کے ٹو پہ زندگی اور موت کا کھیل

ایک حادثے نے انسانی زندگی میں بے حسی اور انسان دوستی کے متضاد جذبوں کو عجب طور سے نمایاں کر دیا

ایک حادثے نے انسانی زندگی میں بے حسی اور انسان دوستی کے متضاد جذبوں کو عجب طور سے نمایاں کر دیا ۔ فوٹو : انٹرنیٹ

تصّور کیجیے کہ موت لمحہ بہ لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔

آپ کی قیمتی زندگی بچانے والے جانے پہچانے انسان اردگرد موجود ہیں مگر وہ کچھ توجہ نہیں دیتے۔اور آپ خون جما دینے والے شدید سردی کی اذیت سہتے اور اپنے ساتھیوں کی بے حسی پہ ماتم کرتے آہستہ آہستہ موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

ایسی موت یقیناً الم ناک و خوفناک کہلائے گی۔یہ مگر کوئی تصّوراتی منظرنامہ نہیں بلکہ یہ افسوس ناک ماجرا کچھ عرصہ قبل ''قاتل پہاڑ ''...کے ٹو پر ظہور پذیر ہو چکا۔

٭٭

یہ جولائی 2023ء کا آخری ہفتہ ہے۔موسم خوشگوار ہوا تو دنیا کے کونے کونے سے پاکستان آئے نامی گرامی کوہ پیما دوسری بلند ترین عالمی چوٹی، کے ٹو پر چڑھنے کی تگ ودو میں مصروف ہو گئے۔

ان میں وہ مددگار بھی شامل ہیں جو سامان ڈھونے اور رسیاں لگانے و اکھاڑنے میں کوہ پیماؤں کی مدد کرتے ہیں۔انھیں عرف عام میں پورٹر کہا جاتا ہے۔انہی مددگاروں میں ایک پاکستانی ، 27 سالہ محمد حسن بھی شامل تھا۔

کے ٹو پہ اس کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا ، اس نے کچھ انسانوں کی بے حسی و پتھردلی نمایاں کی تو بعض کی انسان دوستی اور رحم دلی کو بھی اجاگر کیا۔ ساتھ ہی یہ واقعہ ماں اور بچے کی لازوال محبت کا انمٹ نقش بھی بن گیا۔

محمد حسن کا تعلق بلتستان میں واقع ایک گاؤں کے غریب گھرانے سے تھا۔گذر بسر کے لیے وہ مختلف کام کرتا تھا۔جب کوہ پیمائی کا موسم آتا تو وہ ملکی وغیرملکی کوہ پیماؤں کا مددگار بن جاتا اور چار پیسے کما لیتا۔تاہم وہ ان کے ساتھ صرف بیس کیمپ تک ہی جاتا جو عموماً کے ٹو پہ پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر بنایا جاتا ہے۔

وہاں سے کوہ پیما پھر 8611 میٹر پہاڑ پہ چڑھائی کا آغاز کرتے ہیں۔ اس بار مگر محمد حسن کوہ پیماؤں کے ساتھ چوٹی کی سمت چلا گیا۔وجہ یہ تھی کہ اس کی ماں ذیابیطس کی مریضہ ہے۔لہذا اس کے علاج کی خاطر کثیر رقم کی ضرورت تھی۔حسن ماں سے بہت پیار کرتا تھا۔ اسی کے لیے وہ چوٹی تک جانے کے لیے تیار ہوا اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔

آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پہ جانے والے انسان خصوصی ملبوسات پہنتے ہیں تاکہ شدید سردی سے محفوظ رہ سکیں۔یاد رہے ، اگر شدید سردی میں انسانی جسم کا کوئی حصہ ننگا رہے، تو وہ گل سڑ کر خراب ہو جاتا ہے۔حسن کے پاس ایسے مہنگے کپڑے نہیں تھے، پھر بھی وہ کوہ پیماؤں کے ساتھ ہو لیا۔

یہ بات باعث حیرت ہے کہ غیر ملکی کوہ پیماؤں نے زحمت ہی نہ کی کہ اپنے فاضل ملبوسات اس بیچارے پاکستانی مددگار کو دے دیتے۔یقیناًصرف اپنی ذات پہ توجہ دینے کی عادت نے انھیں محمد حسن کی ضرورت کو دیکھنے نہ دیا۔اور شاید خوددار حسن نے کسی سے خصوصی کپڑے مانگنا گوارا نہ کیا۔بہرحال یہ عمل اسے بہت مہنگا پڑ گیا۔

27 جولائی کی صبح 2:15 تک حسن دیگر کوہ پیماؤں کے ساتھ کے ٹو پہ 8200 میٹر کی بلندی تک پہنچ گیا۔قاتل پہاڑ کا یہ علاقہ ''بوٹل نیک''(Bottleneck)کہلاتا اور اس کا سب سے زیادہ خطرناک علاقہ سمجھا جاتا ہے۔دراصل اس جگہ ڈھلوان بہت زیادہ ہے، جبکہ اوپر گلیشیر سینہ تانے کھڑا ہے۔اسی لیے وہاں صرف رسیوں کی مدد سے ہی چلنا ممکن ہے۔اس جگہ برفشار(Avalanche) آنا بھی عام ہے جب برف اپنی جگہ سے سرک کر نیچے گرنے لگتی ہے۔

حادثہ پیش آ گیا

بدقستی سے ''بوٹل نیک'' پر محمد حسن کا پیر رپٹ گیا اور وہ اٹھارہ فٹ نیچے جا گرا۔ یہ معلوم نہیں کہ پیر رپٹنے کی کیا وجہ تھی؟کیا شدید ٹھنڈ سے اُس کی پیر سُن ہو گئے تھے؟ یا تھکن نے اِس حادثے کو جنم دیا؟بہرحال اگر حسن رسی سے بندھا نہ ہوتا تو لڑھک جاتا اور گہرائی میں گرکر اس کی موت واقع ہو جاتی۔رسی نے اسے روک لیا ۔ پھر بھی وہ وہاں پچاس منٹ تک الٹا لٹکا رہا۔دو تین کوہ پیماؤں نے بڑی مشکل سے اسے اوپر کھینچا اور راستے پہ لٹا دیا۔ان میں اس کا ایک پاکستانی مددگار دوست بھی شامل تھا۔

محمد حسن اب چلنے سے قاصر تھا۔شاید گر کر چٹان سے ٹکرانے کی وجہ سے اسے کوئی اندرونی چوٹ لگ گئی تھی۔حتی کہ وہ بولنے اور سننے کی حسّیں بھی کھو بیٹھا۔اس حادثے کے بعد ہونا یہ چاہیے تھا کہ دو تین کوہ پیما مل کر زخمی حسن کو اٹھاتے اور اسے نیچے لے آتے تاکہ اس کو طبی امداد دی جا سکے۔



مگر غیر ملکی کوہ پیماؤں نے جس قسم کی سنگ دلی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا، وہ ناقابل فراموش واقعہ بن گیا۔انسانی حقوق کا درس اور جانوروں کو تکلیف پہنچنے پہ دہائی دینے والے یورپی و امریکی ایک زخمی انسان کو پھلانگ کر اوپر جاتے رہے تاکہ چوٹی سر کر سکیں۔کسی نے اسے بچانے کی سعی نہ کی۔


بدقسمت حسن کا بس ایک دوست اس کا پاس بیٹھا رہا۔اس نے حسن کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔یوں تین بچوں کا باپ ایڑیاں رگڑتے کے ٹو پہ دم توڑ بیٹھا۔قاتل پہاڑ نے ایک اور انسان کی زندگی ہڑپ کر لی۔

یہ واقعہ شاید مقامی میڈیا تک ہی محدود رہتا مگر ایک ڈرون کیمرے کی فلم کے باعث وہ عالمی سطح پہ نمایاں ہو گیا۔ہوا یہ کہ اس دن جرمنی کا کوہ پیما ، فلپ فلیمنگ( Philip Flaemig)اپنے ڈرون کیمرے سے اپنی چڑھائی کی فلم بندی کر رہا تھا۔اس فلم میں چند بار زخمی حسن بھی دکھائی دیا جسے پھلانگتے ہوئے کوہ پیما گذر رہے تھے۔

فلپ فلیمنگ کے ساتھ اس کا دوست آسٹروی کوہ پیما، ولہلم سٹینڈل (Wilhelm Steindl) بھی کے ٹو پہ گیا تھا۔''بوٹل نیک'' پر جب انھوں نے دیکھا کہ برفشار آنے کا امکان ہے تو کوئی خطرہ مول نہیں لیا اور واپس بیس کیمپ آ گئے۔

وہاں ڈرون کیمرے کی فلم دیکھی تو انھیں زخمی حسن کے حادثے کی سنگینی کا احساس ہوا۔حسن کی فلم صبح ساڑھے پانچ بجے فلمائی گئی تھی۔اور تب وہ زندہ تھا کیونکہ فلم میں وہ ٹانگ ہلاتا دکھائی دیتا ہے۔

اکلوتا کماؤ پوت

حسن مگر اس کے بعد چل بسا۔ اس کی لاش وہیں ''بوٹل نیک'' میں چھوڑ دی گئی کیونکہ کوئی بھی غیرملکی کوہ پیما مقتول کے دوست پاکستانی پورٹر کی مدد کرنے کو تیار نہ تھا۔اور وہ تنہا لاش نیچے نہیں لا سکتا تھا۔جب فلپ فلیمنگ اور ولہلم سٹینڈل کو معلوم ہوا کہ حسن چل بسا ہے تو انھیں بہت تکلیف ہوئی۔وہ مقتول کے گھر گئے اور اس کی والدہ، بیوی اور بچوں سے ملے۔

انھیں احساس ہوا کہ وہ بڑی کسمپرسی اور غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔حسن ہی گھر کا اکلوتا کماؤ پوت تھا۔ اب خواتین کو بڑی پریشانی لاحق تھی کہ گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟

فلپ فلیمنگ اور ولہلم سٹینڈل نے ساتھی کوہ پیماؤں سے چندہ جمع کیا، خود بھی رقم ڈالی اور سارے پیسے حسن کی والدہ کو دے دئیے۔

یہی نہیں ولہلم سٹینڈل نے گو فنڈکام (gofundme.com) پر حسن کے گھرانے کی خاطر رقم جمع کرنے کی خاطر ایک پیج بنایا۔دنیا بھر کے لوگوں نے چندہ دیا اور یوں ثابت کر دیا کہ زمین ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی۔تاحال بیکس ومجبور گھرانے کے لیے ایک لاکھ بتیس ہزار یورو سے زائد رقم جمع ہو چکی۔یہ سرمایہ بیٹے، شوہر اور باپ کا نعم البدل ہرگز نہیں مگر دادی اور بیوہ کو اس قابل ضرور بنا دے گا کہ وہ عزت واحترام سے زندگی گذار سکیں، بچوں کی اچھی پرورش کریں اور دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں۔

ریکارڈ بنانے کا جنون

محمد حسن کی نہایت المناک طریقے سے موت نے ولہلم سٹینڈل پہ بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔یورپ واپس پہنچ کر وہ بے حس مغربی کوہ پیماؤں پہ برس پڑا۔اس نے یورپی پریس کو بتایا:''جب ہم نیچے پہنچے اور ہم نے ڈرون کیمرے کی فلم دیکھی تو ہم پہ افشا ہوا کہ پاکستانی پورٹر (حسن)زخمی حالت میں راستے پر لیٹا ہے۔

جبکہ سبھی کوہ پیما اسے پھلانگتے، نظرانداز کرتے آگے بڑھتے رہے۔حالانکہ صرف تین لوگ اسے پیس کیمپ لے جانے کے لیے کافی تھے۔

''یہ نہایت پریشان کن اور صدمہ انگیز بات ہے کہ کوہ پیماؤں نے ریکارڈ بنانے کے جنون میں ایک قیمتی انسانی جان کی پروا نہ کی اور اس کو بے یارومددگار مرنے چھوڑ دیا۔حالانکہ تم کوہ پیما چڑھائی سے قبل یہ حلف لیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کریں گے۔

اگر ایسا واقعہ الپس (یورپی پہاڑی سلسلے)میں پیش آتا اور کوئی مغربی باشندہ زخمی ہوتا تو اس کی مدد کے لیے ساری مشینری حرکت میں آ جاتی۔''گویا ولہلم سٹینڈل کا استدلال یہ ہے کہ اگر کے ٹو پہ کوئی مغربی کوہ پیما زخمی ہوتا تو فورا اسے بیس کیمپ پہنچانے کے انتظامات شروع کر دئیے جاتے۔محمد حسن چونکہ ایک غریب مسکن پاکستانی تھا لہذا اسے حقیر و معمولی سمجھ کر اس کی زندگی بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش انجام نہیں پائی۔

یہ دردناک واقعہ گویا دو متضاد انسانی جذبات نمایاں کر گیا۔ایک طرف وہ بے حس انسان تھے جنھوں نے زخمی محمد حسن کی مدد کرنے کے بجائے ذاتی خواہشات پوری کرنے کو ترجیح دی۔دوسری طرف ولہلم سٹینڈل اور فلپ فلیمنگ جیسے اجنبی ہیں جو حسن کی موت پہ نہایت رنجیدہ ہوئے۔انھوں نے بھر بیوہ اور مقتول کے تین بچوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوششیں کیں۔ایسے ہی ہمدرد انسانوں کی بدولت زمین پر نیکی و بھلائی کا وجود قائم ودائم ہے۔

یہ واقعہ اس لیے بھی بین الاقوامی سطح پہ نمایاں ہوا کہ 27 جولائی کو ناروے کی کوہ پیما،کرسٹین ہارلیا (Kristin Harila) بھی کے ٹو کی چوٹی کی سمت رواں دواں تھی۔ اور وہ بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حسن کو پھلانگتی چوٹی تک جا پہنچی۔یوں وہ مختصر ترین وقت (تین ماہ ایک دن)میں دنیا کی بلند ترین چودہ چوٹیاں سر کرنے والی پہلی کوہ پیما بن گئی۔ اس سفر میں کے ٹو آخری چوٹی تھی جو کرسٹین کے کارنامے میں حائل تھی۔

یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو ناروژی کوہ پیما کو حاصل ہوا۔مگر اسے پانے کی خاطر اسے ایک زخمی انسان کو نظرانداز کرنا پڑا جو جان کنی کی جاں لیوا کیفیت میں گرفتار تھا۔ وہ چاہتی تو اپنے پورٹروں کو کہہ سکتی تھی کہ وہ حسن کو نیچے لے جائیں مگر کرسٹین ہارلیا نے چڑھائی جاری رکھنے کو ترجیح دی۔اسی غیر انسانی جذبے نے اس کے کارنامے کو دھندلا کر رکھ دیا۔عالمی سطح پہ کرسٹین ہارلیا کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

کرسٹین ہارلیانے بیس کیمپ واپس پہنچ کر اپنی کامیابی کی خوشی میں ایک بڑی پارٹی کا اہتمام کیا۔اس میں ولہلم سٹینڈل بھی مدعو تھا مگر وہ نہیں گیا۔کہتا ہے:''میں اس تقریب میں شریک نہیں ہوا۔مجھے یہ سب بہت ٖغیرانسانی محسوس ہوا۔درحقیقت اس طرح انسانیت کی تذلیل کی گئی۔انھوں نے اپنا ریکارڈ بنانے کے لیے ایک زندہ انسان کو مرتا چھوڑ دیا۔کیا کوئی باشعور اور حساس انسان ایسا عمل انجام دے سکتا ہے؟''
Load Next Story