بجلی کے بل عوام اور ملکی معیشت پر بھاری
پاکستان کے توانائی کے نظام میں بہت بڑے بڑے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جنھیں ٹھیک کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی
ملک بھر سمیت آزاد کشمیر میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں،اسی صورتحال کے تناظر میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے بھاری بلوں کا نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
وزیراعظم نے وزارت توانائی اور تقسیم کارکمپنیوں کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس میں صارفین کو بجلی کے بلوں میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے واپڈا کے گریڈ سترہ سے بائیس کے افسروں کے لیے فری بجلی یونٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ بڑھتا ہوا عوامی رد عمل کیا رخ اختیارکرے گا،کیا نگران حکومت عوام کی بڑھتی تکلیف پرکچھ ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہوگی، آخر بجلی کے بل پر پچیس فی صد سے زائد ٹیکسزکا کوئی جواز ہے؟ بجلی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا جائے تو بڑی وجہ اربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے جس نے سارے سسٹم کو اپ سیٹ کر رکھا ہے۔
اس سرکلر ڈیٹ کے باعث سارا بوجھ غریب اور مہنگائی زدہ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے، بلوں پر دس فی صد سے زائد ٹیکس لیے جا رہے ہیں جس میں انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، فیول ایڈ جسٹمنٹ، ٹی وی اور ریڈیوکی لائنسس فیسز اورایکسائز دیگر ٹیکس شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک بڑا طبقہ یہ بحث کرتا نظر آیا کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت سمیت دیگر مراعات کو ختم کرنا ہی کیا اس تمام تر معاملے کا حل ہے۔
دوسری جانب برقی توانائی کے بحران اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی، جس سے قومی پیداوار برآمدات میں کمی واقع ہوئی اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت پر برے اثرات پڑے۔
حالیہ دور میں روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث بین الاقوامی منڈی میں مایع گیس، پٹرولیم مصنوعات اورکوئلے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان زیادہ قیمت پر ان کی خریداری کا متحمل نہیں ہو پا رہا، جس کی وجہ سے برقی توانائی پیدا کرنے والے کئی کارخانے بند پڑے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی وجوہات میں ایک وجہ ملک میں بجلی کے کئی کارخانوں کی ضروری مرمت کا کام نامکمل اور بیرون ملک سے پرزے نہ منگوانے کے باعث بندش کو بھی قرار دیا تھا۔
سرکاری ملازمین اور طبقہ اشرافیہ کو دی جانے والی مخصوص مراعات کا سراغ لگنا مشکل ضرور ہے، لیکن پاکستان میں معاشی مراعات کا مجموعی تخمینہ موجود ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شایع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور بیوروکریسی کو ملنے والی معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتیں تو یہ بھی نہیں پتا چلنا تھا کہ کس کو کیا ملتا ہے۔
یہ بات صرف بجلی کی آسائش ملنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سوال پر ہے کہ یہ مفت آسائش ملنے کا آخر جواز کیا ہے؟ توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کے لیے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمے داری سے استعمال کیا گیا، جس کے باعث پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔
پاکستان میں مختلف ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 37 ہزار میگا واٹ ہے، جب کہ ملک کی 27 ہزار میگا واٹ کی ضرورت کے برعکس تقریباً 21 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اکثر ماہرین کے خیال میں اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بجلی کے ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لیے اگر ہم بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کر لیں تو اس سے لوڈ شیڈنگ کے روزانہ کے دورانیے میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
پہلے ایک اہتمام ہوتا تھا کہ شروع کے 100 یونٹ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیے جاتے تھے، اس کے بعد آٹھ روپے فی یونٹ اور پھر اسی طرح یونٹ بڑھتے جاتے تھے تو اضافی یونٹس کی قیمت کا پیمانہ بدلتا جاتا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ تقسیم ختم کر دی۔ اب جتنے بھی یونٹ ہیں سب کو 25 روپے سے ضرب دے کر قیمت کا پہاڑ صارفین کے گھر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کرایہ میٹر ہے۔ اس کے بعد کرایہ سروس ہے۔
صارفین کو نہ علم ہے نہ کسی نے کبھی جاننے کی ضرورت محسوس کی کہ میٹر کرایہ اور کرایہ سروس میں فرق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے؟ میٹر جب صارف کو بیچا جاتا ہے اور اکثر اوقات بلیک میں تین چار گنا قیمت پر بیچا جاتا ہے تو پھر اس کا کرایہ کس بات کا؟ جب وہ ملکیت ہی صارف کی ہے تو اس کا کرایہ کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ یعنی استعمال شدہ بجلی سے 10 گنا زیادہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وصول کیے جا رہے ہیں۔
اس طرح سے 'کوارٹرلی (ہر3 ماہ بعد)ٹیرف ایڈجسٹمنٹ''یا 'ڈی ایم سی'کی مد میں صارفین کی جیب پر مزید ڈاکا اس وقت ڈالا جاتا ہے جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرے۔ مزید چند اخراجات یا ٹیکس براہ راست حکومت عائد کرتی ہے جن کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بجلی بل میں سب سے زیادہ ٹیکس 18 فیصد ٹیکس جنرل سیلزٹیکس(جی ایس ٹی) کی مد میں وصول کیاجاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر صارف ٹیکس فائلرنہیں ہے تو پھربجلی بل میں انکم پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ انکم ٹیکس 25 ہزار روپے سے زائد بل پرعائد کیا جاتا ہے جو مجموعی بل کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ بجلی کا بل وصول کیا جا رہا ہے یا محکوم رعایا سے خراج اکٹھا کیا جا رہا ہے؟ہمارے پالیسی سازوں نے انورڈ اکانومی کے برعکس بجلی کی پیداوارکا انحصار ایسی چیزوں پر رکھ دیا جو ملک میں پائی ہی نہیں جاتیں اور اسی لیے پاکستان کو بجلی کی پیداوار کی خاطر کوئلہ، گیس اور پٹرول باہر سے درآمد کرنا پڑ رہے ہیں، جو موجودہ صورت حال میں ناممکن ہو گیا ہے۔
پاکستان کے پاس بجلی بنانے کے تھرمل پاور پلانٹس تو موجود ہیں، لیکن انھیں چلانے کے لیے ایندھن نہیں ہے، کیونکہ وہ باہر سے آتا ہے، مہنگا ہوگیا ہے اور ملک اتنی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو کالاباغ اور بھاشا ڈیموں کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے تھا، جس سے ملک کو اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کم قیمت بجلی میسر ہوتی۔
پاکستان نے ڈیمز بنانا بند کیے اور آئی پی پیز کا نظام درآمد کیا تو آج یہ حال ہے ہمارا۔ 90 کی دہائی میں آئی پی پیزکو لانا ایک بری پالیسی تھی،کیونکہ اس طرح پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا نظام گیس اور تیل پر منحصر ہوگیا، اور یہ دونوں اشیا بیرون ملک سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ہم تیل اورگیس کی خاطر قرضے لیتے رہے اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ قرض کے پیسوں سے بھی ہم پٹرول اور ایل این جی خرید نہیں پا رہے ہیں۔
پاکستان کے توانائی کے نظام میں بہت بڑے بڑے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جنھیں ٹھیک کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پٹرولیم مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہیں، جب کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔
یہ سب جز وقتی رکاوٹیں ہیں اور مستقبل میں ان پر محض بدانتظامی دور کر کے قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن بڑے مسائل دوسرے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل پانی سے بجلی پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضایع ہونا، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔ملک کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاؤں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے۔
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ زیادتی کی۔ پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی خاطر حکومتی سطح پر غیر ملکی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے، جس کے اپنے نقصانات بڑے ہیں۔
حکومت کو اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جو ملکی حالات اور لوگوں کے رہن سہن سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہوتے ہیں۔ جب تک حکومت پاکستان کے اندر کام کرنے والے ریسرچرز کو منصوبہ سازی میں ملوث نہیں کرتی توانائی بحران کا حل ممکن نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے وزارت توانائی اور تقسیم کارکمپنیوں کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اجلاس میں صارفین کو بجلی کے بلوں میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے واپڈا کے گریڈ سترہ سے بائیس کے افسروں کے لیے فری بجلی یونٹ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ بڑھتا ہوا عوامی رد عمل کیا رخ اختیارکرے گا،کیا نگران حکومت عوام کی بڑھتی تکلیف پرکچھ ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہوگی، آخر بجلی کے بل پر پچیس فی صد سے زائد ٹیکسزکا کوئی جواز ہے؟ بجلی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا جائے تو بڑی وجہ اربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ ہے جس نے سارے سسٹم کو اپ سیٹ کر رکھا ہے۔
اس سرکلر ڈیٹ کے باعث سارا بوجھ غریب اور مہنگائی زدہ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے، بلوں پر دس فی صد سے زائد ٹیکس لیے جا رہے ہیں جس میں انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، فیول ایڈ جسٹمنٹ، ٹی وی اور ریڈیوکی لائنسس فیسز اورایکسائز دیگر ٹیکس شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک بڑا طبقہ یہ بحث کرتا نظر آیا کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت سمیت دیگر مراعات کو ختم کرنا ہی کیا اس تمام تر معاملے کا حل ہے۔
دوسری جانب برقی توانائی کے بحران اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی، جس سے قومی پیداوار برآمدات میں کمی واقع ہوئی اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت پر برے اثرات پڑے۔
حالیہ دور میں روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث بین الاقوامی منڈی میں مایع گیس، پٹرولیم مصنوعات اورکوئلے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان زیادہ قیمت پر ان کی خریداری کا متحمل نہیں ہو پا رہا، جس کی وجہ سے برقی توانائی پیدا کرنے والے کئی کارخانے بند پڑے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی وجوہات میں ایک وجہ ملک میں بجلی کے کئی کارخانوں کی ضروری مرمت کا کام نامکمل اور بیرون ملک سے پرزے نہ منگوانے کے باعث بندش کو بھی قرار دیا تھا۔
سرکاری ملازمین اور طبقہ اشرافیہ کو دی جانے والی مخصوص مراعات کا سراغ لگنا مشکل ضرور ہے، لیکن پاکستان میں معاشی مراعات کا مجموعی تخمینہ موجود ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شایع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور بیوروکریسی کو ملنے والی معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتیں تو یہ بھی نہیں پتا چلنا تھا کہ کس کو کیا ملتا ہے۔
یہ بات صرف بجلی کی آسائش ملنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سوال پر ہے کہ یہ مفت آسائش ملنے کا آخر جواز کیا ہے؟ توانائی اور خصوصاً بجلی کے شعبے کے لیے بیرون ملک سے لیے گئے قرضوں کو بھی غیر ذمے داری سے استعمال کیا گیا، جس کے باعث پاکستان ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود کئی کئی گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔
پاکستان میں مختلف ذرایع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت 37 ہزار میگا واٹ ہے، جب کہ ملک کی 27 ہزار میگا واٹ کی ضرورت کے برعکس تقریباً 21 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اکثر ماہرین کے خیال میں اس وقت پاکستان کو آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی کے شارٹ فال کا سامنا ہے، جسے پورا کرنے کے لیے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے کم استعمال کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بجلی کے ترسیل کا نظام پرانا ہونے کے باعث 22 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس لیے اگر ہم بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی کر لیں تو اس سے لوڈ شیڈنگ کے روزانہ کے دورانیے میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
پہلے ایک اہتمام ہوتا تھا کہ شروع کے 100 یونٹ پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیے جاتے تھے، اس کے بعد آٹھ روپے فی یونٹ اور پھر اسی طرح یونٹ بڑھتے جاتے تھے تو اضافی یونٹس کی قیمت کا پیمانہ بدلتا جاتا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ تقسیم ختم کر دی۔ اب جتنے بھی یونٹ ہیں سب کو 25 روپے سے ضرب دے کر قیمت کا پہاڑ صارفین کے گھر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کرایہ میٹر ہے۔ اس کے بعد کرایہ سروس ہے۔
صارفین کو نہ علم ہے نہ کسی نے کبھی جاننے کی ضرورت محسوس کی کہ میٹر کرایہ اور کرایہ سروس میں فرق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے؟ میٹر جب صارف کو بیچا جاتا ہے اور اکثر اوقات بلیک میں تین چار گنا قیمت پر بیچا جاتا ہے تو پھر اس کا کرایہ کس بات کا؟ جب وہ ملکیت ہی صارف کی ہے تو اس کا کرایہ کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ یعنی استعمال شدہ بجلی سے 10 گنا زیادہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وصول کیے جا رہے ہیں۔
اس طرح سے 'کوارٹرلی (ہر3 ماہ بعد)ٹیرف ایڈجسٹمنٹ''یا 'ڈی ایم سی'کی مد میں صارفین کی جیب پر مزید ڈاکا اس وقت ڈالا جاتا ہے جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرے۔ مزید چند اخراجات یا ٹیکس براہ راست حکومت عائد کرتی ہے جن کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً بجلی بل میں سب سے زیادہ ٹیکس 18 فیصد ٹیکس جنرل سیلزٹیکس(جی ایس ٹی) کی مد میں وصول کیاجاتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر صارف ٹیکس فائلرنہیں ہے تو پھربجلی بل میں انکم پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ انکم ٹیکس 25 ہزار روپے سے زائد بل پرعائد کیا جاتا ہے جو مجموعی بل کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ بجلی کا بل وصول کیا جا رہا ہے یا محکوم رعایا سے خراج اکٹھا کیا جا رہا ہے؟ہمارے پالیسی سازوں نے انورڈ اکانومی کے برعکس بجلی کی پیداوارکا انحصار ایسی چیزوں پر رکھ دیا جو ملک میں پائی ہی نہیں جاتیں اور اسی لیے پاکستان کو بجلی کی پیداوار کی خاطر کوئلہ، گیس اور پٹرول باہر سے درآمد کرنا پڑ رہے ہیں، جو موجودہ صورت حال میں ناممکن ہو گیا ہے۔
پاکستان کے پاس بجلی بنانے کے تھرمل پاور پلانٹس تو موجود ہیں، لیکن انھیں چلانے کے لیے ایندھن نہیں ہے، کیونکہ وہ باہر سے آتا ہے، مہنگا ہوگیا ہے اور ملک اتنی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو کالاباغ اور بھاشا ڈیموں کی تعمیر کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے تھا، جس سے ملک کو اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کم قیمت بجلی میسر ہوتی۔
پاکستان نے ڈیمز بنانا بند کیے اور آئی پی پیز کا نظام درآمد کیا تو آج یہ حال ہے ہمارا۔ 90 کی دہائی میں آئی پی پیزکو لانا ایک بری پالیسی تھی،کیونکہ اس طرح پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا نظام گیس اور تیل پر منحصر ہوگیا، اور یہ دونوں اشیا بیرون ملک سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ہم تیل اورگیس کی خاطر قرضے لیتے رہے اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ قرض کے پیسوں سے بھی ہم پٹرول اور ایل این جی خرید نہیں پا رہے ہیں۔
پاکستان کے توانائی کے نظام میں بہت بڑے بڑے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جنھیں ٹھیک کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ موجودہ وقت میں پاکستان کا توانائی کا شعبہ پٹرولیم مصنوعات اور مایع گیس (ایل این جی) کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مسائل کا شکار ہیں، جب کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماضی میں بھی موجود رہا ہے۔
یہ سب جز وقتی رکاوٹیں ہیں اور مستقبل میں ان پر محض بدانتظامی دور کر کے قابو پایا جا سکتا ہے، لیکن بڑے مسائل دوسرے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے بنیادی مسائل پانی سے بجلی پر تھرمل کو ترجیح دینا اور قابل تجدید ذرایع سے بجلی پیدا نہ کرنا، بجلی کی ترسیل کا پرانا نظام و آلات، ترسیل میں بجلی کا ضایع ہونا، بجلی کی چوری اور اس شعبے کے اداروں میں کرپشن کی بھر مار ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، جہاں بلند پہاڑوں کے علاوہ وادیاں اور میدانی علاقے بھی موجود ہیں۔ملک کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے پانیوں کے جھرنے دریاؤں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور میدانی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاکستان کے جنوب میں واقع بحیرہ عرب کی آغوش میں جا گرتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی فراوانی ہے۔
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے فیصلہ سازوں نے وافر مقدار میں پانی کی موجودگی اور اس سے بجلی بنانے کی استعداد کے باوجود گیس اور تیل سے برقی توانائی پیدا کرنے کی طرف جا کر ملک کے ساتھ زیادتی کی۔ پاکستان میں پانی سے دو لاکھ میگا واٹ بجلی بنانے کی استعداد موجود ہے، جسے مختلف وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں منصوبہ بندی کی خاطر حکومتی سطح پر غیر ملکی کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے، جس کے اپنے نقصانات بڑے ہیں۔
حکومت کو اس سلسلے میں پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جو ملکی حالات اور لوگوں کے رہن سہن سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہوتے ہیں۔ جب تک حکومت پاکستان کے اندر کام کرنے والے ریسرچرز کو منصوبہ سازی میں ملوث نہیں کرتی توانائی بحران کا حل ممکن نہیں ہوگا۔