بجلی کے بل اور احتجاج

مراعات یافتہ وہ طبقہ ہے جو اس بد حالی کے دور میں بھی مفت بجلی اور مفت پٹرول کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے

mnoorani08@hotmail.com

ریاست بچانے کی کوششوں میں اس قوم پر مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کے دام پچھلے ڈیڑھ سال میں جتنے بڑھائے گئے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں بڑھائے گئے۔ برسوں سے جاری حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا غریب عوام کو دی گئی۔

ملک اگر قرضوں میں ڈوبتا چلا گیا تو اس میں اس ملک کے عوام کا قصور ہرگز نہ تھا۔ جن لوگوں نے شاہ خرچیاں کیں یا جنھوں نے غلط پالیسیاں بنائی انھیں تو کوئی سزا بھی نہیں دی گئی، وہ تو چار پانچ سال حکومت میں رہ کر اتنی جائیدادیں بنا چکے ہوتے ہیں کہ جب کوئی مصیبت اس ملک وقوم پر آتی ہے تو وہ پہلی فرصت میں باہر نکل جاتے ہیں یا پھر اگر یہاں رہتے بھی ہیں تو انھیں اس مہنگائی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وہ اپنی اگلی سات نسلوں کے آرام و سکون کا پہلے ہی انتظام کرچکے ہوتے ہیں۔ عوام کا قصور یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ہی بار بار اپنا حکمراں بناتے رہتے ہیں۔ انھیں معلوم بھی ہے کہ یہ اُن کی راحت کا کوئی کام نہیں کریں گے مگر شاید عوام کے پاس کوئی اور چوائس بھی نہیں ہوتی۔ جو سیاستدان کچھ صاف ستھرے ہوتے ہیں تو انھیں عوام میں مقبول ہونے کا ہنر بھی نہیں آتا۔ یا اُن کی شکلیں ہمارے لوگوں کو پسند نہیں ہوتی۔

انھیں تقریر کرنے کا وہ سلیقہ اور انداز بھی نہیں آتا جو عوام کے دلوں کو لبھا سکے۔ جمہوری طرز حکومت میں مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کے لیے مسلسل مشکلیں پیدا کرتی رہتی ہے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہتی ہے، وہ اگر کوئی اچھا کام بھی کرنے جائے تو وہ اسے کرنے ہی نہیں دیتی۔ ہم سب کو اچھی طرح پتا ہے کہ PIA اور ریلوے سمیت ہمارے کئی ادارے مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں اور اُن کا یہ خسارہ عوام پر ٹیکس لگاکر پورا کیا جاتا ہے۔

مگر جب کوئی حکومت انھیں فروخت کر کے اُن سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے تو اپوزیشن مزدوروں کے حقوق کے نعرے لگا کر اسے فروخت کرنے نہیں دیتی۔ اسی طرح پندرہ سالوں سے پاکستان اسٹیل ملز بند پڑی ہے مگر اپوزیشن اسے نہ بیچنے دیتی ہے اور نہ نج کاری کرنے دیتی ہے۔ اربوں روپے اُن ملازمین کے تنخواہوں کی مد میں ہماری قوم اپنے خون پسینے کی کمائی سے دیتی رہتی ہے جو مل بند ہونے کی وجہ سے ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔

جمہوری حکومت کی مشکلیں تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے غیر جمہوری حکمرانوں نے بھی جو تن تنہا تمام اچھے برے اور سفیدوسیاہ کے مالک ہوتے ہیں اور انھیں کسی مزاحمت یا اپوزیشن کا بھی سامنا نہیں ہوتا انھوں نے بھی عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کیا۔ انھوں نے بھی ایسے اداروں سے جان نہیں چھڑائی۔ PIA ایک زمانے سے خسارے میں چل رہی ہے۔ جنرل مشرف چاہتے تو اس کی نج کاری کرسکتے تھے۔

میاں نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں جب بھی چاہا کہ PIA کو کسی نجی تحویل میں دے دیا جائے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت پاکستان پیپلزپارٹی نے کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے نہ اسے بیچنے دیا اور نہ اسے منافع بخش بنانے کی کوئی تجویز دی۔ وہ جب جب اس ملک میں برسر اقتدار آئی تو بھی اس نے اِن خسارے میں چلنے والے اداروں کا کوئی حل تجویز نہیں کیا۔


مزدوروں کی بھلائی اور ان کے حقوق کے نام پر اس نے اُن اداروں میں مزید بھرتی کر کے انھیں اور بھی زبوں حالی کا شکار ہی کیا۔ہماری اس تباہی اور بربادی کی داستان بہت طویل اور افسوس ناک ہے۔ ہم سے علیحدہ ہونے والا ملک بنگلادیش آج ہم سے آگے نکل چکا ہے اور وہ ایسی کسی مشکل کا شکار ہرگز نہیں جس سے ہم آج دو چار ہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم افغانستان کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔

بھارت چاند پر پہنچ گیا اور ہم دو وقت کی روٹی کے لیے بھی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنے ترقیاتی منصوبے کیا بنائیں گے جب زندگی ہی مشکل ترین ہوچکی ہو۔ بجلی کے بلوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جتنی قیمت بجلی کی ہے اتنے ہی اضافی چارجز اس میں مختلف ٹیکسوں کے ہیں۔ فیول ایڈجسمنٹ چارجز کے نام پر ہمیں ہر ماہ اپنے دو ماہ قبل ادا کیے جانے والے بلوں کی مزید قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔

یعنی جو سموسہ ہم نے مئی کے مہینے میں 30 روپے کا کھایا ہوتا ہے، اس کی قیمت چونکہ آج 40 روپے ہوچکی ہے لہٰذا یہ دس اضافی روپے ہم نے جولائی کے بل میں ادا کرنا ہونگے۔ یہ غیر منطقی اضافی چارجز شاید ہی دنیا میں کسی ملک میں لیے جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ ، یونیفارم کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ ، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مد میں ہم سے بہت بڑی رقم وصول کی جاتی ہے۔

بجلی کے بل ماہانہ باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے والوں کو اُن لوگوں کے چارجز بھی ادا کرنا ہوتے ہیں جو بل وقت پر ادا نہیںکرتے۔ چوری ہونے والی بجلی کی رقم بھی ریگولر صارفین سے وصول جاتی ہے۔ لائن لوسز LINE LOSESجو سراسر حکومت کا فالٹ ہے اس کا بھی جرمانہ اس قوم سے وصول کیا جاتا ہے ۔

ایک طرف غریب قوم کا یہ حال ہے اور دوسری طرف مراعات یافتہ وہ طبقہ ہے جو اس بد حالی کے دور میں بھی مفت بجلی اور مفت پٹرول کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ انھیں تاحیات جو دیگر اور سہولتیں میسر ہیں، اُن کی قیمت اور ہر جانہ بھی یہ غریب قوم ادا کرتی ہے۔ ہمارا ملک اگر آج ڈیفالٹ ہو جانے کی سطح تک پہنچ گیا ہے تو انھی ناانصافیوں اور بے ایمانیوں کی وجہ سے۔ افسوس کی بات ہے کہ کوئی عدالت عوام کے ساتھ ہونے والی ان سراسر ناانصافیوں اور زیادیتوں پر سوموٹو نہیں لیتی۔

اپنے محبوب لیڈر کے لیے تو وہ سخت مضطرب اور پریشان رہتی ہے لیکن عوام کی بھلائی کا خیال اسے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں آتا۔ ہمارے لوگ آج اگر بجلی کے بلوں کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے لوگوں نے دیر کردی ہے، وہ اگر پہلے نکل آئے ہوتے تو شاید بجلی اتنی مہنگی نہیں ہوتی۔

سری لنکا ڈیفالٹ کر جانے کے بعد بھی ہماری نسبت بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہاں بجلی کے دام اس قدر نہیں بڑھائے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی ڈیفالٹ ہوجانے کے بعد IMF کے پاس گئے ہیں۔ اس نے انھیں ایسی سخت شرائط پر نیا قرضہ نہیں دیا ہے جیسے ہمیں دیا ہے۔ سری لنکا دوبارہ کھڑا ہو رہا ہے مگر ہم مسلسل ڈوبتے جا رہے ہیں۔ نگراں حکومت نے عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے ہنگامی اجلاس تو بلا لیا ہے لیکن اس کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی تجویز بھی نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے۔

وہ یہ سب کچھ عوام کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے کررہی ہے۔ مگر لگتا ہے اس بار عوام خاموش نہیں ہونگے۔ اُن کے پاس اتنی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ یہ بل ادا کر پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی سیاستدان کی لیڈر شپ اور رہنمائی کے بغیر ہی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہ یہ کام کسی کے اکسانے پر نہیں کر رہے ہیں۔ اُن کے پاس کوئی اور دوسرا آپشن بچا ہی نہیں ہے، وہ یا تو خود کشی کر لیں یا پھر حکومت کو مجبور کر دیں کہ وہ بلوں سے تمام اضافی چارجز فوراً ختم کر دے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔
Load Next Story