میری ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور ممتا کیا چیز ہے، کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں.

پیار کہتے ہیں کسے اور ممتا کیا چیز ہے، کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں.

حسب معمول آج پھر گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ رات کے آخری پہر عجیب سی وحشت ، سنناٹا اور خاموشی سے خوف سا آتا ہے۔ دن بھر کے شور شرابے کے بعد رات میں سڑکیں بھی شاید سکون کا سانس لیتی ہیں اور سڑک پر آوارہ پھرنے والے کتے بھی اپنے ٹھکانوں میں سکون سے صبح کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔


دل میں یہی سوچتا ہوا موٹر سائیکل دوڑا رہا تھا کہ آج پھر ابّا غصّہ کریں گے ڈانٹ کھانا پڑے گی پتا نہیں کتنی دیر میں دروازہ کھلے گا یا کہیں آج واقعی ابّا اماں کو دروازہ نہیں کھولنے دیں گے۔ انہی سوچوں میں گم گھر پہنچا اور دروازے پر ڈرتے ڈرتے دستک دی۔ اور پھر ابّا کی وہی آواز آج اگر تم نے دروازہ کھولا تو تمہیں بھی اس کے ساتھ باہر رات گزارنا پڑے گی مگر اسے میرا چہرہ دیکھے بغیر کہاں قرار آتا تھا شوہر کی ناراضگی تو مول لے سکتی تھی مگر اپنے لخت جگر سے دور نہیں رہ سکتی تھی اور میں اسی محبّت کا ہر روز ناجائز فائدہ اٹھاتا بلاخر آج بھی دروازہ کھلا، میں دبے قدموں گھر میں داخل ہوا اور میری ماں نے وہی روایتی انداز میں محبّت بھرا غصّہ دکھانا شروع کردیا۔ کتنی بار تجھے سمجھایا ہے وقت پر گھر آجایا کر مگر تجھے میری بات کہاں سمجھ آتی ہے پتا نہیں یہ تیرے دوست کیا گھول کے پلاتے ہیں کہ تجھے ماں یاد ہی نہیں آتی ، گھر کی کچھ فکر ہے کوئی کام ہو کوئی ضرورت ہو مگر وہی لا پرواہی کل سے اگر دیر سے آیا تو واقعی دروازہ نہیں کھولوں گی پھر گزرنا رات سڑکوں پر اور میں ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا ہے۔ اور اگر کبھی اماں زیادہ ڈانٹتیں تو الٹا انہی سے ناراض ہو جاتا آج بھی ایسا ہی کیا تھوڑی دیر کو تو اماں ڈرانے کے لئے منہ بسور کر بیٹھیں مگر تھوڑی میں خود ہی ٹھیک ہو جاتیں سر پہ ہاتھ پھیرتیں۔


اور پوچھتیں


کھانا کھا لیا ؟


میں کہتا


مجھے بھوک نہیں ہے


پھر کہتیں چل اب غصّہ تھوک دے تیری فکر ہوتی ہے ہمیں اسلئے سمجھاتے ہیں۔ میں اور تیرے ابّا تیرے لئے رات بھردعائیں کرتے ہیں جب ہم مر جائیں گے تو جو مرضی کرتے رہنا پھر کوئی تجھے روکنے والا نہیں ہوگا اور یہ جذباتی جملے میری ساری ناراضگی دور کر دیتے میں یہ باتیں سن کر کہتا ماں تو ایسی باتیں کیوں کرتی ہے اور فوراً ٹھیک ہو جاتا۔


لبوں پہ اسکے کبھی بدعا نہیں ہوتی


ایک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی


اور پھر اماں کہتیں


چل جا جلدی سے کپڑے بدل کر آ جا تیرے لئے گرم گرم روٹی بنا دیتی ہوں تیری پسند کا سالن بھی بنایا ہے۔



اور جب تک میں کھانا ختم نہ کرلیتا میرے پاس بیٹھی مجھے دیکھتے رہتی اپنے دن بھر کی باتیں بتاتی اور پھر سر کی مالش کرتی اور پتا نہیں کب تک میرا سر دباتے رہتی میں تو فوراً ہی خوابوں کی نگری میں چلے جاتا مگر وہ جانے کب تک میرے بالوں پر ہاتھ پھیرتے رہتی۔


اور ہر صبح مجھ سے زیادہ میری فکر کرتی اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواتی دن کے لئے کھانا باندھ کر دیتی اور پورا کھانا خود کھانے کی نصیحت کرتی گھر سے نکلتے وقت دعا پڑھ کر پھونکتیں۔ میں پوچھتا ماں تو روز میرے لئے کیا دعا کرتی ہے تو کہتیں پگلے یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے بس جب میں مر جاؤں تو پھر ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا اور میں عجیب سے کیفیت میں ماں کو خدا حافظ کرتے روانہ ہو جاتا۔ وہ مجھے اس وقت تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتی جب تک میں نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتا۔


روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے کہ آج دن میں کھانے کے بعد دفتر کے عقب میں واقع شہر کے معروف شاپنگ پلازہ گیا تو وہاں ماں کے دن کی مناسبت سے غباروں کی مدد سے لکھے گئے لفظ ماں پر نظر پڑی تو اماں کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آگیا۔


ماں ایک ایسا لفظ جسے ادا کرتے ہی دونوں ہونٹ ایک دوسرے کو چھو لیتے ہیں جیسے اس عظیم ہستی کو بوسہ دے رہے ہوں ماں تپتی دھوپ میں سایہ دار درخت ، تپتے صحرا میں نخلستان ، حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ، سردی میں دھوپ کی چادر اور گرمی میں برسات اور بقول شاعر


ماں تو دنیا میں رب کا ہی دوسرا روپ ہے


ماں جس کا جوان وجود بچوں کی فکر کی وجہ سے بوڑھا نظر آنے لگتا ہے ماں جو اپنی پوری زندگی اپنی اولاد کے نام کر دیتی ہے جو اپنے لعل کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے جو مجھے اس وقت سے سمجھتی ہے جب سے میں نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں جب مجھے رونے کے سوا کچھ نہیں اتا تھا جو میری ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی پہاڑ کو سر کرنے کے لئے تیار رہتی جس نے ہاتھ پکڑ کر مجھے چلنا سکھایا اور جب میں دو قدم بمشکل رکھ پاتا تو ایسے خوش ہوتی جیسے کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو جس نے مجھے بولنا سکھایا اور جب میں دو ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتا تو ایسے ہنستی جیسے دنیا کی ساری خوشیاں میری زبان میں چھپی ہوں۔


اور آج جب میں نے دیکھنا سیکھا تو دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا جب میں نے بولنا سیکھ لیا تو میں اسکے سامنے خاموش بت بن جاتا جب میں نے چلنا سیکھ لیا تو میرے پاس اسکے پاس آنے کا وقت ہی نہیں میں اسکی باتوں کو سنتا نظرانداز کرتا اور بھول جاتا وہ ہستی جو بچپن میرے ایک ایک لفظ کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتی آج میرے منہ سے نکلے دو میٹھے بول کو ترستی ہے۔


انہی ساری باتوں کو ذہن میں لئے بوجھل قدموں سے میں واپس آفس آیا اور اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے میں نے آج کے خاص دن کی شام اپنی ماں کے محبت کے نام لکھ دی۔ اور بے ساختہ آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیر جاری ہو گئی۔


پیار کہتے ہیں کسے اور ممتا کیا چیز ہے


کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story