دُمانی کے دامن میں

 برف کی سفیدی سر ڈھانپے راکاپوشی اور الہڑ اور شوخ دیران پیک

آسمان کو چھوتے کوہساروں کے حُسن اور ہیبت کی کہانی سُناتا سفرنامہ ۔ فوٹو : فائل

(پہلی قسط)

چند سال پہلے کی بات ہے جب پنجاب کے ایک کونے میں صحرائی علاقے کے ایک شخص کی پہاڑوں سے محبت نے جوش مارا تو اس نے اپنے ملک میں موجود اپنی پسندیدہ پہاڑی چوٹیوں کو قریب سے دیکھنے کی ٹھانی کیوںکہ انہیں سر کرنا شاید اس کے بس میں نہ تھا۔

قاتل حسینہ عرف مرشد یعنی ''نانگا پربت'' اس لسٹ میں پہلے استھان پر براجمان تھے سو کسی تیرتھ یاترا کی طرح کڑی تپسیا کے بعد اس تک پہنچا گیا۔ جب دوسرا نمبر دمانی یعنی قراقرم کے تاج محل کا آیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بار اسے ایک نہیں دو پربتوں کی آغوش میں جگہ ملے گی۔

ایک برف کے سفید برقعے میں سر ڈھانپے راکاپوشی

اور دوسری الہڑ اور شوخ دیران پیک

ابتدا ہوئی بے وفاؤں سے وفا کی امید لگانے سے، یعنی کسی ایسے دوست کو ڈھونڈنے کی جو اس سفر میں ہمارا ہم سفر و ہم پیالہ بن سکتا لیکن۔۔۔۔حیف۔

دلِ ناداں نے سوچا کہ کسی کے آنے یا نہ آنے سے اپنا من کیوں ماروں سو ''اْٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے'' کے مصداق تیاری شروع کردی۔

مِناپن میں اپنے دوست سلمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ ٹریک کروانے کی حامی بھر لی اور جون میں آنے کا کہا۔ سو جون تک صبر کیا، کام کیا تاکہ چھٹیاں لی جا سکیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے 30 جون آ پہنچا جب عید کے دوسرے دن مابدولت بارہ گھنٹے کی ایمرجینسی ڈیوٹی بھگتا کہ تھکے ہارے سامان سمیت لاری اڈے جا پہنچے۔

آپ کو سب کچھ بہت سیدھا لگ رہا ہے ناں، لیکن ٹھہریے۔۔۔!

کچھ مرشد اپنے مریدین سے خراج بھی وصول کرتے ہیں، ہم سے بھی کیا گیا، اور ہم نے یہ خراج ادا کیا۔ اور ایسا دیا کہ گھر پہنچنے تک یہ سفر ہم سے کچھ نہ کچھ قربانی مانگتا رہا۔ بس آنے کے ٹائم پر معلوم ہوا کہ جس بس کو نکلنا تھا وہ تو خراب ہے اور ابھی ورکشاپ میں اپنا میک اپ کروا رہی ہے۔ اب؟؟ اب یہ کہ بھاگم بھاگ باقی جگہوں سے پوچھا، لیکن شہرِاقتدار کو جانے کے لیے کوئی بس میسر نہیں تھی۔ کل کی ٹکٹ بھی کروا چکا تھا ہنزہ کے لیے۔ اللہ پاک نے ایک اور موقع دیا اور مجھے کھاریاں کی بس مل گئی کہ پنڈی سے کچھ ہی دور تو ہے۔ سوتے جاگتے صبح سویرے بس نے کھاریاں پہنچا دیا۔

اب کیا کیا جائے؟؟؟؟ منہ ہاتھ دھونے کے بعد سوچا۔ جو ملتا ہے اللہ کا نام لے کہ سوار ہو جا، اندر سے آواز آئی۔ اب اس وقت کوئی لگژری بس تو ملنے سے رہی، سو پنڈی جانے والی ویگن کی آخری سیٹ پر تین لوگوں میں پھنس کے بیٹھنا پڑا۔

جی ٹی روڈ اور ڈرائیور دونوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ میری نیند نہیں پوری ہونے دینی سو جہاں مابدولت کی آنکھ لگتی حضرت ڈرائیور کہیں کوئی گڈھا ڈھونڈ کر اس میں گاڑی گُھسا دیتے۔ دھم کی آواز آتی اور ہم اٹھ بیٹھتے۔ اللہ اللہ کر کے بس نے ہمیں روات اتار دیا۔



اب آگے میزبان کے گھر کیسے جایا جائے، عید کا تیسرا دن اور کسی گاڑی ٹیکسی کا وجود نہیں۔ دوست کو کال کر کے بلانے میں جھجھک محسوس ہوئی، معلوم تھا کہ وہ سو رہا ہوگا۔ مجبوراً دھوپ میں اپنا سامان لے کر بیس منٹ بعد اپنے دوست معاذ کے گھر پہنچا اور تین چار کالز کے بعد اسے جگایا۔ بھئی اب ہم سحرخیز ہیں تو اس میں ہماری کیا غلطی ہوئی۔ معاذ کی والدہ (جن سے ہماری کافی دوستی ہے) سے مل کر ڈھیر ساری باتیں کیں تو ذہنی تھکن اتر گئی۔ جسمانی تھکن بھی تو اتارنی تھی سو جب تک نیند قسمت میں لکھی تھی تب تک پلنگ توڑتے رہے۔ عموماً مجھے سفر کے بیچ کہیں زیادہ نیند نہیں آتی، بس دو ڈھائی گھنٹے بعد ہم انگڑائی لے کر بیدار ہوئے اور پھر سے باتوں میں لگ گئے۔

اتنے میں ہمارے دوست سلمان حیدر خان کی کال آئی: شاہ جی! ایک دوست کراچی سے آئے ہیں جنہوں نے راکاپوشی سے آگے دیران پیک بیس کیمپ اور کچیلی لیک تک جانا ہے، آپ ساتھ چلنا چاہیں گے؟ اچانک پلان میں تبدیلی کا سن کر پہلے تو خود کو کول ڈاؤن کیا اور کچھ وقت مانگا۔ فوراً کیلینڈر کھول کر تاریخیں اور دن دیکھے کہ کتنے دنوں کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ چوںکہ دیران میں ایک ڈیڑھ دن اضافی درکار تھا سو سلمان سے بنیادی معلومات لے کر جھٹ سے ہاں کہہ دی۔ لیکن اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا یہ فیصلہ آگے چل کہ مجھے کتنا خوار کرے گا۔

خیر، اب راکاپوشی جائیں اور خواری نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ آنٹی فرحت کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو کر ہم اس فیملی کے ساتھ بس اڈے چل دیے۔ اسلام آباد کے ہمارے کچھ جاننے والوں میں یہ چھوٹی سی خوب صورت فیملی بھی ہے جنہیں میں گذشتہ دو دہائیوں سے جانتا ہوں اور ان کے خلوص کا قائل ہوں۔

اب بس اڈے پر پہنچ کے بس کا انتظار شروع ہوا۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں گھوم گھوم کر آخر نو بجے بس آ گئی جو ساڑھے نو اسلام آباد روانہ ہوئی۔ اب ایک اور امتحان، یہاں سب سے آگے کی سیٹ ہماری تھی جس کے نیچے بڑا سا جنگلا لگا تھا۔ اب ہماری لمبی ٹانگیں اس پر پھیلیں تو کیسے؟ جن حضرات کو یہ مسئلہ درپیش ہو چکا ہے وہ اس کی نزاکت کو سمجھ سکتے ہوں گے۔ اتنا لمبا سفر کوئی اس سیٹ پر نہیں کر سکتا تھا۔

دو گھنٹے بعد جب مانسہرہ کے قریب بس ایک ہوٹل پر رات کے کھانے کے لیے رکی تو ہم نے فوراً کنڈکٹر سے جا کر یہ مسئلہ بیان کیا، پیچھے ایک خالی بچی ہوئی سیٹ ہمیں نواز دی گئی۔ اتنے میں بس میں بیٹھی ایک خاتون غصے سے ڈرائیور کو تڑی لگا چکی تھیں کہ وہ بس بہت خطرناک طریقے سے چلا رہا ہے، اگر اس نے بس ایسے ہی چلائی تو وہ اس کی شکایت حکام بالا تک پہنچا دے گی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ آگے بس بہت آرام و سکون سے چلائی گئی جس سے ہمارا سفر اور بڑھ گیا۔

الحمدلِلہ پڑھ کر جب دوبارہ بس میں سوار ہوئے تو کیا دیکھا، ہمارے ساتھ کی سیٹ پر ایک اچھے خاصے فربہ مائل پٹھان دوست تھے جن سے اپنے حصے کی جگہ وصول کرنا بھی ایک اچھی خاصی اذیت تھی۔ اس سے یہ سبق ملا کہ کبھی بھی آگے والی سیٹ بک نہ کروائیں اور کوشش کریں کہ ونڈوسیٹ پر بیٹھیں۔

ہزارہ موٹروے پر سفر شروع ہوا تو نیند کے جھونکے آنے لگے۔ یہ موٹروے بھی کیا خوب صورت بنائی گئی ہے، پتا بھی نہیں چلتا اور آپ کو حویلیاں سے بشام لا پھینکتی ہے۔ بشام سے آگے قراقرم ہائی وے پر بس پہنچی تو جھٹکوں سے آنکھ کھلی اور اندازہ ہو گیا کہ بس اب ہمارا امتحان شروع ہے۔

اگرچہ بشام سے چلاس تک یہ سڑک کافی جگہوں پر اچھی بنی ہوئی ہے لیکن یہاں اتنے موڑ ہیں کہ بس کی اچھل کود سے بندہ بمشکل ہی سو پاتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی سائیٹ سے گزرے تو بہت خوشی ہوئی کہ کام زورشور سے جاری تھا اور یہاں کام کرنے والوں کے لیے حکومت نے جنگل میں منگل کر رکھا تھا۔ صبح ناشتے کے لیے ہم چلاس رکے شاہ جی ہوٹل پر رکے، جس کے بالکل سامنے ہی وہ ہوٹل تھا جہاں میں نے اپنے گذشتہ سفر میں قیام کیا تھا۔ یہاں سے بس نکلی تو رینگتی رینگتی رائے کوٹ پل تک پہنچی جہاں حسرت سے نگاہ اٹھا کر میں نے فیری میڈوز کو جاتے راستے کو دیکھا جو گذشتہ سال میری منزل تھا۔

منزلیں بدلتی ہیں اور ساتھ راستے بھی، یہی تو زندگی کا دستور ہے۔

اللہ اللہ کر کے بس نے ہمیں ساڑھے گیارہ بجے کے قریب گلگت پہنچایا، جہاں تازہ دم ہو کر خود کو آنے والے سفر کے لیے تیار کیا۔ گلگت سے نکلتے ہی کچھ آگے جا کر بس نے ''جگلٹ گورو'' کے مقام پر بریک لگایا۔ یہاں جگہ جگہ روایتی پکوان چھپ شورو بنایا جا رہا تھا۔ بھوک بھی لگی تھی اور روایتی کھانے بھی سامنے تھے جھٹ سے ایک چھپ شورو(اسے کچھ لوگ شاپ شورو بھی لکھتے ہیں) اندر کرلیا۔ کچھ آگے جائزہ لینے گیا تو آلو کے لال چپس کے ساتھ ''ممتو'' (موموز) نظر آئے جو مجھے شروع سے ہی پسند تھے۔ سو آدھا درجن ممتو بھی ڈکار لیے (حیران مت ہوں، مابدولت کب سے بھوکے تھے)، چلو یہاں لنچ سے تو فراغت ہوئی۔

ایک اور بات بتاتا چلوں کہ قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ نام کی تین جگہیں ہیں۔ پہلا بونجی کے پاس جہاں سے اسکردو کو راستہ نکلتا ہے، دوسری یہ جگلوٹ گورو جہاں میں کھڑا تھا اور تیسرا اس سے کچھ آگے جگلوٹ نالے کے پاس۔ چند مقامیوں سے ایک ہی نام کی تین جگہیں ہونے کی وجہ پوچھی تو کسی نے تسلی بخش جواب نہ دیا۔ شاید یہ نام یہاں کے باسیوں کو زیادہ پسند ہوگا۔



یہاں سے نکل کر ہم دو ڈھائی بجے راکاپوشی ویو پوائنٹ اترے جہاں سلمان بھائی اپنی گاڑی پر ہمیں لینے آن پہنچے۔ بہت پیار سے ملے اور اپنے دوست وجیہہ قریشی سے بھی ملوایا جو ہمارے اس پورے سفر میں ہم سفر بھی تھے۔

مناپن میں ہمارا قیام ''دی کیسل ہوٹل'' میں تھا۔ تھکے ہارے ہم دونوں جاتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگئے اور ڈیڑھ دن کی نیند پوری کی۔ شام کو تازہ دم ہو کہ جب میں کمرے سے باہر نکلا تو اس جگہ کی خوب صورتی دیکھ دل خوش ہو گیا۔ پکی ہوئی خوبانی سے لدے درختوں سے گِھرا یہ ہوٹل دریائے مناپن کے کنارے واقع تھا جہاں ایک اونچی جگہ دھنک رنگوں کے تخت پوش سے مزین لکڑی کا خوب صورت تخت پوش رکھا تھا جس کے بالکل سامنے دریا کے پار، نگر کے چٹیل پہاڑ تھے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے، دریا کی شوریدہ موسیقی کو سنتے سنتے میں ان پہاڑوں کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو ہم باتیں کرتے کرتے اندر آ گئے۔

گھر فون کر کے خیریت کی اطلاع دی اور اپنے آنے والے سفر کے دوست وجیہہ سے گپ شپ میں لگ گیا۔

ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ کیا چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، راستہ یا منزل؟ دانا شخص بولا: تمہارا ہم سفر۔ اسی قول کے مصداق میں نے وجیہہ سے دوستانہ تعلق استوار کر لیا جس میں چنداں مشکل نہ ہوئی کہ یہ شخص خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ میچور بھی تھا۔

رات کو دریا کنارے اہتمام سے ڈنر لگا دیا گیا جس کے بعد ہم نے ایک چکر اسرار بھائی کے مشہور ہوٹل اوشو تھنگ کا لگایا، مارکیٹ سے ٹریکنگ کے لیے خشک خوبانی و دیگر لوازمات خریدے اور واپس اپنے ہوٹل آگئے۔


سلمان کی کہانیاں اور مناپن کا ڈیم

3 جولائی بروز سوموار صبح سویرے بیدار ہو کر گرم پانی سے غسل کیا جس سے بچی کھچی تھکن بھی اُڑ گئی۔ وہیں تخت پر ناشتہ سرو کیا گیا۔ ٹریکنگ کو دھیان میں رکھتے ہوئے میں نے پراٹھوں سے پرہیز کیا اور تین ٹوسٹ کے ساتھ ہلکے تیل میں بنے فرائی انڈے کو ترجیح دی۔ یاد رکھیں، ٹریکنگ کے دوران ہلکا پھلکا اور کم تیل یا گھی والا ناشتہ کرکے نکلیں البتہ راستے کے لیے پانی، جوس، بسکٹ اور چاکلیٹ جیسی چیزیں ساتھ ہونا لازمی ہیں۔

ٹھیک چھے چالیس پر ہم ہوٹل سے نکلے اور اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ آگے جا کر ہمیں نعیم مل گیا، نعیم ہمارا پورٹر تھا جسے سامان لے کر کچھ دیر بعد نکلنا تھا۔

مناپن سے نکلتے ہی دریائے مناپن پر بنایا گیا دو میگا واٹ کا ''اِل پاور پروجیکٹ'' یا ڈیم ہمارے سامنے آ گیا۔ اوپر سے آنے والے تیز پانیوں سے یہ ڈیم بھرا جاتا ہے جس سے بنائی جانے والی بجلی نیچے تک سپلائی کی جاتی ہے۔ سلمان نے ہی بتایا کہ مناپن کے قریبی علاقوں کو بجلی یہیں سے فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہمارا اصل ٹریک شروع ہوا۔ مناپن گاؤں سے ہاپاکُن تک لگ بھگ چار ساڑھے چار گھنٹوں کا ٹریک ہے (جسے پہاڑی لوگ دو گھنٹے میں آرام سے کر لیتے ہیں) جسے میں نے تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ پہلا حصہ ایک زِک زیک چوڑے اور پتھریلے ٹریک پر مشتمل ہے جو تقریباً ایک سوا ایک گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ دوسرا حصہ قدرے ہموار ہے جہاں آپ کو درخت اور نالے ملیں گے جب کہ آخری حصہ چڑھائی ہے جو بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔

اس ٹریک کے دوران ہمارے گائیڈ اور دوست سلمان حیدر خان سے بہت سی باتیں ہوئیں اور انہوں نے اپنی شادی کی روداد سنائی۔ نوجوان سلمان حیدر خان کا تعلق میرے ہمسائے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سے ہے اور ہم ایک دوسرے کو ایک ادبی گروپ کے توسط سے کئی سال پہلے سے جانتے تھے۔ ایک پس ماندہ علاقے کی روایتوں کو پسِ پشت ڈال کر سلمان نے مناپن کو اپنا ٹھکانا بنایا اور یہیں پر اپنی جیسی ایک سیاح سے شادی کی جو اپنے آپ میں ایک دلیرانہ قدم تھا۔ اب وہ اور ہماری بھابھی مساء (جن کا تعلق سندھ سے ہے) یہاں ہنسی خوشی سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں اور ہم ایسوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

بنگی داس اور دِلتر؛

اتنے میں چلتے چلتے ہم ''بنگی داس'' پہنچ گئے جو ایک چراگاہ کا قطعہ ہے۔ یہاں چرواہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنا رکھی ہیں۔ ہاپاکن کے راستے میں یہ آخری آبادی نما علاقہ ہے جہاں تک بائیک پر بھی آیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک درخت کے سائے میں نالے کے ساتھ ہم سستانے لیٹے تو سلمان نے ہمیں دِلتر کا بتایا اور پلایا۔

دِلتر یہاں کی دیسی لسی ہے جسے ٹریکرز کے لیے انرجی ڈرنک کا متبادل کہا جاتا ہے۔ یہ بھیڑ کا تازہ اور گاڑھا دودھ ہوتا ہے جس کا ذائقہ کھٹا اور نمکین سا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں لسی کا شاید ایک یا دو گھونٹ پیے ہوں لیکن ٹریکنگ کی وجہ سے میں آدھے سے زیادہ مگ پی گیا، بقیہ میں نے سلمان کو دے دیا۔

چلتے چلتے ہم ٹھیک سوا چار گھنٹے بعد ہاپاکن کیمپ سائیٹ پہنچ گئے جسے دیکھ کر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ہم جوتے اتار کہ ایک کھلے سے ٹینٹ میں بیٹھ گئے۔

ہپاکُن یا ہاپاکُن ایک خوب صورت سی سرسبز جگہ ہے جہاں لگے سفید رنگ کے خیمے اُزبک چرواہوں کے گھروں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس جگہ سیاحوں کے لیے ایک ہی باتھ روم ہے جس کا دروازہ ہوا سے ایسے بجتا ہے کہ انسان کی نظریں بس اسی پر جمی رہیں۔ یہاں ہم نے چائے نوش کی اور ٹھنڈے ٹھار پانی سے منہ دھویا۔ اس کے بعد گرما گرم سوپی میگی نوڈلز پیش کیے گئے۔ ایک گھنٹہ خیمے میں لیٹنے کے بعد ظہر کی نماز پڑھی اور ٹھیک ڈیڑھ بجے تغافری کے لیے اپنا سفر شروع کیا۔

ہپاکُن سے تغافری؛

''تغافری''، راکاپوشی بیس کیمپ کا مقامی نام ہے جسے سن کہ مجھے کوہ قاف کے کسی پہاڑی درے کا گمان ہوا۔ دور دراز کے علاقوں میں مقامی نام بھی کتنے منفرد، پیارے اور یادگار ہوتے ہیں ناں۔ ہپاکُن سے تغافری کا ٹریک لگ بھگ دو سوا دو گھنٹوں کا ہے جس میں پہلے ایک طویل چڑھائی ہے، پھر کچھ ہموار اور پتھریلا میدان ہے اور آخر میں درمیانے درجے کی ایک اور چڑھائی ہے۔ پورا ٹریک درختوں اور جڑی بوٹیوں سے گھرا ہے جسے کرتے ہوئے آپ بور نہیں ہوں گے۔ ہم چوںکہ ہپاکن کا ٹریک کر کہ فارم میں آ چکے تھے سو یہ ٹریک زیادہ مشکل محسوس نہ ہوا اور لگ بھگ دو گھنٹے بعد ہم ''چوکرین'' پہنچ گئے۔

چوکرین راکاپوشی کا ویو پوائنٹ بھی کہلاتا ہے جہاں سے راکاپوشی، ہپاکن، دیران، مناپن گلیشیئر اور اس سے متصل برف کی دیوار (آئس وال) کا بھر پور نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہیں سے ایک پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت سا راستہ آْپ کو تغافری پہنچا دیتا ہے جہاں مقامی لوگ ہمیں روزمرہ کے کام کاج کرتے نظر آ جاتے ہیں۔

قراقرم کا تاج محل؛

تغافری پہنچنے کے بعد میں نے اپنا سامان رکھا، میگی سے دو دو ہاتھ کیے اور پربتوں کی اس دیوی کو نظر بھر کر دیکھنے بیٹھ گیا جس کے لیے میں اتنی دور سے یہاں پہنچا تھا۔ سرسبز میدان، بیچ میں سانپ کی طرح بل کھاتا ٹھنڈے پانی کا ایک نالہ، دوردور ایستادہ چار پانچ خیمے، ایک پتھر کا کچن و باتھ روم اور پس منظر میں دور تک پھیلی برف کی دیوار، بس یہی تھا تگافری۔ بس۔۔۔۔؟ ارے جب دُمانی اتنے قریب سے نظر آ رہا ہوتو اور کیا چاہیے۔

آج سے کئی سال پہلے جب میں میڈیکل کالج میں تھا تو میری والدہ نے مجھے نمرہ احمد کے ناول ''قراقرم کا تاج محل'' کا بتایا۔ یہ ناول راکاپوشی پر لکھا گیا تھا۔ چوںکہ مجھے ادب اور سیاحت دونوں سے لگاؤ تھا سو فوراً یہ ناول خرید کہ پڑھ ڈالا۔ مجھے یاد ہے اسے پڑھنے کے بعد کئی دن تک میں راکاپوشی کے عشق میں مبتلا رہاتھا۔ بار بار گوگل پر اس پہاڑ کی تصاویر نکال کر دیکھتا رہتا تھا۔ اس وقت شاید ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال تھا، کہ موقع ملا تو اس کے سامنے جا کر اسے سلام کروں گا۔ اس ناول نے میرے شوق کو نہ صرف بھڑکایا بلکہ اس کی کچھ لائنیں میرے اندر تک سرایت کرگئیں جن کی وجہ سے چلتے چلتے ایک شخص صحرا سے اس برف زار تک پہنچ گیا۔

شام ڈھلے چکن کڑاہی اور پیزا کی شکل میں کاٹی گئی تکونی چپاتیاں ہمارے سامنے رکھ دی گئیں۔ کھانے سے انصاف کر کے میں اپنے خیمے میں آ گیا کیوںکہ مجھے کل کے لیے خود کو تیار کرنا تھا۔

رات کسی پہر مجھے گھٹنے میں درد کا احساس ہوا تو آنکھ کھل گئی، یہ درد مجھے اپنے ''وادی سرن'' کے گذشتہ ٹور سے ملا تھا جو اب پھر جاگ رہا تھا۔ پریشانی سی ہوئی کہ کل گلیشیئر پر ٹریک کر پاؤں گا یا نہیں؟ پھر ایک اور سوچ در آئی کہ اس درد کے ساتھ مجھے آگے کا ٹریک کرنا چاہیے یا نہیں؟ یہ فیصلہ صبح پر چھوڑ دیا۔

کروٹیں بدلتے بدلتے پھر نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہوگئی۔

صبح اٹھ کر میں خیموں سے ذرا دور اس طرف نکل آیا جہاں راکاپوشی کا ''برفانی معبد'' بالکل میرے سامنے تھا۔

ہیبت تو نظر نہیں آئی البتہ حُسن اپنے جوبن پہ تھا۔ پربتوں کی دیوی کو ذرا جھک کر سلام کیا۔ برف سے ڈھکی اس چوٹی کو کیسے خراجِ تحسین پیش کرو گے؟ بائیں پہلو سے آواز آئی۔ کیوں ہر بار خراجِ تحسین پیش کرنا ضروری ہوتا ہے کیا؟ مالک کی اس تخلیق کے لیے یہی خراجِ تحسین ہے کہ اسے بس جی بھر کے دیکھا جائے، اور دیکھا جائے، اور دیکھا جائے۔ لیکن اس معبد کو ابھی مجھ سے میری چاہت کا خراج وصول کرنا تھا۔

چلتے چلتے واپس کیمپ سائیٹ پر آیا۔ سب ابھی سو رہے تھے۔ گھٹنے کا درد کچھ کم ضرور ہوا تھا لیکن اپنی جگہ موجود تھا۔ اتنی دور آکر میں ایسے واپس نہیں جا سکتا تھا۔ مجھے دیران تک جانا تھا، کچیلی جھیل دیکھنی تھی سو سر اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا اور اپنے اللہ سے ہمت مانگی۔ شاید وہ قبولیت کا وقت تھا۔دمانی سے دیران تک؛

4 جولائی بروز منگل کی صبح نرم دھوپ کے ساتھ آئی تھی سو ہمارے لیے یہ ایک خوشی کی خبر تھی۔ سلمان نے کہا کہ آج آرام سے نکلیں گے۔ راکاپوشی کے سامنے بیٹھ کر زبردست سا ناشتہ کیا جس میں ہلکے پھلکے پراٹھے، آملیٹ، چائے اور نگر کا بنا ہوا خاص چیری کا جیم شامل تھا۔ ناشتے کے بعد پورٹرز نے سامان کو اچھے طریقے سے پیک کیا جس میں ہمارے بیگز کے علاوہ ایک پریشر کُکر، چھوٹا گیس سلنڈر اور کیمپنگ کا سامان شامل تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ اونچائی پر گوشت عام برتنوں میں نہیں پکایا جاتا، اسے گلانے کے لیے پریشر کُکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لگ بھگ دس بجے ہم نے اپنا سفر شروع کیا۔ اس سفر میں میرے، سلمان، وجیہ اور نعیم کے علاوہ دو نئے ہم سفر بھی شامل ہوئے تھے۔ ایک نوجوان پورٹر مہدی، جب کہ دوسرا ہمارے احباب کا ہنزہ سے لایا گیا کُتا، کُبرو۔

چھے جان داروں پر مشتمل اس قافلے نے اپنا سفر شروع کیا۔

ایک بھرپور اونچائی اور اترائی کے بعد پتھروں کا انبار ہمارے سامنے تھا جس سے بڑی احتیاط سے گزرنا تھا۔ بڑے، چھوٹے، نوکیلے، چپٹے ہر قسم کے پتھر تھے، بس صحیح جگہ قدم رکھ کر چلتے جانا تھا۔

ٹریکنگ اور زندگی؛

یہاں میں یہ بتادوں کہ ٹریکنگ کرنا بالکل بھی سادہ کام نہیں ہے۔ آپ کو ٹریک کے حساب سے خود کو مینیج کرنا پڑتا ہے۔ ٹریک کی پوری معلومات حاصل کر کے نکلنا ہوتا ہے۔ ٹریک کی ساخت کے حساب سے اپنی رفتار کم زیادہ کرنی ہوتی ہے، سانس کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، پانی کا استعمال کم کرنا ہوتا ہے۔ پتھریلا ٹریک ہے تو دیکھ بھال کر مضبوط پتھروں پر قدم رکھنے ہوتے ہیں۔ چراگاہ یا میدان ہے تو رفتار کچھ تیز کر کے وقت بچانا ہوتا ہے۔ برف ہے تو کریوز کا خیال رکھ کر چلنا ہوتا ہے اور چلتے وقت اپنی ٹریکنگ اسٹک کو آگے کی طرف رکھ کر راستے کی مضبوطی کو جانچنا ہوتا ہے۔ چڑھائی یا اترائی ہے تو اسے مختلف ٹکڑوں میں پار کرنا ہوتا ہے۔

مشکل اور ڈھلوانی جگہ کے حساب سے بہترین اور اچھی گرِپ والے جوتے رکھنے ہوتے ہیں۔ غرض ٹریکنگ بھی آپ کی زندگی کی طرح ہے جہاں کئی موڑ آتے ہیں۔

آسان مشکل راستے آتے ہیں۔ آپ گرتے ہیں سنبھلتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ آپ اپنی منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں، جیسے ایک وقت آتا ہے جب زندگی کی شام ہو رہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ وقت آپ کو اداس سا کر دیتا ہے، کہ منزل سے زیادہ راستہ اور سفر آپ کو عزیز ہوتا ہے۔ منزل آگئی ، سفر کا چارم ختم۔

خیر، ٹریکنگ اور زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ہم نے یہ حصہ پار کرلیا۔ اب میرے سامنے سفیدی ہی سفیدی تھی جیسے کسی گھر میں سفیدی کر کے مجھے قید کر لیا گیا ہو۔ یہ برف زار تھا۔۔۔قراقرم کا برف زار۔ ( جاری ہے )
Load Next Story