ایک ملک اور کئی کھلاڑی
پاکستان اقبال کا خواب اور ہمارے قائد کی تعبیر ہے جس کو کبھی مٹایا اور جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔
اے صاحب سنا تو آپ نے ہو گا ہی کہ کھیل تو کھیل ہوتا ہے چاہے ہاکی کاہو یا فٹ بال کا ۔ کرکٹ کا ہو یا کبڈی کا، کھیل کشتی کا ہو یا گلی ڈنڈے کا کھیل تو کھیل ہوتا ہے ۔ کھیل امیر کھیلے یا غریب کھیل تو کھیل ہی رہے گا۔ میدان چا ہے کرکٹ کا ہو یا ہاکی کا۔ فٹ بال کاہو یا سکوائش کا۔ اصلی ہو یانقلی ہو ، قومی ہو یا بین لا اقوامی، دوکھیلیں یا چار۔ پانچ کھیلیں یا سات، بلے سے کھیلیں یا ڈنڈے سے، ہاتھ سے کھیلیں یا پائوں سے،دل و دماغ سے لگائیں یا جسم سے کھیل تو کھیل ہوتا ہے ۔
محترم یہ سارے کھیل ہمارے ملک میں بھی مقبول ہیں مگر کھیل تو وہ ہی ہیں لیکن ان کے مطلب بدل گئے ہیں ہم کرکٹ نہیں سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں، ہاکی اور فٹ با ل نہیں بلکہ جوا کھیلتے ہیں۔ خون کی ہولی کا کھیل،ظلم وزیادتی کا کھیل، نفرت اور حسد کا کھیل، کینہ و بغض کا کھیل، دہشتگردی اور انتہا پسندی کا کھیل، بے حیائی اور بدکاری کا کھیل، کھینچا تانی کا کھیل، عدم برداشت کا کھیل، صوبائی تعصب کا کھیل، کردار کشی کا کھیل ۔ یہاں پر سیاستدان بھی کھیلتے ہے مگر لوٹوں کے ساتھ ۔وکیل اور صحافی بھی کھیلتے ہیں لیکن جھوٹ کے ساتھ۔ جج اور افسر بھی کھیلتے ہیں مگر رشوت خوری کے سا تھ، چوراورڈاکو بھی کھیلتے ہیں لوگوں کی عزت اور مال کے ساتھ، امیر پیسوں سے کھیلتے ہیں اور غریب غربت سے کھیلتے ہیں ۔ استاد بھی کھیلتے ہیں مگر بچوں کے مستقبل کے ساتھ ا ور کھیلتے ہیں ڈاکٹرز بھی مگر معصوم لوگوں کی جا نوں کے ساتھ۔ بچے بھی کھیلتے ہیں مگر ماں باپ کی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ۔
یہ ملک نہیں بلکہ کھیل کا میدان ہے ۔ جہاں سب مل کر اس ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کہنا مناسب ہو کہ سب تماشہ کھیل رہے ہیں۔جب سے پاکستان بنا ہے تب سے اب تک سب اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنے بھی اور غیربھی۔ قرار داد پاکستان کا منظور ہونا،پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا سفاکی سے قتل ہونا ، اسکندر مرزا کااقتدار میں آنا اور ایوب کا مارشل لاء لگانا، ورلڈبنک کا سندھ طاس کے معاہدے پر پاکستان کے دستخط کروانا۔ پاک اور بھارت کے درمیان جنگ کا اچانک شروع ہو کر ختم ہو جانا یہ بھی کھیل تھا ۔
ایوب کا استعفی دینا اور یحیی کا مارشل لاء لگانا بھی کھیل تھا، پہلے عام انتخابات میں مجیب الرحمان کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا، 1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان کا ٹوٹ کربنگلہ دیش بن جانا، ذولفقار علی بھٹو کا عوام کو روٹی، کپڑا اورمکان کا لالچ دے کر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جانا یہ بھی سیاسی کھیل تھا۔
بھٹو کا ضیاء الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا،اور ضیاء الحق کا مارشل لگانا اور بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلا کر اس کو پھانسی پر لٹکانا بھی ایک انہونا کھیل تھا۔ضیاءالحق کا نواز شریف کو پنجاب کا وزیرا علی بنانا اور پھرضیاالحق کے طیارے کا ہوا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا بھی ایک عجیب خفیہ کھیل تھا۔
11 سال تک بے نظیر اور نواز شریف کا باربار حکومت میں آنا اور جانا۔ نواز شریف کا مشرف کو آرمی چیف بنانا، کارگل کے مسئلے کا سامنے آنا، ایک سمجھوتے کے تحت نواز شریف کا بچ کر با ہر جانا بھی ایک پوشیدہ کھیل تھا۔
ق لیگ اور متحدہ مجلس عمل کو بنا کر مشرف کا 2002ء کے انتخابات کے بعد پہلے ظفر اللہ جمالی اور بعد میں شوکت عزیز کو بطور وزیراعظم کرسی پر بٹھانا۔پاکستان کے قبائلی علاقو ں میں ڈرون حملوں کا شروع ہوجانا،۔پورے پاکستان کا دہشتگردی کی زد میں آجانا اور پھر پاکستان اور امریکہ کا ایک دوسرے پر الزام لگانابھی ایک سچا کھیل تھا۔
مارچ 2007 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو عہدے سے ہٹانا اور اسکا بحال ہو جانا، مشرف کادوبارہ 2007 میں ایمرجنسی لگانا۔ نواز شریف اور بے نظیر کا ایک ڈیل کے تحت واپس آجانا اور بے نظیر کا اسی سال دسمبر میں قتل ہو جانا۔ زرداری کا پاکستان آنا اور پھر اس زرداری کاپاکستان پیپلز پارٹی کا شریک چئیرمین بن جانا، اور انتخابات جیت کر اس ملک کا صدر بن جانا۔ فوج اور عدلیہ کے ساتھ مک مکا کر کے پانچ سال پورے کرکے جانا بھی ایک کھیل کا ہی حصہ ہے۔
بیچ میں عمران خان کے سونامی آجانا اور کبھی طاہرالقادری کے انقلاب آجانا۔اشفاق پرویز کیانی، افتخارچوہدری اور زرداری کا2013 میں اکٹھا گھر کوجانا بھی ناقابل یقین کھیل تھا۔کچھ میڈیا گروپوں کا ملکی سیاست پر اثرانداز ہو جانا۔ نجم سیٹھی کو پنجاب کا نگران وزیراعلی بنوانا۔ نواز لیگ کا پورے پنجاب میں کلین سویپ کرجانا اور بعد میں نجم سیٹھی کا کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بن جانا۔مشرف کا واپس آنا اور اس پر غداری کا مقدمہ چلانا اور اس مسئلے پر حکومت اور فوج کا آمنے سامنے آنا۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کا شروع ہوجانا اور بے نتیجہ ثابت ہو نا بھی کسی حفیہ کھیل کا ہی حصہ ہے۔ یہ سب وہ کھیل ہیں جو اس ملک کے ساتھ کھیلے گئے اور کھیلے جا رہے ہیں۔ اب فرق صرف یہ ہے کہ کھلاڑی بدل گئے ہیں۔
ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے اس ملک کے ساتھ کھیلا صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے کھیلا۔مگر جس کھلاڑی نے زیادتی اور نا انصافی کا کھیل کھیلا وہ بعد میں خود بھی دوسروںکا کھیل بنا اور اپنے انجام کو پہنچا۔ جس نے اس کے خلاف کوئی سازش کی وہ خود کسی سازش کا شکار ہو کر نیست و نا بود ہو گیا۔ جس نے اس ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کی وہ خود کمزور ہوگیا۔ جس نے اس ملک کو توڑنے کی سازش کی تھی وہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کے سامنے نشان عبرت بن گئے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے کھلاڑیوں کی وجہ سے کمزور ہوچکا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے بھی پاکستان کو مٹانے کی کوشش کی وہ خود عبرت کا شکار ہوگیا۔ پاکستان اقبال کا خواب اور ہمارے قائد کی تعبیر ہے جس کو کبھی مٹایا اور جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔
غالب نے بھی خوب کہا ہے کہ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیامیرے آگے
ہوتاہے شب و روزتماشہ میرے آگے
ایک بات اورنگ و سلمان میرے نزدیک
اک کھیل اعجاز مسیحا میرے آگے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
محترم یہ سارے کھیل ہمارے ملک میں بھی مقبول ہیں مگر کھیل تو وہ ہی ہیں لیکن ان کے مطلب بدل گئے ہیں ہم کرکٹ نہیں سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں، ہاکی اور فٹ با ل نہیں بلکہ جوا کھیلتے ہیں۔ خون کی ہولی کا کھیل،ظلم وزیادتی کا کھیل، نفرت اور حسد کا کھیل، کینہ و بغض کا کھیل، دہشتگردی اور انتہا پسندی کا کھیل، بے حیائی اور بدکاری کا کھیل، کھینچا تانی کا کھیل، عدم برداشت کا کھیل، صوبائی تعصب کا کھیل، کردار کشی کا کھیل ۔ یہاں پر سیاستدان بھی کھیلتے ہے مگر لوٹوں کے ساتھ ۔وکیل اور صحافی بھی کھیلتے ہیں لیکن جھوٹ کے ساتھ۔ جج اور افسر بھی کھیلتے ہیں مگر رشوت خوری کے سا تھ، چوراورڈاکو بھی کھیلتے ہیں لوگوں کی عزت اور مال کے ساتھ، امیر پیسوں سے کھیلتے ہیں اور غریب غربت سے کھیلتے ہیں ۔ استاد بھی کھیلتے ہیں مگر بچوں کے مستقبل کے ساتھ ا ور کھیلتے ہیں ڈاکٹرز بھی مگر معصوم لوگوں کی جا نوں کے ساتھ۔ بچے بھی کھیلتے ہیں مگر ماں باپ کی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ۔
یہ ملک نہیں بلکہ کھیل کا میدان ہے ۔ جہاں سب مل کر اس ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کہنا مناسب ہو کہ سب تماشہ کھیل رہے ہیں۔جب سے پاکستان بنا ہے تب سے اب تک سب اس کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنے بھی اور غیربھی۔ قرار داد پاکستان کا منظور ہونا،پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا سفاکی سے قتل ہونا ، اسکندر مرزا کااقتدار میں آنا اور ایوب کا مارشل لاء لگانا، ورلڈبنک کا سندھ طاس کے معاہدے پر پاکستان کے دستخط کروانا۔ پاک اور بھارت کے درمیان جنگ کا اچانک شروع ہو کر ختم ہو جانا یہ بھی کھیل تھا ۔
ایوب کا استعفی دینا اور یحیی کا مارشل لاء لگانا بھی کھیل تھا، پہلے عام انتخابات میں مجیب الرحمان کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا، 1971کی جنگ میں مشرقی پاکستان کا ٹوٹ کربنگلہ دیش بن جانا، ذولفقار علی بھٹو کا عوام کو روٹی، کپڑا اورمکان کا لالچ دے کر وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جانا یہ بھی سیاسی کھیل تھا۔
بھٹو کا ضیاء الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنانا،اور ضیاء الحق کا مارشل لگانا اور بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلا کر اس کو پھانسی پر لٹکانا بھی ایک انہونا کھیل تھا۔ضیاءالحق کا نواز شریف کو پنجاب کا وزیرا علی بنانا اور پھرضیاالحق کے طیارے کا ہوا میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا بھی ایک عجیب خفیہ کھیل تھا۔
11 سال تک بے نظیر اور نواز شریف کا باربار حکومت میں آنا اور جانا۔ نواز شریف کا مشرف کو آرمی چیف بنانا، کارگل کے مسئلے کا سامنے آنا، ایک سمجھوتے کے تحت نواز شریف کا بچ کر با ہر جانا بھی ایک پوشیدہ کھیل تھا۔
ق لیگ اور متحدہ مجلس عمل کو بنا کر مشرف کا 2002ء کے انتخابات کے بعد پہلے ظفر اللہ جمالی اور بعد میں شوکت عزیز کو بطور وزیراعظم کرسی پر بٹھانا۔پاکستان کے قبائلی علاقو ں میں ڈرون حملوں کا شروع ہوجانا،۔پورے پاکستان کا دہشتگردی کی زد میں آجانا اور پھر پاکستان اور امریکہ کا ایک دوسرے پر الزام لگانابھی ایک سچا کھیل تھا۔
مارچ 2007 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو عہدے سے ہٹانا اور اسکا بحال ہو جانا، مشرف کادوبارہ 2007 میں ایمرجنسی لگانا۔ نواز شریف اور بے نظیر کا ایک ڈیل کے تحت واپس آجانا اور بے نظیر کا اسی سال دسمبر میں قتل ہو جانا۔ زرداری کا پاکستان آنا اور پھر اس زرداری کاپاکستان پیپلز پارٹی کا شریک چئیرمین بن جانا، اور انتخابات جیت کر اس ملک کا صدر بن جانا۔ فوج اور عدلیہ کے ساتھ مک مکا کر کے پانچ سال پورے کرکے جانا بھی ایک کھیل کا ہی حصہ ہے۔
بیچ میں عمران خان کے سونامی آجانا اور کبھی طاہرالقادری کے انقلاب آجانا۔اشفاق پرویز کیانی، افتخارچوہدری اور زرداری کا2013 میں اکٹھا گھر کوجانا بھی ناقابل یقین کھیل تھا۔کچھ میڈیا گروپوں کا ملکی سیاست پر اثرانداز ہو جانا۔ نجم سیٹھی کو پنجاب کا نگران وزیراعلی بنوانا۔ نواز لیگ کا پورے پنجاب میں کلین سویپ کرجانا اور بعد میں نجم سیٹھی کا کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بن جانا۔مشرف کا واپس آنا اور اس پر غداری کا مقدمہ چلانا اور اس مسئلے پر حکومت اور فوج کا آمنے سامنے آنا۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کا شروع ہوجانا اور بے نتیجہ ثابت ہو نا بھی کسی حفیہ کھیل کا ہی حصہ ہے۔ یہ سب وہ کھیل ہیں جو اس ملک کے ساتھ کھیلے گئے اور کھیلے جا رہے ہیں۔ اب فرق صرف یہ ہے کہ کھلاڑی بدل گئے ہیں۔
ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے اس ملک کے ساتھ کھیلا صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے کھیلا۔مگر جس کھلاڑی نے زیادتی اور نا انصافی کا کھیل کھیلا وہ بعد میں خود بھی دوسروںکا کھیل بنا اور اپنے انجام کو پہنچا۔ جس نے اس کے خلاف کوئی سازش کی وہ خود کسی سازش کا شکار ہو کر نیست و نا بود ہو گیا۔ جس نے اس ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کی وہ خود کمزور ہوگیا۔ جس نے اس ملک کو توڑنے کی سازش کی تھی وہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کے سامنے نشان عبرت بن گئے ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے کھلاڑیوں کی وجہ سے کمزور ہوچکا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے بھی پاکستان کو مٹانے کی کوشش کی وہ خود عبرت کا شکار ہوگیا۔ پاکستان اقبال کا خواب اور ہمارے قائد کی تعبیر ہے جس کو کبھی مٹایا اور جھٹلا یا نہیں جا سکتا۔
غالب نے بھی خوب کہا ہے کہ۔
بازیچہ اطفال ہے دنیامیرے آگے
ہوتاہے شب و روزتماشہ میرے آگے
ایک بات اورنگ و سلمان میرے نزدیک
اک کھیل اعجاز مسیحا میرے آگے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔