برکس اجلاس کے فیصلے مغربی دنیا میں ہلچل…
جوہانسبرگ اجلاس نے متفقہ طور پر مزید چھ ممالک کو برکس کلب میں شرکت کی دعوت دی ہے
جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس کا سالانہ اجلاس اگلے سال چھ نئے ممالک کو اس تنظیم میں شامل کرنے، ادائیگیوں کے لیے نئی کرنسی کے قیام کی قرارداد منظور کرنے کے علاوہ کئی دوسرے اہم اقدامات تجویز کرنے کے بعد جمعرات کے دن ختم ہوگیا۔
جوہانسبرگ کو دنیا بھر میں سٹی آف گولڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر سونے کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مرکز شمار کیا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر ہونے والی کانفرنس کے بعد برکس کے اعلامیہ اور فیصلوں نے امریکا اور مغربی ممالک کی معاشی حاکمیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ برکس کے پانچ ممبر ملک عالمی دولت کے ایک چوتھائی حصے کے مالک ہیں۔
جوہانسبرگ اجلاس نے متفقہ طور پر مزید چھ ممالک کو برکس کلب میں شرکت کی دعوت دی ہے، ان ممالک میں ایران، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ارجنٹائن اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ نئے ممالک کی برکس رکنیت یکم جنوری 2024 سے نافذ العمل ہوگی۔ اس اجلاس سے دو درجن سے زائد ممالک نے برکس میں شمولیت کے لیے درخواست دی تھی لیکن صرف چھ ممالک کو رکنیت مل سکی۔
پاکستان بھی برکس میں شرکت کا ابتدا ہی سے خواہش مند ہے لیکن کئی وجوہات کی بنیاد پر اسے اب تک برکس کا باضابطہ ممبر نہیں بنایا گیا اور اس ممبرشپ کی راہ میں بھارت رکاوٹ ہے۔ برکس اجلاس میں 50 سے زیادہ ریاستوں نے بطور مبصر شرکت کی۔
برکس کا بنیادی تصور 2001 میں پیش کیا گیا۔ ابتدائی طور پر BRICS کا نام بھی ان پانچ ممالک کے پہلے حروف تہجی پر رکھا گیا ہے۔ B برازیل، Rروس ، Iانڈیا، C چین،Sسے ساؤتھ افریقہ کے پہلے حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس کا مجوزہ نام BRIC تھا۔ ابتداء میں ترقیاتی بینک کے لیے سرمایہ کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا گیا ہے جسے بعد میں سو ارب ڈالر تک بڑھایا۔
سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر' بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ ،اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔ نئے اقتصادی بلاک برکس کے رکن ممالک کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی پچیس فیصد ہے۔
برکس کے اجلاس میں یہ پانچ ممالک عالمی منظرنامے کا سالانہ جائزہ لیتے ہیں اور اپنی تجاویز اور اقدامات پیش کرتے ہیں، اس کے بعد جن معاملات پر اتفاق رائے ہو جائے اس پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ برکس کے ممبر ممالک عالمی منظرنامے میں درپیش چیلنجز پر سیرحاصل بحث کے بعد اتفاق رائے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیاں، دہشت گردی، بین الاقوامی سیکیورٹی اور مغربی ورلڈ آرڈر کے مقاصد کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔
امریکی اور مغربی ممالک کی جانب سے ان امور اور اس سے متعلقہ دوسرے امور پر جو حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے یہ ممالک اس کا جائزہ لے کر اس چیز کا احاطہ کرتے ہیں کہ کیا مغربی اور امریکی لائحہ عمل ہمارے خطے کے لیے مشکلات تو پیدا نہیں کر رہا اور اگر ایسا ہے تو اس کا توڑ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے برکس مغرب ممالک کی اقتصادی اور سیاسی حکمت عملی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔
برکس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقابلے میں (این ڈی بی) نیو ڈویلپمنٹ بینک بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا ہیڈکوآرٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہے۔ بینک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بھارت سے لیا گیا۔ برکس بینک 2016سے فنڈز کی فراہمی شروع کرچکاہے۔ اس بینک کے مراکز جنوبی افریقہ ، بھارت، روس اور برازیل میں بھی ہیں۔ اس بینک کے قیام میں سابق بھارتی وزیر اعظم اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے ہی اس کا ورکنگ پیپر بنایا تھا۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک کب خواب غفلت سے اٹھیں گے۔ ہمارے دین نے تو غریب، نادار اور ضروتمندوں کے لیے اپنی ذاتی کمائی میں سے اڑھائی فیصد مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت المال اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریکٹس کے ذریعے اس مد سے اربوں روپے سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
دوسرے اسلامی ممالک میں کھربوں روپے اس طرح کی''کھیل تماشوں'' (معذرت کے ساتھ) میں صرف کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے پھر ہم کیوں دست نگر اور خوف زدہ ہیں۔ اہم بین الاقومی معاملات پر بھی مسلم امہ کو یک زبان نہیں کر سکے۔
مسلم امہ کا اتحاد اور ''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر'' کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کی طرز پر ایک اسلامک بینک بنانے پر آمادہ ہو ں گے۔ ورلڈ بینک اور برکس دونوں جو بھی قرضے دیں گے وہ یقینا سود کی بنیاد پر ہوں گے۔ ملت اسلامیہ کا نظریہ تو سودی کاروبار کے خلاف ہے پھر ہم اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتے۔ برکس عالمی گورننس کے مغربی نظریے کا متبادل نظریہ بھی پیش کرنے پر غور کر رہا ہے۔
جوہانسبرگ کو دنیا بھر میں سٹی آف گولڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر سونے کی تجارت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مرکز شمار کیا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر ہونے والی کانفرنس کے بعد برکس کے اعلامیہ اور فیصلوں نے امریکا اور مغربی ممالک کی معاشی حاکمیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ برکس کے پانچ ممبر ملک عالمی دولت کے ایک چوتھائی حصے کے مالک ہیں۔
جوہانسبرگ اجلاس نے متفقہ طور پر مزید چھ ممالک کو برکس کلب میں شرکت کی دعوت دی ہے، ان ممالک میں ایران، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ارجنٹائن اور ایتھوپیا شامل ہیں۔ نئے ممالک کی برکس رکنیت یکم جنوری 2024 سے نافذ العمل ہوگی۔ اس اجلاس سے دو درجن سے زائد ممالک نے برکس میں شمولیت کے لیے درخواست دی تھی لیکن صرف چھ ممالک کو رکنیت مل سکی۔
پاکستان بھی برکس میں شرکت کا ابتدا ہی سے خواہش مند ہے لیکن کئی وجوہات کی بنیاد پر اسے اب تک برکس کا باضابطہ ممبر نہیں بنایا گیا اور اس ممبرشپ کی راہ میں بھارت رکاوٹ ہے۔ برکس اجلاس میں 50 سے زیادہ ریاستوں نے بطور مبصر شرکت کی۔
برکس کا بنیادی تصور 2001 میں پیش کیا گیا۔ ابتدائی طور پر BRICS کا نام بھی ان پانچ ممالک کے پہلے حروف تہجی پر رکھا گیا ہے۔ B برازیل، Rروس ، Iانڈیا، C چین،Sسے ساؤتھ افریقہ کے پہلے حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کی شمولیت سے پہلے اس کا مجوزہ نام BRIC تھا۔ ابتداء میں ترقیاتی بینک کے لیے سرمایہ کا حجم 50 ارب ڈالر رکھا گیا ہے جسے بعد میں سو ارب ڈالر تک بڑھایا۔
سو ارب ڈالر کا ایک ایمرجنسی فنڈ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں چین 41 ارب ڈالر' بھارت، برازیل اور روس اٹھارہ ،اٹھارہ ارب ڈالر اور جنوبی افریقہ پانچ ارب ڈالر کا سرمایہ لگائے گا۔ نئے اقتصادی بلاک برکس کے رکن ممالک کی آبادی، دنیا کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہے۔ ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی پچیس فیصد ہے۔
برکس کے اجلاس میں یہ پانچ ممالک عالمی منظرنامے کا سالانہ جائزہ لیتے ہیں اور اپنی تجاویز اور اقدامات پیش کرتے ہیں، اس کے بعد جن معاملات پر اتفاق رائے ہو جائے اس پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ برکس کے ممبر ممالک عالمی منظرنامے میں درپیش چیلنجز پر سیرحاصل بحث کے بعد اتفاق رائے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیاں، دہشت گردی، بین الاقوامی سیکیورٹی اور مغربی ورلڈ آرڈر کے مقاصد کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔
امریکی اور مغربی ممالک کی جانب سے ان امور اور اس سے متعلقہ دوسرے امور پر جو حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے یہ ممالک اس کا جائزہ لے کر اس چیز کا احاطہ کرتے ہیں کہ کیا مغربی اور امریکی لائحہ عمل ہمارے خطے کے لیے مشکلات تو پیدا نہیں کر رہا اور اگر ایسا ہے تو اس کا توڑ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے برکس مغرب ممالک کی اقتصادی اور سیاسی حکمت عملی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔
برکس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقابلے میں (این ڈی بی) نیو ڈویلپمنٹ بینک بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بینک کا ہیڈکوآرٹر چین کے شہر شنگھائی میں ہے۔ بینک کا پہلا چیف ایگزیکٹو بھارت سے لیا گیا۔ برکس بینک 2016سے فنڈز کی فراہمی شروع کرچکاہے۔ اس بینک کے مراکز جنوبی افریقہ ، بھارت، روس اور برازیل میں بھی ہیں۔ اس بینک کے قیام میں سابق بھارتی وزیر اعظم اور ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے ہی اس کا ورکنگ پیپر بنایا تھا۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ممالک کب خواب غفلت سے اٹھیں گے۔ ہمارے دین نے تو غریب، نادار اور ضروتمندوں کے لیے اپنی ذاتی کمائی میں سے اڑھائی فیصد مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت المال اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریکٹس کے ذریعے اس مد سے اربوں روپے سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
دوسرے اسلامی ممالک میں کھربوں روپے اس طرح کی''کھیل تماشوں'' (معذرت کے ساتھ) میں صرف کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے پاس جس قسم کی افرادی قوت اور ذہانت موجود ہے وہ دنیا کے کم ہی ممالک کو حاصل ہے پھر ہم کیوں دست نگر اور خوف زدہ ہیں۔ اہم بین الاقومی معاملات پر بھی مسلم امہ کو یک زبان نہیں کر سکے۔
مسلم امہ کا اتحاد اور ''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر'' کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب او آئی سی اور دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران برکس کی طرز پر ایک اسلامک بینک بنانے پر آمادہ ہو ں گے۔ ورلڈ بینک اور برکس دونوں جو بھی قرضے دیں گے وہ یقینا سود کی بنیاد پر ہوں گے۔ ملت اسلامیہ کا نظریہ تو سودی کاروبار کے خلاف ہے پھر ہم اس جانب کیوں توجہ نہیں دیتے۔ برکس عالمی گورننس کے مغربی نظریے کا متبادل نظریہ بھی پیش کرنے پر غور کر رہا ہے۔