کائنات کے راز

کائنات کی وسعت اور گہرائی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں

www.facebook.com/shah Naqvi

سائنسدانوں کے مطابق ہماری کائنات ایک بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔ یعنی ایک بہت بڑا دھماکا ہوا جس کے بعد کئی لاکھ سال تک دھماکے ہوتے رہے یہاں تک ہماری زمین وجود میں آگئی ہماری زمین ساڑھے چار ارب سال قبل وجود میں آئی اور جب یہ وجود میں آئی اس وقت اور اس کے بہت بعد تک زمین پر ایسا ماحول اور حالات نہیں تھے کہ اس پر کسی بھی قسم کی زندگی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی۔

کہا جاتا ہے کہ انسان ستاروں پر کمند ڈال رہا ہے اور انسان کو اس بات پر بڑا فخر ہے۔ کائنات کی وسعت اور گہرائی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں ۔ اس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے ابھی تک سائنسدانوں نے کائنات کا جتنا بھی مشاہدہ کیا ہے وہ کل کائنات کا صرف ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے اور یہ بھی صرف مشاہدہ ہی ہے۔

ہماری کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں کروڑوں ستارے ہیں ، زمین جیسے یا اس سے بھی بے پناہ بڑے ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہماری کائنات کے علاوہ بھی کوئی کائنات ہے یعنی کائنات درکائنات جب کہ ہماری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے ۔ 13ارب سال پہلے ہماری کائنات کا پھیلاؤ شروع ہوا اور اس وقت سے آج تک یہ مسلسل پھیل رہی ہے ۔ یعنی مادے اور توانائی کا پھیلاؤ ۔

گزشتہ صدی کے دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کائنات کے سربستہ رازوں سے پرہ اٹھانے کے لیے ایک تحقیق کی جس میں امریکی اور آسٹریلوی سائنسدان شامل تھے ۔ یہ سائنسدان ایک قسم کے "سپر نوا"سے آنے والی روشنی کا جائزہ لے رہے تھے۔

جب ایک بڑا ستارہ اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتا ہے تو وہ ایک زور دار دھماکے کی صورت میں پھٹ جاتا ہے اور خلاء میں موجود اپنے اندر موجود مادے کو پھیلا دیتا ہے جس کے بعد اسی مادے سے نئے ستارے جنم لیتے ہیں ۔اور اس دھماکے کوفلکیاتی اصطلاح میں "سپر نوا" کا نام دیا جاتا ہے ۔


"سپر نوا" ہمارے سورج سے 8گنا بڑا ستارہ ہے جب یہ پھٹتا ہے تو یہ بلیک ہول بن جاتا ہے جب بڑا ستارہ اپنی آخری عمر کو پہنچ جاتا ہے تو چھوٹا ستارہ اس کی سطح سے مادہ اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے ۔ جب کہ اس چھوٹے ستارے میں موجود مادے کی مقدار ہمارے سورج سے 14گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ تو یہ چھوٹا ستارہ اس عمل کے دوران دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔

یاد رہے کہ سب سے پہلے 1929میں مشہور سائنسدان ایڈون ہبل نے یہ دریافت کیا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس دریافت نے بہت سے سائنسی نظریات کو غلط ثابت کر دیا ۔ سائنسدانوں کی عالمی ٹیم نے جو تحقیق کی تھی اس نے اس خیال کو درست ثابت کیا کہ کائنات پچھلے 13ارب سالوں سے مسلسل نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس میں تیزی بھی آرہی ہے ۔

اس کے بعد فلکیاتی ماہرین کے سامنے یہ سوال آگیا کہ ایسی کیا چیز ہے جو کائنات کے پھیلاؤ میں تیزی لارہی ہے ۔جس کے بعد "ڈارک انرجی" کا نظریہ سامنے آیا ۔

فلکیات میں اگر کسی بھی چیز کے ساتھ ڈارک کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ سائنس اس چیز کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگرڈارک انرجی موجود ہے اور کائناتی پھیلاؤ جاری ہے تو پھر اربوں سالوں میں سورج زمین سے دور کیوں نہیں چلاگیایا پھر ستارے ابھی تک کہکشاں میں موجود کیوں ہیں ۔

سائنسدان ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہماری ملکی وے کہکشاں اور ہمسایہ کہکشاں "اندرومیڈو "ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔ ہماری کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں کروڑوں ستارے ہیں جب کہ ہماری زمین کی حیثیت اس پوری کائنات میں ایک ذرے کی سی ہے جو عظیم الشان صحرا میں پایا جاتا ہو۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری کائنات میں بطور انسان ہمارا وجود بہت چھوٹا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق ہماری زمین کا کل وزن 13ارب ٹریلین ٹن سے زیادہ ہے ۔ اس وقت ہم اپنی کہکشاں کی قید میں ہیں اگر ہم اپنی کہکشاں سے باہر نکلنا بھی چاہیں تو ہمیں اس سے باہر نکلنے کے لیے 25ارب سال لگ جائیں گے ۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہزاروں سال سے وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو قتل کرنے میں مصروف ہے صرف اس لیے کہ انھیں جسمانی اور نظریاتی طور پر اپنا غلام بنا لے ۔
Load Next Story