کارِاصلاح ہے گرچہ دشوار
اردو شاعری کی چند نادر اصلاحات کی داستان
پہلی قسط
اردو شاعری میں اصلاح ِسخن کا شمار قدیم ادبی روایات میں کیا جاتا ہے، لیکن اس روایت کو باقاعدہ ایک فن کا درجہ اس وقت حاصل ہوا جب خیال کو بہتر سے بہترین لفظی آہنگ میں ڈھالنے کی غرض سے شاعری میں استاد شاگرد کے سلسلے کا آغاز ہوا۔
اصلاح سخن کا اولین عملی تجربہ کس استاد شاگرد کے مابین ہوا؟ اردو شاعری کی تاریخ اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ تاہم دست یاب مستند ادبی دستاویزات کے مطابق اس کارہنر کو سخن وری کے قدردان، شعر گو بادشاہوں کے دربار سے فروغ حاصل ہوا۔
جہاں فن شعر گوئی میں کامل اساتذہ کو نہ صرف ان کے شانِ شایان شاہی مناصب مع مالی وظائف سے نوازا گیا بلکہ ملک الشعرائ، عمدۃالشعرائ، امیرِسخن اور رئیس الکلام جیسے معتبر القابات سے ان کے فن کی قدر افزائی بھی کی گئی۔ اور اس طرح اصلاح سخن کا یہ سلسلہ شعرگوئی کا ذوق رکھنے والے شاہی خاندان (بشمول ملکاؤں، شہزادے اور شہزادیوں کے)، مصاحبانِ خاص، دربار سے وابستہ ریاستوں کے نوابوں، راجوں، مہاراجوں سے ہوتا ہوا بتدریج عوامی سطح تک پھیلتا چلا گیا۔
اصلاحِ سخن کا شمار صنائع لفظی میں ہوتا ہے۔ اصلاح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'درست کرنا'، 'غلطی یا عیب دور کرنا'، تصحیح کرنا اور بنانا سنوارنا کے ہیں۔ شعری اصطلاحات کے مطابق''اصلاح سخن اس فنی یا ادبی عمل کو کہتے ہیں جس میں شعری محاسن میں کامل استاد کسی شاگرد کے کلام نظم و نثر کو مزید نکھارنے، ترقی دینے، آراستہ و پیراستہ کرنے کی غرض سے اس میں ترمیم و تنسیخ یا حذف و اضافہ کرتا ہے۔'' اردو شاعری کی نشوونما، زبان و بیان کے ارتقائ، فن کارانہ اسالیب کے فروغ اور شاعرانہ قواعد و ضوابط کو کامل بنانے میں اصلاح سخن کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اصلاح شعر کے لیے شعرگوئی سے زیادہ پختہ کاری، کہنہ مشقی، اعلٰی ذوقی کی صلاحیت و قابلیت درکار ہوتی ہے تاکہ نوواردان بساط سخن کو شعری زبان و بیان کی نزاکتوں، عروض کے ماہرانہ استعمال اور خیال کی بناوٹ و سجاوٹ کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
مبتدی شعراء کو لفظ و معنی کے باہمی رشتوں، شعری تلازموں، بحورواوزان کے ضابطوں، لفظی تراکیب کی خوش آہنگی کا شعور بخشنے اور نکات فن سے آشنا کرنے کے لیے اصلاح سخن کے فن کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مُسَلّم رہی ہے۔ جیسا کہ غالب جیسے استاد الاساتذہ شاعر کا ''عبدالصمد خان '' نامی کسی شاعر کی شاگردی اختیار کرنے کا فرضی قصہ اس روایت کے محکم ترین ہونے کی دلیل ہے۔
عوامی سطح پر اس ہنر کو باقاعدہ فن کی صورت میں متعارف کروانے میں صفدر مرزا پوری کی تحریر کردہ ''مشاطۂ سخن'' ، علامہ سیماب اکبر آبادی کی''دستور الاصلاح''، علامہ ابرار حسنی کی ' میری اصلاحیں''، پروفیسر عنوان چشتی کی ''اصلاح نامہ'' اور علامہ تمنا عمادی کی ''ایضائے سخن ''نے اہم کردار ادا کیا۔
عصرحاضر میں نوآموز شعراء کی شعری قواعد سے عدم دل چسپی، جلد مقبول عام ہونے کی خواہش، اساتذہ سخن کی ناقدری اور نفسانفسی کی صورت حال کے سبب اصلاح سخن کی مضبوط ادبی روایت کم زور پڑتی دکھائی دیتی ہے، جس کے نتائج بیشتر شعراء کی عامیانہ سطح کی موزوں گوئی میں لفظی، تخیلاتی اور اوزان و عروض کی کجی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
لہٰذا نسل نو کو اصلاح سخن کی عظیم الشان ادبی روایت کے ماضی سے روشناس کروانے اور قدیم استاد شعراء کی اس فن پر دسترس سے متعلق آگاہی دینے کی خاطر زیرنظر مضمون میں اصلاح شاعری کے چنیدہ واقعات کو مرتب کیا گیا ہے۔ یہ واقعات عہد بہ عہد ترتیب پانے والی شعری ادب کی داستان کا وہ قیمتی حوالہ ہیں جن کے بغیر شاعری کی تاریخ کی تفہیم نامکمل رہے گی۔ پڑھیے، سر دھنیے، حظ اٹھائیے اور داد دیجیے۔
محمد حسین آزادؔ آب حیات میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ استاد ذوقؔ نے مشاعرے میں غزل پڑھی، مطلع تھا:
نرگس کے پھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
شاہ نصیرؔ بھی مشاعرے میں موجود تھے، فوراً بول اٹھے، ''میاں ابراہیم! پھول بٹوے میں نہیں ہوتے۔ ہاں یوں کہو:
نرگس کے پھول بھیجے ہیں ''دونے'' میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
جس پر ذوقؔ بولے ''حضرت! دونے میں تو رکھنا ہوتا ہے ڈالنا نہیں ہوتا، سو یوں کہا جا سکتا ہے:
؎بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
ریاض الاخبار میں داغ ؔکی غزل شائع ہوئی۔ مطلع تھا:
؎دلبر سے جدا ہونا یا دل کو جدا کرنا
اس سوچ میں بیٹھا ہوں آخر مجھے کیا کرنا؟
ریاض ؔخیرآبادی نے بذریعہ خط اعتراض کیا کہ ''کیا کرنا'' یہ دلی کا محاورہ ہے نہ لکھنؤ کا۔ داغ ؔنے خط کے جواب میں تحریر کیا ''یہ میری زبان ہے، کیا اعتراض میری زبان پر بھی ہے۔'' ریاض ؔخیرآبادی نے جواب الجواب لکھا،''میری کیا مجال کہ میں آپ کی زبان پر اعتراض کر سکوں!! لیکن آپ کیوںکہ دکھنیوں کے ساتھ سالہا سال گھر سے باہر رہے ہیں تو آپ نادانستہ ان کا محاورہ باندھ گئے۔'' داغؔ اس پر لاجواب ہوگئے۔
ایک مرتبہ میروزیرعلی صبا ؔنے ''جلاد کبھی، صیاد کبھی'' کی زمین میں غزل لکھی اور خواجہ حیدر علی آتشؔ سے اصلاح لینے آئے۔ صبا ؔنے غزل سنانی شروع کی اور جب یہ شعر پڑھا:
فصلِ گل میں مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اُڑاتا تھا نہ صیاد کبھی
خواجہ صاحب نے فرمایا پھر پڑھیے، جب انہوں نے دوبارہ پڑھا، آپ نے کہا پہلے مصرعے کو یوں بنا دیجیے:
؎ پر کتر کر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اُڑاتا نہ تھا صیاد کبھی
میر مونس ؔ نے ایک غزل کہی تو فخریہ اس کا مطلع میرانیسؔ کو سنانے کے لیے تشریف لائے:
؎نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
یونہی مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
میر انیسؔ ثانیہ بھر خاموش رہے اور پھر میرمونس ؔکو مخاطب کرکے کہنے لگے اگر مصرعہِ ثانی کو یوں بنادیا جائے تو شعر کے لطفِ معانی میں اضافہ ہوجائے گا:
؎ نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
علامہ حیرتؔ بدایونی کے شاگرد مولوی اختصاص حسین نے ایک مطلع بغرض اصلاح علامہ کو بھجوایا:
؎کبھی ذکر ستم ہوگا کبھی ذکر جفا ہوگا
بروز حشر میرا اور تمہارا فیصلہ ہوگا
اس پر علامہ نے شعر کی بندش میں چستی اور بیان میں میں صفائی پیدا کرنے کی خاطر شعر کو اس رنگ میں ڈھال دیا:
؎ وہیں ذکر ستم ہو گا وہیں ذکر جفا ہو گا
خدا کے سامنے میرا تمہارا فیصلہ ہو گا
محمد اسد خان بہ متخلص اسدؔ ملتانی نے علامہ اقبال کو اپنی ایک نظم ''شبنم کا قطرہ'' اصلاح کے لیے بھیجی۔ نظم کا مطلع تھا:
؎ دیکھنے کو اک ذرا سا قطرۂ بے رنگ ہوں
مختلف رنگوں میں لیکن قلزم بے رنگ ہوں
علامہ نے پورا شعر قلم زد کر کے نیا شعر تحریر کیا جو علامہ کے اندازفکر کی بھرپور غمازی کرتا ہے:
؎قطرہ بے رنگ ہوں یا قلزم نیرنگ ہوں
سننے والے سن کہ میں بھی اک خموش آہنگ ہوں
محزوں ؔلکھنوی نے ایک شعر لکھا اور اپنے استادکاظم جاوید ؔلکھنوی کے حضور پیش کیا:
؎ جب مجھ کو دیکھ لیتا ہے فرقت میں آپ کی
کہتا ہے آئینہ کہ وہ صورت نہیں رہی
استاد نے شعر سنا اور چند لمحوں بعد گویا ہوئے،''کہ اگر مصرع اولی یوں کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہے'':
؎کس منہ سے اس کے سامنے جاؤں فراق میں
کہتا ہے آئینہ کہ وہ صورت نہیں رہی
علی گڑھ یونیورسٹی میگزین کے ''ڈاکٹر ذاکر حسین نمبر'' میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے ادبی و شعری ذوق کے حوالے سے تحریر ایک مضمون میں درج ہے کہ ''ڈاکٹر صاحب شعر فہمی کا اعلٰی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ بذات خود ایک نفیس الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے سامنے جب کسی نے میر کا یہ شعر پڑھا:
؎ پَتّا پَتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تو ڈاکٹر ذاکر حسین خاموش رہے۔ شعر پڑھنے والے نے وجہ خاموشی دریافت کی تو بولے ''شعر لفظی بندش کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پتا باخبر ہو اور گل بے خبر؟ ہم ہوتے تو یوں کہتے'':
؎پَتّا پَتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
گل بھی خوب ہے جانے ہم کو باغ بھی سارا جانے ہے
رفعت سروش کی تحریر کردہ کتاب ''اور بستی نہیں یہ دلی ہے'' میں لکھا ہے کہ شعروسخن کی ایک محفل میں انہوں نے اپنی ایک غزل کا مطلع پڑھا:
؎ پھول اب نہیں لیکن زخم مسکرائے ہیں
پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں
محفل میں بسمل ؔشہیدی بھی موجود تھے۔ مطلع پر داد بھی دی اور بولے رفعت میاں یوں کہو:
؎پھول اب کہاں؟ لیکن زخم مسکرائے ہیں
پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں
اخلاق احمد دہلوی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''یادوں کا سفر'' میں لکھتے ہیں کہ دلی کی ایک محفل شعروسخن میں جگرؔ مرادآبادی نے مطلع پڑھا:
؎اب ان کا کیا بھروسا وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غمِ محبت لے لوں تیری بلائیں
سب نے داد دی مگر میں خاموش رہا۔ جگر صاحب میری خاموشی بھانپ گئے اور بولے،''دیکھا! دلی والوں کا خناس۔ اس لیے میں غزل نہیں سنا رہا تھا۔ میں نے کہا ''جگر صاحب! مطلع کے دوسرے مصرعے میں کوئی سقم ہے!'' اس پر جگر صاحب بولے، جی ہاں ہے اور ذم کا پہلو بھی نکلتا ہے، لیکن آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسا اچھا مضمون اس سقم کی وجہ سے چھوڑ دیتا؟ تو میں نے عرض کیا،''آپ یوں بھی کہہ سکتے تھے:۔
؎اب ان کا کیا بھروسا وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غمِ محبت تجھ کو گلے لگائیں
خداوند سخن میر انیس ؔ کے شاگرد آغاوزیرحسین عطا ؔنے اپنا ایک شعر برائے اصلاح میر صاحب کے پاس بھیجا:
؎ابھی جلے دل بلبل بشکل پروانہ
جو کوئی ''صحن چمن'' میں کبھی جلائے چراغ
اس پر میرؔ صاحب نے شعر کے دوسرے مصرعے میں چند الفاظ کی تبدیلی سے شعر کے معنوی حسن کو دوبالا کردیا:
؎ ابھی جلے دل بلبل بشکل پروانہ
جو کوئی ''روغن گل'' میں کبھی جلائے چراغ
میکش اکبرآبادی آگر ے کی تہذیبی اور ادبی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ''آگر ہ اور آگرہ والے'' میں ایک مشاعرے کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،''آگرہ کے ایک مشاعرے میں استاد داغ ؔنے دوران مشاعرہ شعر پڑھا:
؎بڑا مزہ ہو جو محشر میں میں کروں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
اس پر مشاعرے میں موجود مرزا رئیس ؔنے انہیں ٹوکا اور کہا،''حضور! محشر میں شکوہ شکایت کا موقع کہاں ہوگا؟ کہنا ہے تو یوں کہیے'':
؎ بڑا مزہ ہے جو محشر میں میں کروں فریاد
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
تقسیم ہند سے قبل کے برصغیر کی سیاست کے معروف کردار آصف علی بیرسٹر جو پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی ؔکے رنگ میں شعر کہتے تھے۔ ایک دعوت میں سیاسیات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جب انہوں نے اپنا مصرع پڑھا:۔
یہ بزم جم نہیں جمہوریت کی محفل ہے
تو محفل میں موجود بابائے اردو مولوی عبدالحق پھڑک اٹھے اوربو لے یہ مصرع جگرؔ کو سنانا چاہیے جن کا شعر ہے کہ:
؎ یہ میخانہ ہے جشنِ جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
اس شعر میں ''جشن ِ جم'' کی جگہ''بزمِ جم'' کی ترکیب آنی چاہیے تھی۔
نشترؔ سندیلوی ایک نوجوان شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے دوست عبدالغنی شوق سندیلوی کے نام سے ۱۶ غزلیں یکے بعد دیگرے اس وقت کے ۴۵ اساتذہ سخن کی خدمت میں برائے اصلاح بھیجیں، جنہیں بعد ازآں ''اصلاح سخن'' کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ ان برائے اصلاح اشعار میں ایک مطلع تھا:
؎مثال شمع ہے اپنی جگہ جل جل کے مرجانا
بالآخر رفتہ رفتہ حد ہستی سے گزر جانا
کسی استاد نے اس مطلع پر اصلاح نہیں دی اور شعر کو یونہی بدستور رہنے دیا، مگر استاد آرزو ؔلکھنوی نے دونوں مصرعوں پر اصلاح دی جسے بہت سراہا گیا:
؎طریق شمع ہے اپنی جگہ جل جل کے مرجانا
نہ بڑھنا اک قدم اور حد ہستی سے گزر جانا
شمس العلماء محمد باقر شمس لکھنوی اپنی کتاب ''شعوروشاعری'' میں فیض احمد فیض صاحب کے درج ذیل مشہور زمانہ دو اشعار:
؎رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
سے متعلق بغرض اصلاح کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
''پہلے مصرع میں 'رات یوں' فصحا نہیں بولتے بلکہ وہ 'رات کو یوں ' کہتے ہیں۔ پھر 'کھوئی ہوئی یاد' غلط ہے، تیسرے مصرعے میں 'صحراؤں' درست نہیں۔ پہلے مصرع میں دل دوسرے میں ویرانہ واحد ہے یہاں صحرا بھی واحد ہونا چاہیے۔ لفظ ''ہولے'' غیرفصیح و متروک ہے۔ چوتھے مصرع میں ''بے وجہ قرار'' غلط ہے کیوںکہ مصرع اول میں قرار کی وجہ بتا دی گئی ہے۔
یعنی اشعار اس طرح درست ہو سکتے ہیں:
؎رات یوں دل میں تیری بھولی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں بے فصل بہار آجائے
جیسے صحرا میں دبے پاؤں چلے بادِنسیم
جیسے بیمار کو اک دم سے قرار آجائے''
اردو شاعری میں اصلاح ِسخن کا شمار قدیم ادبی روایات میں کیا جاتا ہے، لیکن اس روایت کو باقاعدہ ایک فن کا درجہ اس وقت حاصل ہوا جب خیال کو بہتر سے بہترین لفظی آہنگ میں ڈھالنے کی غرض سے شاعری میں استاد شاگرد کے سلسلے کا آغاز ہوا۔
اصلاح سخن کا اولین عملی تجربہ کس استاد شاگرد کے مابین ہوا؟ اردو شاعری کی تاریخ اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔ تاہم دست یاب مستند ادبی دستاویزات کے مطابق اس کارہنر کو سخن وری کے قدردان، شعر گو بادشاہوں کے دربار سے فروغ حاصل ہوا۔
جہاں فن شعر گوئی میں کامل اساتذہ کو نہ صرف ان کے شانِ شایان شاہی مناصب مع مالی وظائف سے نوازا گیا بلکہ ملک الشعرائ، عمدۃالشعرائ، امیرِسخن اور رئیس الکلام جیسے معتبر القابات سے ان کے فن کی قدر افزائی بھی کی گئی۔ اور اس طرح اصلاح سخن کا یہ سلسلہ شعرگوئی کا ذوق رکھنے والے شاہی خاندان (بشمول ملکاؤں، شہزادے اور شہزادیوں کے)، مصاحبانِ خاص، دربار سے وابستہ ریاستوں کے نوابوں، راجوں، مہاراجوں سے ہوتا ہوا بتدریج عوامی سطح تک پھیلتا چلا گیا۔
اصلاحِ سخن کا شمار صنائع لفظی میں ہوتا ہے۔ اصلاح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'درست کرنا'، 'غلطی یا عیب دور کرنا'، تصحیح کرنا اور بنانا سنوارنا کے ہیں۔ شعری اصطلاحات کے مطابق''اصلاح سخن اس فنی یا ادبی عمل کو کہتے ہیں جس میں شعری محاسن میں کامل استاد کسی شاگرد کے کلام نظم و نثر کو مزید نکھارنے، ترقی دینے، آراستہ و پیراستہ کرنے کی غرض سے اس میں ترمیم و تنسیخ یا حذف و اضافہ کرتا ہے۔'' اردو شاعری کی نشوونما، زبان و بیان کے ارتقائ، فن کارانہ اسالیب کے فروغ اور شاعرانہ قواعد و ضوابط کو کامل بنانے میں اصلاح سخن کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اصلاح شعر کے لیے شعرگوئی سے زیادہ پختہ کاری، کہنہ مشقی، اعلٰی ذوقی کی صلاحیت و قابلیت درکار ہوتی ہے تاکہ نوواردان بساط سخن کو شعری زبان و بیان کی نزاکتوں، عروض کے ماہرانہ استعمال اور خیال کی بناوٹ و سجاوٹ کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔
مبتدی شعراء کو لفظ و معنی کے باہمی رشتوں، شعری تلازموں، بحورواوزان کے ضابطوں، لفظی تراکیب کی خوش آہنگی کا شعور بخشنے اور نکات فن سے آشنا کرنے کے لیے اصلاح سخن کے فن کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مُسَلّم رہی ہے۔ جیسا کہ غالب جیسے استاد الاساتذہ شاعر کا ''عبدالصمد خان '' نامی کسی شاعر کی شاگردی اختیار کرنے کا فرضی قصہ اس روایت کے محکم ترین ہونے کی دلیل ہے۔
عوامی سطح پر اس ہنر کو باقاعدہ فن کی صورت میں متعارف کروانے میں صفدر مرزا پوری کی تحریر کردہ ''مشاطۂ سخن'' ، علامہ سیماب اکبر آبادی کی''دستور الاصلاح''، علامہ ابرار حسنی کی ' میری اصلاحیں''، پروفیسر عنوان چشتی کی ''اصلاح نامہ'' اور علامہ تمنا عمادی کی ''ایضائے سخن ''نے اہم کردار ادا کیا۔
عصرحاضر میں نوآموز شعراء کی شعری قواعد سے عدم دل چسپی، جلد مقبول عام ہونے کی خواہش، اساتذہ سخن کی ناقدری اور نفسانفسی کی صورت حال کے سبب اصلاح سخن کی مضبوط ادبی روایت کم زور پڑتی دکھائی دیتی ہے، جس کے نتائج بیشتر شعراء کی عامیانہ سطح کی موزوں گوئی میں لفظی، تخیلاتی اور اوزان و عروض کی کجی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
لہٰذا نسل نو کو اصلاح سخن کی عظیم الشان ادبی روایت کے ماضی سے روشناس کروانے اور قدیم استاد شعراء کی اس فن پر دسترس سے متعلق آگاہی دینے کی خاطر زیرنظر مضمون میں اصلاح شاعری کے چنیدہ واقعات کو مرتب کیا گیا ہے۔ یہ واقعات عہد بہ عہد ترتیب پانے والی شعری ادب کی داستان کا وہ قیمتی حوالہ ہیں جن کے بغیر شاعری کی تاریخ کی تفہیم نامکمل رہے گی۔ پڑھیے، سر دھنیے، حظ اٹھائیے اور داد دیجیے۔
محمد حسین آزادؔ آب حیات میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ استاد ذوقؔ نے مشاعرے میں غزل پڑھی، مطلع تھا:
نرگس کے پھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
شاہ نصیرؔ بھی مشاعرے میں موجود تھے، فوراً بول اٹھے، ''میاں ابراہیم! پھول بٹوے میں نہیں ہوتے۔ ہاں یوں کہو:
نرگس کے پھول بھیجے ہیں ''دونے'' میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
جس پر ذوقؔ بولے ''حضرت! دونے میں تو رکھنا ہوتا ہے ڈالنا نہیں ہوتا، سو یوں کہا جا سکتا ہے:
؎بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
ریاض الاخبار میں داغ ؔکی غزل شائع ہوئی۔ مطلع تھا:
؎دلبر سے جدا ہونا یا دل کو جدا کرنا
اس سوچ میں بیٹھا ہوں آخر مجھے کیا کرنا؟
ریاض ؔخیرآبادی نے بذریعہ خط اعتراض کیا کہ ''کیا کرنا'' یہ دلی کا محاورہ ہے نہ لکھنؤ کا۔ داغ ؔنے خط کے جواب میں تحریر کیا ''یہ میری زبان ہے، کیا اعتراض میری زبان پر بھی ہے۔'' ریاض ؔخیرآبادی نے جواب الجواب لکھا،''میری کیا مجال کہ میں آپ کی زبان پر اعتراض کر سکوں!! لیکن آپ کیوںکہ دکھنیوں کے ساتھ سالہا سال گھر سے باہر رہے ہیں تو آپ نادانستہ ان کا محاورہ باندھ گئے۔'' داغؔ اس پر لاجواب ہوگئے۔
ایک مرتبہ میروزیرعلی صبا ؔنے ''جلاد کبھی، صیاد کبھی'' کی زمین میں غزل لکھی اور خواجہ حیدر علی آتشؔ سے اصلاح لینے آئے۔ صبا ؔنے غزل سنانی شروع کی اور جب یہ شعر پڑھا:
فصلِ گل میں مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اُڑاتا تھا نہ صیاد کبھی
خواجہ صاحب نے فرمایا پھر پڑھیے، جب انہوں نے دوبارہ پڑھا، آپ نے کہا پہلے مصرعے کو یوں بنا دیجیے:
؎ پر کتر کر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل
ایسی بے پر کی اُڑاتا نہ تھا صیاد کبھی
میر مونس ؔ نے ایک غزل کہی تو فخریہ اس کا مطلع میرانیسؔ کو سنانے کے لیے تشریف لائے:
؎نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
یونہی مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
میر انیسؔ ثانیہ بھر خاموش رہے اور پھر میرمونس ؔکو مخاطب کرکے کہنے لگے اگر مصرعہِ ثانی کو یوں بنادیا جائے تو شعر کے لطفِ معانی میں اضافہ ہوجائے گا:
؎ نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
علامہ حیرتؔ بدایونی کے شاگرد مولوی اختصاص حسین نے ایک مطلع بغرض اصلاح علامہ کو بھجوایا:
؎کبھی ذکر ستم ہوگا کبھی ذکر جفا ہوگا
بروز حشر میرا اور تمہارا فیصلہ ہوگا
اس پر علامہ نے شعر کی بندش میں چستی اور بیان میں میں صفائی پیدا کرنے کی خاطر شعر کو اس رنگ میں ڈھال دیا:
؎ وہیں ذکر ستم ہو گا وہیں ذکر جفا ہو گا
خدا کے سامنے میرا تمہارا فیصلہ ہو گا
محمد اسد خان بہ متخلص اسدؔ ملتانی نے علامہ اقبال کو اپنی ایک نظم ''شبنم کا قطرہ'' اصلاح کے لیے بھیجی۔ نظم کا مطلع تھا:
؎ دیکھنے کو اک ذرا سا قطرۂ بے رنگ ہوں
مختلف رنگوں میں لیکن قلزم بے رنگ ہوں
علامہ نے پورا شعر قلم زد کر کے نیا شعر تحریر کیا جو علامہ کے اندازفکر کی بھرپور غمازی کرتا ہے:
؎قطرہ بے رنگ ہوں یا قلزم نیرنگ ہوں
سننے والے سن کہ میں بھی اک خموش آہنگ ہوں
محزوں ؔلکھنوی نے ایک شعر لکھا اور اپنے استادکاظم جاوید ؔلکھنوی کے حضور پیش کیا:
؎ جب مجھ کو دیکھ لیتا ہے فرقت میں آپ کی
کہتا ہے آئینہ کہ وہ صورت نہیں رہی
استاد نے شعر سنا اور چند لمحوں بعد گویا ہوئے،''کہ اگر مصرع اولی یوں کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہے'':
؎کس منہ سے اس کے سامنے جاؤں فراق میں
کہتا ہے آئینہ کہ وہ صورت نہیں رہی
علی گڑھ یونیورسٹی میگزین کے ''ڈاکٹر ذاکر حسین نمبر'' میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کے ادبی و شعری ذوق کے حوالے سے تحریر ایک مضمون میں درج ہے کہ ''ڈاکٹر صاحب شعر فہمی کا اعلٰی ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ بذات خود ایک نفیس الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے سامنے جب کسی نے میر کا یہ شعر پڑھا:
؎ پَتّا پَتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تو ڈاکٹر ذاکر حسین خاموش رہے۔ شعر پڑھنے والے نے وجہ خاموشی دریافت کی تو بولے ''شعر لفظی بندش کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پتا باخبر ہو اور گل بے خبر؟ ہم ہوتے تو یوں کہتے'':
؎پَتّا پَتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
گل بھی خوب ہے جانے ہم کو باغ بھی سارا جانے ہے
رفعت سروش کی تحریر کردہ کتاب ''اور بستی نہیں یہ دلی ہے'' میں لکھا ہے کہ شعروسخن کی ایک محفل میں انہوں نے اپنی ایک غزل کا مطلع پڑھا:
؎ پھول اب نہیں لیکن زخم مسکرائے ہیں
پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں
محفل میں بسمل ؔشہیدی بھی موجود تھے۔ مطلع پر داد بھی دی اور بولے رفعت میاں یوں کہو:
؎پھول اب کہاں؟ لیکن زخم مسکرائے ہیں
پرسشِ محبت کو آج وہ بھی آئے ہیں
اخلاق احمد دہلوی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''یادوں کا سفر'' میں لکھتے ہیں کہ دلی کی ایک محفل شعروسخن میں جگرؔ مرادآبادی نے مطلع پڑھا:
؎اب ان کا کیا بھروسا وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غمِ محبت لے لوں تیری بلائیں
سب نے داد دی مگر میں خاموش رہا۔ جگر صاحب میری خاموشی بھانپ گئے اور بولے،''دیکھا! دلی والوں کا خناس۔ اس لیے میں غزل نہیں سنا رہا تھا۔ میں نے کہا ''جگر صاحب! مطلع کے دوسرے مصرعے میں کوئی سقم ہے!'' اس پر جگر صاحب بولے، جی ہاں ہے اور ذم کا پہلو بھی نکلتا ہے، لیکن آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسا اچھا مضمون اس سقم کی وجہ سے چھوڑ دیتا؟ تو میں نے عرض کیا،''آپ یوں بھی کہہ سکتے تھے:۔
؎اب ان کا کیا بھروسا وہ آئیں یا نہ آئیں
آ اے غمِ محبت تجھ کو گلے لگائیں
خداوند سخن میر انیس ؔ کے شاگرد آغاوزیرحسین عطا ؔنے اپنا ایک شعر برائے اصلاح میر صاحب کے پاس بھیجا:
؎ابھی جلے دل بلبل بشکل پروانہ
جو کوئی ''صحن چمن'' میں کبھی جلائے چراغ
اس پر میرؔ صاحب نے شعر کے دوسرے مصرعے میں چند الفاظ کی تبدیلی سے شعر کے معنوی حسن کو دوبالا کردیا:
؎ ابھی جلے دل بلبل بشکل پروانہ
جو کوئی ''روغن گل'' میں کبھی جلائے چراغ
میکش اکبرآبادی آگر ے کی تہذیبی اور ادبی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ''آگر ہ اور آگرہ والے'' میں ایک مشاعرے کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،''آگرہ کے ایک مشاعرے میں استاد داغ ؔنے دوران مشاعرہ شعر پڑھا:
؎بڑا مزہ ہو جو محشر میں میں کروں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
اس پر مشاعرے میں موجود مرزا رئیس ؔنے انہیں ٹوکا اور کہا،''حضور! محشر میں شکوہ شکایت کا موقع کہاں ہوگا؟ کہنا ہے تو یوں کہیے'':
؎ بڑا مزہ ہے جو محشر میں میں کروں فریاد
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
تقسیم ہند سے قبل کے برصغیر کی سیاست کے معروف کردار آصف علی بیرسٹر جو پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی ؔکے رنگ میں شعر کہتے تھے۔ ایک دعوت میں سیاسیات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جب انہوں نے اپنا مصرع پڑھا:۔
یہ بزم جم نہیں جمہوریت کی محفل ہے
تو محفل میں موجود بابائے اردو مولوی عبدالحق پھڑک اٹھے اوربو لے یہ مصرع جگرؔ کو سنانا چاہیے جن کا شعر ہے کہ:
؎ یہ میخانہ ہے جشنِ جم نہیں ہے
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
اس شعر میں ''جشن ِ جم'' کی جگہ''بزمِ جم'' کی ترکیب آنی چاہیے تھی۔
نشترؔ سندیلوی ایک نوجوان شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے دوست عبدالغنی شوق سندیلوی کے نام سے ۱۶ غزلیں یکے بعد دیگرے اس وقت کے ۴۵ اساتذہ سخن کی خدمت میں برائے اصلاح بھیجیں، جنہیں بعد ازآں ''اصلاح سخن'' کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ ان برائے اصلاح اشعار میں ایک مطلع تھا:
؎مثال شمع ہے اپنی جگہ جل جل کے مرجانا
بالآخر رفتہ رفتہ حد ہستی سے گزر جانا
کسی استاد نے اس مطلع پر اصلاح نہیں دی اور شعر کو یونہی بدستور رہنے دیا، مگر استاد آرزو ؔلکھنوی نے دونوں مصرعوں پر اصلاح دی جسے بہت سراہا گیا:
؎طریق شمع ہے اپنی جگہ جل جل کے مرجانا
نہ بڑھنا اک قدم اور حد ہستی سے گزر جانا
شمس العلماء محمد باقر شمس لکھنوی اپنی کتاب ''شعوروشاعری'' میں فیض احمد فیض صاحب کے درج ذیل مشہور زمانہ دو اشعار:
؎رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
سے متعلق بغرض اصلاح کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
''پہلے مصرع میں 'رات یوں' فصحا نہیں بولتے بلکہ وہ 'رات کو یوں ' کہتے ہیں۔ پھر 'کھوئی ہوئی یاد' غلط ہے، تیسرے مصرعے میں 'صحراؤں' درست نہیں۔ پہلے مصرع میں دل دوسرے میں ویرانہ واحد ہے یہاں صحرا بھی واحد ہونا چاہیے۔ لفظ ''ہولے'' غیرفصیح و متروک ہے۔ چوتھے مصرع میں ''بے وجہ قرار'' غلط ہے کیوںکہ مصرع اول میں قرار کی وجہ بتا دی گئی ہے۔
یعنی اشعار اس طرح درست ہو سکتے ہیں:
؎رات یوں دل میں تیری بھولی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں بے فصل بہار آجائے
جیسے صحرا میں دبے پاؤں چلے بادِنسیم
جیسے بیمار کو اک دم سے قرار آجائے''