جڑانوالہ واقعہ افسوسناک بین المذاہب ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے

تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پنجاب کی پہلی ’انٹرفیتھ ہارمنی پالیسی‘ ڈرافٹ کی گئی جو تاحال التوا کا شکار ہے

فوٹو : فائل

جڑانوالہ واقعہ کے حوالے سے''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔

جس میں اس کے مختلف پہلوؤں، رونما ہونے کے بعد کے اقدامات و دیگر حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

(چیئرمین رویت ہلال کمیٹی خطیب و امام بادشاہی مسجد لاہور)

جڑانوالہ واقعہ انتہائی دلخراش اور افسوسناک ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ وطن ہم سب کا ہے۔ ہم نے مل کر درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے اور کر بھی رہے ہیں۔ ہم دشمن کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مضبوط ہے، ہمارا دفاع بہترین ہے، ہم سب متحد ہیں لہٰذا اس کی کوئی سازش، کوئی چال کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

فوج کے سپہ سالار سید حافظ عاصم منیر نے بیان دیا ہے کہ جنہوں نے عبادتگاہیں اور گھر جلائے، جب تک انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچاتے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ میرے نزدیک اس سے بہترین پیغام کوئی نہیں ہوسکتا، دشمن کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانی پڑے گی۔

دین اسلام انسانیت اور مذاہب کے احترام کا درس دیتا ہے۔ تمام الہامی کتب کی تکریم ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کیا مسیحیوں کی عباتگاہوں میں بائبل نہیں تھی؟ہم سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر افسردہ ہیں۔ بائبل جلانے والوں نے بھی وہی کام کیا جو سویڈن میں ہوا۔ ہم اس کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اس کی توہین کی شدید مذمت بھی کرتے ہیں۔

ہمیں کسی بھی موقع پر تحمل، بردباری اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔اگر کوئی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ ریاست کا کام ہے کہ اسے سزا دے، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ سڑکوں پر فیصلے کرے۔

اسلام احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، یہ کون لوگ ہیں جو عبادتگاہیں اور گھر جلا رہے ہیں؟اس وقت تک 174 افراد گرفتار ہوچکے ہیں اور مزید گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ میں اب تک جڑانوالہ کے 3 دورے کر چکا ہوں۔

میں نے ، آرچ بسپ سباسٹین شا کے ساتھ وہاں کرسچن کالونی اور ایسے علاقے کا بھی دورہ کیا جہاں لوگ جانے سے گھبرا رہے تھے۔ ان متاثرین کو ہمارے جانے سے حوصلہ ملا۔ میں نے واضح پیغام دیا کے ہم مسیحیوں کے ساتھ ہیں اور اس افسوسناک واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی بحالی کیلئے انتظامات بھی کر رہے ہیں۔ پیغام پاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

اس پر 10 ہزار سے زائد علماء و اہم شخصیات کے دستخط ہیں۔ جو بھی ملک میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ اسی طرح جڑانوالہ واقعہ میں ملوث افراد کو بھی سخت سزا دی جائے۔

وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی خراج تحسین کے مستحق ہیں،ا ن کی ہدایت پر وہاں جلائے جانے والے چرچز اور گھروں کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے جو مثبت قدم ہے۔ ہم دنیا پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ غیر کا ایجنڈہ اپنے ملک میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 9 مئی اور واقعہ جڑانوالہ کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ ہم حکومت، فوج اور سپہ سالار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سب مل کر وطن عزیز کو مضبوط بنائیں گے۔

سباسٹین شا

(آرچ بشپ آف لاہور)

جڑانوالہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کرکے اس میں ملوث کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جس کا خوف بچوں اور خواتین کے دل سے کبھی نہیںنکل سکے گا۔ جہاں مسیحیوں کی عبادتگاہیں اور گھر جلائے گئے وہیں بہت سے مسلمانوں نے مسیحیوں کو تحفظ دیا۔ ہمیں لوگوں نے بتایا کہ صبح جب اعلان ہوا تو مسلمانوں نے مسیحیوں کو جگایا کہ اپنی حفاظت کریں۔

کرسچن کالونی میں مسلمانوں نے مسیحیوں کے گھروں کے باہر کلمہ لکھ دیا، یہی وجہ ہے کہ وہاں کچھ ابتدائی گھر بچ گئے جن پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ ہم ان مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس وقت ہمیں آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ سے ایسے حوالہ جات لوگوں کو بتائے جائیں جن سے مسلم مسیحی اتحاد کو فروغ ملے۔ ہم سب پہلے پاکستانی ہیں پھر ہماری مذہبی وابستگی ہے۔ مسلمان اور مسیحی تو ایک دوسرے کے مذہب کو مانتے ہیں لہٰذا جو لوگ انتشار کو ہوا دے رہے ہیں یہ سازشی عناصر ہیں، ان کا ملکر قلع قمع کرنا ہوگا۔

جڑانوالہ واقعہ کے بعد بین المذاہب ہم آہنگی کے تمام گروپ متحرک ہوئے، سب نے آگ کو ٹھنڈا کرنے میں کردار ادا کیا۔ لاہور میں بین المذاہب ہم آہنگی کے گروپ زیادہ ہیں۔ علامہ طاہر محمود اشرفی، سراج الحق، مولانا عبدالغفور حیدری ،شیعہ سنی و دیگر مکتبہ فکر کے علماء نے جڑانوالہ کے دورے کیے۔ ان کا یہ عمل بتاتا ہے کہ ہم سب ساتھ ہیں، دشمن ہمیں علیحدہ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نے بھی وہاں کا دورہ کیا اور متاثرین کے سر پر ہاتھ رکھا۔


وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اس افسوسناک واقعہ کے بعد فوری طور پر اجلاس بلائے، وہاں کے خصوصی دورے کیے، انہوں نے چرچز اور گھروں کی فوری تعمیر کا حکم دیا جس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے ، ان کی ہدایت پر تمام ضروری اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ہمیں لوگوں کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔

اعجاز عالم آگسٹین

(سابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب )

سانحہ جڑانوالہ یقینی طور پر انتہائی افسوسناک ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کی جتنی بدنامی ہوئی ہے، اس سے قبل نہیں ہوئی۔ چند گھنٹوں میں 20 چرچ اور سینکڑوں گھر جلا دیے گئے ۔

لوگوں نے انتہائی مشکل سے اپنی جان بچائی، وہ اپنی ہی چھت سے محروم ہوگئے۔ یہ ایسا دلخراش واقعہ ہے جس کا درد کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ریاست کو روڈ میپ بنا کر کام کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کون لوگ ہیں جو ملک کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس میں مسیحی ہو ، مسلم ہو یا کوئی اور، جو بھی ہے اسے سامنے لائیں اور سخت سزا دیں تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ 2018ء سے 2022ء تک ، چار برسوں میں ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کے فروغ کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا۔ اس وقت میں وزیر تھا، میں نے، مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد، آرچ بشپ سباسٹین شا اور دیگر نے مل کر دن رات ایک کیا۔

بادشاہی مسجد ، گورنر ہاؤس و دیگر مقامات پر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے بڑے بڑے پروگرامز منعقدکیے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح ضلعی سطح پر مذہبی ہم آہنگی کیلئے کمیٹیاں قائم اور فعال کی گئیں، انہی کمیٹیوں کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہوتے ہی ختم کر دیے گئے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں افسوسناک واقعات کو رونما ہونے سے بچایا گیا جس میں تمام مذاہب کے رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا، خود مسلمان علماء اس میں پیش پیش رہے اور آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

جب تک مقامی علمائ، رہنما و شخصیات شامل نہ ہوں، لوگوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم نے بڑے علمائ، رہنما اور دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ مقامی علماء و شخصیات کو بھی آن بورڈ لیا تھا، انہیں کمیٹیوں میں شامل کیا اور ان کے ذریعے مسائل کو ہر ممکن انداز میں حل کیا۔ اب جبکہ جڑانوالہ کا واقعہ رونما ہوا ہے تو مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ فیصل آباد کی انٹر فیتھ کمیٹیوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا حالانکہ انہی کمیٹیوں نے ہمارے دور میں 4 افسوسناک واقعات کو ہونے سے روکا تھا۔

اب قابل تشویش بات یہ ہے کہ ہمیں ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے سے انتشار اور تصادم کے واقعات کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ سانحہ جڑانوالہ کے بعد تواتر کے ساتھ افسوسناک واقعات کا ہونا معمولی نہیں، ریاستی اداروں کو سوچنا چاہیے کہ یکدم ایسا کیوں ہو رہا ہے،کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہمیں مل کر دشمن کی چال کو روکنے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے جامع پالیسی بنا کر کام کیا جائے۔

ہم نے پنجاب میں ملک کی پہلی انٹر فیتھ پالیسی ڈرافٹ کی تھی جو تاحال التوا کا شکار ہے حالانکہ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہے۔

یہ ایک ایسی جامع پالیسی ہے جس سے صوبے میں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ اور انتشار کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ اس فورم کے ذریعے میرا مطالبہ ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی پالیسی کو ہنگامی بنیادوں پر منظور کرکے فوری نافذ العمل کیا جائے۔ اگر اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوا تو انتشار پھیلانے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

شاہد رحمت

(نمائندہ سول سوسائٹی )

18 ویں ترمیم کے بعدانسانی حقوق، اقلیتی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کا سبجیکٹ صوبوں کے پاس آگیا۔ صوبے میں اس حوالے سے محکمہ بنا دیا گیا مگر بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے صوبے میں کوئی پالیسی موجود نہیں تھی۔ ہم نے محکمہ اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر 2 برسوں کی طویل مشاورت اور محنت سے یہ پالیسی ڈرافٹ کی۔ اس میں علماء کرام، بشپ صاحبان، وکلائ، اکیڈیمیا، طلبہ سمیت دیگر کی آراء لی گئی۔

ہم نے بزنس چیمبرز کو آن بورڈ لیا کہ کس طرح وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے فنڈز دے سکتے ہیں۔ ہم نے بطور سول سوسائٹی اپنا کام کر دیا۔ اب یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس موجود ہے۔ میرے نزدیک یہ ایسا بہترین بل ہے کہ اگر یہ نافذالعمل ہوتا تو جڑانوالہ جیسا افسوناک واقعہ رونما نہ ہوتا لہٰذا اسے جلد منظور کر کے رائج کرنا چاہیے۔

اس پالیسی کے بہت سے نکات ہیں جن میں تین سب سے اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی بھی ممکنہ خطرے کی پیشگی اطلاع کا نظام بنایا جائے۔ اگر یہ نظام موجود ہوتا تو جڑانوالہ واقعہ جو صبح 5 بجے سے شروع ہوا، اس پر ہنگامی اقدامات کیے جاتے اور تصادم کوروک لیا جاتا۔ دوسرا نکتہ ، ضلعی امن کمیٹیوں کو فعال بنانا ہے۔ یہ کمیٹیاں موجود ہیں مگر فعال نہیں ۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ آج بھی جہاں ضلعی کمیٹیاں فعال ہیں وہاں بہت سے تصادم کے واقعات ہونے سے بچ گئے لہٰذا ضلعی امن کمیٹیوں کو اختیارات اور وسائل دیکر فوری طور پر فعال بنایا جائے۔

تیسرا نکتہ لاؤڈ سپیکر ایکٹ پر عملدرآمد ہے۔ اس واقعہ میں بھی لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہوا جس کے ذریعے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا لہٰذا اگر لاؤڈ سپیکر ایکٹ پر عملدرآمد ہوتا تو یہ مسئلہ اتنا زیادہ نہ ہوتا۔ ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ تعلیمی نصاب میں نفرت آمیز مواد موجود ہے۔

اس کے علاوہ ایسی کتب بھی شائع ہوتی ہیں جن میں نفرت اور انتشار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ہم اس حوالے سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایسا سافٹ ویئر تیار کر ر ہے ہیں جو کسی بھی لٹریچر میں نفرت انگیز مواد کی تشخیص کرے گا، یقینا اس سے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
Load Next Story