جڑانوالہ واقعات کا سبق

منصوبہ سازوں نے اپنا ہدف نہایت آسانی کے ساتھ حاصل کر لیا


[email protected]

ایک مولانا صاحب ہوا کرتے۔ تقریر ایسی کیا کرتے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ علم اور فن خطابت کی جتنی خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں، ان کی ذات میں جمع تھیں لیکن کمزوری ایک ہی تھی، مولانا مودودی۔ کسی نہ کسی بہانے وہ خود ان کا ذکر کر دیتے پھر موضوع سے ہٹ جاتے۔

اس کے بعد مودودی کا ذکر ہوتا اور ان کی دانست میں اس کی گمراہیوں کا تذکرہ۔ جماعت اسلامی کے نوجوان اور جذباتی کارکنان بھی اُن کی نفسیاتی کمزوری بھانپ گئے' جہاں کہیں وہ خطاب کے لیے تشریف لے جاتے ، وہ بھی پہنچ جاتے۔ وہ بزرگ اگر خود یہ تذکرہ بھول جاتے تو یہ ستم ظریف اِنھیں یاد دلا دیتے پھر تماشا دیکھنے والا ہوتا۔

کبھی کبھی یہ مشق دل لگی سے بڑھ کر بدصورت مناظر کا پیش خیمہ بھی بن جاتی۔ یہ پرانی بھولی بسری یاد مجھے جڑانوالہ کے بدقسمت واقعات کی تفصیل جان کر ہوئی'یہاں بھی پس پردہ کردار سادہ لوح مسلمانوں کی جذباتی نفسیات سے آگاہ تھے۔

جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے خلاف افسوس ناک واقعات کی وجہ ظاہر ہے کہ توہین قرآن حکیم ہی کا انتہائی دلخراش واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ جس سانحے میں تبدیل ہو گیا، اس کے اسباب اور وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس سانحے کے دو ڈھائی دن کے بعد مفتی تقی عثمانی صاحب کا ردعمل آیا ۔ ان کا مؤقف بہترین ہے جس سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ اگر کچھ غلط ہوا تھا تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے تھا۔

انھوں نے فرمایا ہے کہ اس واقعے یا سازش سے نمٹنے کے لیے چوں کہ قانونی ذرایع موجود ہیں، اس لیے ہجوم کے مسیحی برادری کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علمائے کبار کا ردعمل دیر سے آنے یا ابھی تک نہ آنے کے معاملے پر بھی گفتگو ضروری ہے لیکن اس سے اہم ایک اور معاملہ بھی ہے۔

اس معاملے کی میں نے جب کرید شروع کی تو سب سے پہلے مجھے ایک وڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وڈیو میں ایک ہجوم نعرہ زن تھا جس میں کسی مقامی عالم دین کے ساتھ ایک آدمی کھڑا تھا جس نے ہجوم کو آگاہ کیا کہ ملزم گرفت میں آ چکا ہے جس پر ہجوم نے سوال کیا کہ کیا اسے سزا دے دی گئی؟ اس پر اس شخص نے جواب دیا کہ یہ کام تو عدالت کرے گی جس پر ہجوم نے نعرے لگائے کہ سزا ہم دیں گے۔

یہ نعرے دیر تک جاری رہے لیکن ہجوم کی قیادت کرنے والے بزرگ اپنے چہرے پر فاتحانہ تاثرات سجائے خاموش رہے۔ اس سلسلے میں دوسرا وڈیو میں نے وہی دیکھا جس پر ایک شخص کی گرفتاری ہوئی ہے۔

یہ وہی شخص ہے جو مسجد کے لاوڈ اسپیکر پر عوام کو مشتعل کر کے انھیں سڑکوں پر آنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ ان دو واقعات کی نوعیت اور اس کے نقصانات کا فہم پیدا ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ مسئلہ سمجھ میں آ جائے گا اور اس کا علاج بھی۔

جڑانوالہ کے پرسکون ماحول کو نفرت اور جلاؤ گھیراؤ میں تبدیل کرنے کے منصوبہ ساز جانتے تھے کہ وہ جو کچھ کرانے جا رہے ہیں مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو گا اور وہ عقل و خرد سے بے گا نہ ہو کر کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ منصوبہ سازوں نے اپنا ہدف نہایت آسانی کے ساتھ حاصل کر لیا۔

میری بہن شنیلا عمار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جب بھی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار ہونے لگتا ہے، اس طرح کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ایک اور لائق سیاسی مبصر آغا اقرار ہارون اسے بھارت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اس واقعے کے بعد بھارت کے منی پور میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں عیسائی کش فسادات کا معاملہ پس پشت چلا گیا ہے۔ یہ دونوں امکانات ہو سکتے ہیں اور ہوں گے لیکن اس قسم کی سازشوں سے زیادہ وہ سماج زیادہ قابل رحم ہوتا ہے جو اس قسم کے جال میں آسانی کے ساتھ پھنس جاتا ہے۔

گرجا گھر اور مسیحی برادری کے گھروں کو تاراج کرنے والے اور ان گھروں کے باسیوں کو بے گھر کرنے والے لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ لوگ نہ دین کے احکامات اور ان کی حرمت سے واقف ہیں، نہ ریاست اور اس کے آئین اور قانون کو سمجھتے اور نہ اس کی پابندی کرنے والے ہیں۔

یہ بھی ایک مستقل نوعیت کا مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے احتیاط سے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے لیکن ایک مسئلہ اس سے بھی سوا ہے۔

یہ مسئلہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی اور سماجی ادارے یعنی مسجد کی انتظامی حیثیت کا ہے۔ اسلامی روایت میں مسجد کا ادارہ نماز کی امامت اور خطبہ جمعہ اسلامی ریاست کی ذمے داری تھا۔ خلفائے راشدین، بعد کے خلفا اور حکمرانوں کے ادوار میں یہی طریقہ کار رائج رہا ہے۔

بعد کے زمانوں میں سیاسی حالات بدلنے سے اس معاملے میں بھی بہت کچھ بدلا لیکن مسلم دنیا کے بیشتر حصوں میں اب بھی یہی طریقہ رائج ہے یعنی مسجد کا انتظام و انصرام ریاست کرتی ہے لیکن صرف برصغیر میں صورت حال مختلف رہی۔ مسلمان بادشاہوں خاص طور پر مغل عہد میں مساجد کا نظام دو طرح سے چلایا جاتا رہا ہے یعنی سرکار کے زیر انتظام بھی اور نجی سطح پر بھی۔ انگریزوں نے اس بندوبست کو برقرار رکھا۔

قیام پاکستان کے بعد صورت حال میں کوئی جوہری فرق پیدا نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ایوب خان کے دور میں محکمہ اوقاف قائم کیا گیا جس نے بزرگوں کے مزارات اور بعض مساجد اپنی تحویل میں لے لیں۔

یوں حکومت ان مزارات سے ہونے والی آمدنی کی مالک بن گئی جب کہ حکومت کے زیر انتظام مساجد کے خطیب حضرات اور دیگر عملہ بھی حکومت کے ملازم کی حیثیت اختیار کر گیا لیکن دیگر لاکھوں مساجد میں کیا ہو رہا ہے، ایک عمومی تجزیہ یہ ہے۔

اس کی کسی کو کوئی خبر نہیں۔ اگر متعلقہ مسجد کے خطیب اور اس کی انتظامیہ ذمے دار ہوتی ہے اور شہر میں رونما ہونے والے واقعات کی ہلاکت خیزی کا شعور اسے ہوتا تو کوئی شخص مسجد کے لاوڈ اسپیکر پر قبضہ کر کے عوام کو فساد پر آمادہ نہ کر پاتا۔ اس ہول ناک تجربے کا سبق یہ ہے کہ حقیقی اسلامی روایت کے مطابق مسجد ریاست کے زیر انتظام ہونی چاہیے۔

ممتاز مؤرخ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں ریاست مختلف مذہبی پریشر گروہوں کے ساتھ کمپرومائز کرتی ہے جس سے ریاست کی اتھارٹی کمزور ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں رہا کہ ریاست مساجد کا انتظام سنبھال سکے۔ ہاں، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی کو مضبوط بنائے، اس سے بھی صورت حال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

معروضی حالات کے پیش نظر اس رائے میں وزن ہے لیکن پاکستان اگر نظریاتی ریاست ہے تو پھر لازم ہے کہ مسجد کا انتظام اسی کے ہاتھ میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں