیاست سے ہو یا ان کا تعلق غیر سیاست سے ہو کیونکر لوگوں کے لیے ایک منصفانہ معاشرہ نہیں بناسکے۔ کیا وجہ ہے کہ ریاستی، قومی وعوامی مفادات کے مقابلے میں طاقت ور طبقہ کی سیاست اور فیصلہ سازی میں ذاتی مفادات کو بالادستی حاصل ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور ریاست آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔ معلوم نہیں اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کو اس بات کا احساس ہے کہ نہیں لیکن عام آدمی یا درمیانے درجہ سے تعلق رکھنے والے افراد یا معاشرے میں سوچنے سمجھنے والے یا پڑھے لکھے افراد کو بڑی شدت سے احساس ہے کہ ہماری ریاستی اور حکمرانی کی سمت غلط راستے پر گامزن ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری مجموعی ریاستی نظام میں سیاسی بونوں نے جگہ بنالی ہے۔
پورے ریاستی نظام میں سیاسی بونوں کی آمد اور طاقت کے مراکز میں ان کی شمولیت سے فہم و فراست، تدبر، مستقل مزاجی، انکساری ، تحمل ، سوچ وفکر میں گہرائی ، دوراندیشی اور معاملات کی سمجھ بوجھ اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت جیسے شاندار الفاظ کو اب ہم بھولتے جارہے ہیں۔ کیونکہ ہر شعبہ میں ہماری قیادت نے درمیانی یا نچلے درجے کی قیادت کی اور اس کا نتیجہ ریاستی نظام کی کمزوری یا بری حکمرانی سمیت عوام کی کمزور حیثیت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔
لوگوں میں یہ حیرانگی بھی پائی جاتی ہے کہ کیا یہ ہی سب کچھ ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے اور کیا ہم واقعی اسی طرح کے برے اور فرسودہ نظام کا ہی حصہ رہیں گے۔ یہ مایوسی اوپر سے لے کر نیچے تک موجود طبقات میں پائی جاتی ہے ۔ حالات کی خرابی ہمارے لیے کوئی نیا پہلو نہیں بلکہ اس سے قبل بھی حالات میں کوئی بڑی بہتری نہیں تھی لیکن جو کچھ آج ہورہا ہے وہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے او رایسے لگتا ہے کہ ہم خود ہی بحران کو پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اس بحران میں مبتلا کر کے اپنے ذاتی مفادات کی سیاست کو تقویت دیتے ہیں۔
لوگ عملی طور پر حیران ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کیونکر ہورہا ہے او رہمیں کس غلطی کی سزا دی جارہی ہے ۔بنیادی طور پر یہ سب کچھ جو ہمیں بڑی برائی یا خرابی کی صورت میں نظر آرہا ہے وہ ہمارے قسمت میں نہیں لکھا ہوا او رنہ ہی یہ خد ا کی طرف سے ہو رہا ہے یہ سب جو کچھ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے وہ ہمارے اعمالوں سے زیادہ اس نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے ہے کیونکہ جب نظام کرپٹ ہو یا فرسودہ یا روائتی طور پر پرانے خیالات و فکر کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو اس میں سے یہ ہی کچھ نکلے گا جس کا آج ہمیں سامنا ہے ۔
یہاں وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہو, گورنس میں اچھی حکمرانی کا مسئلہ ، ادارہ جاتی شفافیت، آئین و قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق کی پاسداری کا مسئلہ، انصاف تک افراد کی رہائی یا عام افراد کی اداروں تک رسائی، معیشت کی بحالی یا لوگوں میں معاشی تحفظ ، آزادی اظہار ، متبادل رائے کو سننے کا حق ، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سب جگہ پر ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمیں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ وجہ صرف ہے کہ یہاں کی سیاسی اور جمہوری سیاست یا اقتدار کے کھیل کا براہ راست تعلق عوامی مفادات کے تحفظ سے نہیں جڑا ہوا۔
ہم نے سول حکمرانی بھی دیکھی اور فوجی مارشل لا کا اقتدار بھی دونوں تجربے بری طرح ناکام ہوئے ہیں کیونکہ جب ملک میں طاقت ور طبقات یا اشرافیہ کی حکمرانی ہوگی تو اس کے نتیجے میں عام آدمی کے مفادات سمیت معاشرے میں اصلاحات کا ایجنڈا بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔اسی طرح سیاست کی آزادی کے مقابلے میں جو کنٹرولڈ سیاسی نظام ہے یا جسے آج کل ہائبرڈ نظام کہاجاتا ہے ہماری تقدیر میں بظاہر لکھ دیا گیا ہے ۔
مسئلہ رونا دھونا نہیں او رنہ ہی ماتم کرنا ہے یا روشنی کے مقابلے میں اندھیروں کا کاروبار کرنا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اس سے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہوگا اور کون اس راستے کی سیاسی لیڈ کرے گا۔مسئلہ انقلاب کا نہیں بلکہ اصلاحات کا ہے۔ اگر ہم نے اصلاحات کی بنیادپر ملک میں تبدیلی کے عمل کو آگے نہیں بڑھانا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ہمیں اصلاحات کی طرف توجہ دینی ہے ۔
یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مسئلہ محض ماتم کا نہیں ہے یا لوگوں کو محض ماتم کا شوق نہیں ہے بلکہ ریاستی ، حکومتی اور حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت ہی لوگوں میں ماتم کو پیدا کررہی ہے ۔مجموعی طور پر ایک ردعمل کی سیاست ہم سب پر غالب ہے ۔ سیاست دان ہو یا ریاستی افراد سب ہی ٹھوس بنیادوں پر کچھ کرنے کے بجائے ردعمل کی سیاست کا شکار ہیں۔یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی اپنی سوچ کو کب آزادی دی گئی ہے ۔ لوگ تو اپنی مرضی کی حکومت تک منتخب نہیں کرسکتے۔
معاشرے کے اچھے افراد جو ہر شعبہ میں ہیں او رواقعی ملک کے لیے کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں ان کے راستے میں سب سے بڑا مسئلہ ریاستی او رادارہ جاتی نظام میں سیاسی مداخلت, اقرباپروری اور عدم میرٹ کی پالیسی ہے ۔ جب فیصلہ سازی سے جڑے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر افراد کو اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے بھرتی کیا جائے گا تو جو نتائج آئیں گے وہ بھی پورے ادارہ جاتی نظام کو پیچھے کی طرف دکھیلیں گے۔
یہ جو ہم انتظامی ترقی یا انتظامی ڈھانچوں کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جن میں ایسے لگتا ہے کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ تعمیراتی کام ، ہاؤسنگ سوسائٹیاں، بڑے بڑے انڈر پاس یا پل سمیت بڑے کاروباری مراکز یا عمارتیں ہیں ۔ یہ یقینا ترقی کا پیمانہ ہوسکتا ہے مگر اصلی ترقی عام افراد یا معاشرے میں موجود بغیر کسی خوف کے آزاد ماحول کی ہوتی ہے۔ جب لوگوں کو ہی ترقی نہیں ملنی تو لوگ تعمیراتی ترقی کا کیا کریں گے۔
منطق دی جاتی ہے کہ ہم نے ملک کو عملی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا ہے، درست ہوگا لیکن اس کے نتیجے میں جو لوگ ڈیفالٹ ہوگئے ہیں ان کا کیا کرنا ہے ۔اسی نقطہ پر سوچ و بچار کرکے ہی ہم بہتری کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔
ہمیں ماتم نہیں او رنہ ہی محض دعائیں ہی کرنی ہیں ۔ دعا کے ساتھ دواوں کی بھی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں موجود سنجیدہ او رپڑھا لکھا طبقہ جو واقعی ملک میں تبدیلی چاہتا ہے اسے دعا کے ساتھ عملی بنیادوں پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست یا آواز طاقت ور طبقات تک آئینی ، قانونی اور سیاسی و جمہوری دائرہ کار میں رہ کر کرنا ہوگی ۔ہمیں یہ آواز اٹھانی ہوگی کہ یہ نظام جس انداز سے چلایا جارہا ہے نتیجہ نہیں دے سکے اور نہ ہی یہ طریقہ کار ریاست او رعوام میں موجود خلیج یا بداعتمادی کو کم کرسکے گا۔
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی جو عوامی مفادات پر مبنی روڈ میپ ہو درکار ہے ۔ کیونکہ ترقی کا عمل وہ ہی پائیدار ہوتا ہے جہاں عوام کی حکمرانی کے بنیادی اصول پر اتفاق کرکے قومی پالیسی ترتیب دی جاتی ہو، یہ ہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
یہ ناکامی کس کی ہے یہاں مقصد کسی ایک فریق پر الزام دینا نہیں بلکہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم اس حالیہ مقام تک کیونکر پہنچے ہیں اوراس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔یہ جو طاقت حکمران طبقہ چاہے ان کا تعلق سیاست سے ہو یا ان کا تعلق غیر سیاست سے ہو کیونکر لوگوں کے لیے ایک منصفانہ معاشرہ نہیں بناسکے۔ کیا وجہ ہے کہ ریاستی، قومی وعوامی مفادات کے مقابلے میں طاقت ور طبقہ کی سیاست اور فیصلہ سازی میں ذاتی مفادات کو بالادستی حاصل ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور ریاست آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔ معلوم نہیں اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کو اس بات کا احساس ہے کہ نہیں لیکن عام آدمی یا درمیانے درجہ سے تعلق رکھنے والے افراد یا معاشرے میں سوچنے سمجھنے والے یا پڑھے لکھے افراد کو بڑی شدت سے احساس ہے کہ ہماری ریاستی اور حکمرانی کی سمت غلط راستے پر گامزن ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری مجموعی ریاستی نظام میں سیاسی بونوں نے جگہ بنالی ہے۔
پورے ریاستی نظام میں سیاسی بونوں کی آمد اور طاقت کے مراکز میں ان کی شمولیت سے فہم و فراست، تدبر، مستقل مزاجی، انکساری ، تحمل ، سوچ وفکر میں گہرائی ، دوراندیشی اور معاملات کی سمجھ بوجھ اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت جیسے شاندار الفاظ کو اب ہم بھولتے جارہے ہیں۔ کیونکہ ہر شعبہ میں ہماری قیادت نے درمیانی یا نچلے درجے کی قیادت کی اور اس کا نتیجہ ریاستی نظام کی کمزوری یا بری حکمرانی سمیت عوام کی کمزور حیثیت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔
لوگوں میں یہ حیرانگی بھی پائی جاتی ہے کہ کیا یہ ہی سب کچھ ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے اور کیا ہم واقعی اسی طرح کے برے اور فرسودہ نظام کا ہی حصہ رہیں گے۔ یہ مایوسی اوپر سے لے کر نیچے تک موجود طبقات میں پائی جاتی ہے ۔ حالات کی خرابی ہمارے لیے کوئی نیا پہلو نہیں بلکہ اس سے قبل بھی حالات میں کوئی بڑی بہتری نہیں تھی لیکن جو کچھ آج ہورہا ہے وہ ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے او رایسے لگتا ہے کہ ہم خود ہی بحران کو پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اس بحران میں مبتلا کر کے اپنے ذاتی مفادات کی سیاست کو تقویت دیتے ہیں۔
لوگ عملی طور پر حیران ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کیونکر ہورہا ہے او رہمیں کس غلطی کی سزا دی جارہی ہے ۔بنیادی طور پر یہ سب کچھ جو ہمیں بڑی برائی یا خرابی کی صورت میں نظر آرہا ہے وہ ہمارے قسمت میں نہیں لکھا ہوا او رنہ ہی یہ خد ا کی طرف سے ہو رہا ہے یہ سب جو کچھ ہمیں بھگتنا پڑرہا ہے وہ ہمارے اعمالوں سے زیادہ اس نظام میں موجود خرابیوں کی وجہ سے ہے کیونکہ جب نظام کرپٹ ہو یا فرسودہ یا روائتی طور پر پرانے خیالات و فکر کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو اس میں سے یہ ہی کچھ نکلے گا جس کا آج ہمیں سامنا ہے ۔
یہاں وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہو, گورنس میں اچھی حکمرانی کا مسئلہ ، ادارہ جاتی شفافیت، آئین و قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق کی پاسداری کا مسئلہ، انصاف تک افراد کی رہائی یا عام افراد کی اداروں تک رسائی، معیشت کی بحالی یا لوگوں میں معاشی تحفظ ، آزادی اظہار ، متبادل رائے کو سننے کا حق ، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سب جگہ پر ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمیں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ وجہ صرف ہے کہ یہاں کی سیاسی اور جمہوری سیاست یا اقتدار کے کھیل کا براہ راست تعلق عوامی مفادات کے تحفظ سے نہیں جڑا ہوا۔
ہم نے سول حکمرانی بھی دیکھی اور فوجی مارشل لا کا اقتدار بھی دونوں تجربے بری طرح ناکام ہوئے ہیں کیونکہ جب ملک میں طاقت ور طبقات یا اشرافیہ کی حکمرانی ہوگی تو اس کے نتیجے میں عام آدمی کے مفادات سمیت معاشرے میں اصلاحات کا ایجنڈا بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔اسی طرح سیاست کی آزادی کے مقابلے میں جو کنٹرولڈ سیاسی نظام ہے یا جسے آج کل ہائبرڈ نظام کہاجاتا ہے ہماری تقدیر میں بظاہر لکھ دیا گیا ہے ۔
مسئلہ رونا دھونا نہیں او رنہ ہی ماتم کرنا ہے یا روشنی کے مقابلے میں اندھیروں کا کاروبار کرنا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اس سے آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہوگا اور کون اس راستے کی سیاسی لیڈ کرے گا۔مسئلہ انقلاب کا نہیں بلکہ اصلاحات کا ہے۔ اگر ہم نے اصلاحات کی بنیادپر ملک میں تبدیلی کے عمل کو آگے نہیں بڑھانا تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ہمیں اصلاحات کی طرف توجہ دینی ہے ۔
یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مسئلہ محض ماتم کا نہیں ہے یا لوگوں کو محض ماتم کا شوق نہیں ہے بلکہ ریاستی ، حکومتی اور حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت ہی لوگوں میں ماتم کو پیدا کررہی ہے ۔مجموعی طور پر ایک ردعمل کی سیاست ہم سب پر غالب ہے ۔ سیاست دان ہو یا ریاستی افراد سب ہی ٹھوس بنیادوں پر کچھ کرنے کے بجائے ردعمل کی سیاست کا شکار ہیں۔یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی اپنی سوچ کو کب آزادی دی گئی ہے ۔ لوگ تو اپنی مرضی کی حکومت تک منتخب نہیں کرسکتے۔
معاشرے کے اچھے افراد جو ہر شعبہ میں ہیں او رواقعی ملک کے لیے کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں ان کے راستے میں سب سے بڑا مسئلہ ریاستی او رادارہ جاتی نظام میں سیاسی مداخلت, اقرباپروری اور عدم میرٹ کی پالیسی ہے ۔ جب فیصلہ سازی سے جڑے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر افراد کو اپنی مرضی کے نتائج کے حصول کے لیے بھرتی کیا جائے گا تو جو نتائج آئیں گے وہ بھی پورے ادارہ جاتی نظام کو پیچھے کی طرف دکھیلیں گے۔
یہ جو ہم انتظامی ترقی یا انتظامی ڈھانچوں کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جن میں ایسے لگتا ہے کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ تعمیراتی کام ، ہاؤسنگ سوسائٹیاں، بڑے بڑے انڈر پاس یا پل سمیت بڑے کاروباری مراکز یا عمارتیں ہیں ۔ یہ یقینا ترقی کا پیمانہ ہوسکتا ہے مگر اصلی ترقی عام افراد یا معاشرے میں موجود بغیر کسی خوف کے آزاد ماحول کی ہوتی ہے۔ جب لوگوں کو ہی ترقی نہیں ملنی تو لوگ تعمیراتی ترقی کا کیا کریں گے۔
منطق دی جاتی ہے کہ ہم نے ملک کو عملی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا ہے، درست ہوگا لیکن اس کے نتیجے میں جو لوگ ڈیفالٹ ہوگئے ہیں ان کا کیا کرنا ہے ۔اسی نقطہ پر سوچ و بچار کرکے ہی ہم بہتری کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔
ہمیں ماتم نہیں او رنہ ہی محض دعائیں ہی کرنی ہیں ۔ دعا کے ساتھ دواوں کی بھی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں موجود سنجیدہ او رپڑھا لکھا طبقہ جو واقعی ملک میں تبدیلی چاہتا ہے اسے دعا کے ساتھ عملی بنیادوں پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست یا آواز طاقت ور طبقات تک آئینی ، قانونی اور سیاسی و جمہوری دائرہ کار میں رہ کر کرنا ہوگی ۔ہمیں یہ آواز اٹھانی ہوگی کہ یہ نظام جس انداز سے چلایا جارہا ہے نتیجہ نہیں دے سکے اور نہ ہی یہ طریقہ کار ریاست او رعوام میں موجود خلیج یا بداعتمادی کو کم کرسکے گا۔
پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اتفاق رائے پر مبنی جو عوامی مفادات پر مبنی روڈ میپ ہو درکار ہے ۔ کیونکہ ترقی کا عمل وہ ہی پائیدار ہوتا ہے جہاں عوام کی حکمرانی کے بنیادی اصول پر اتفاق کرکے قومی پالیسی ترتیب دی جاتی ہو، یہ ہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔