بجلی کا عذاب
لوڈ شیڈنگ پاکستان میں ایک ایسی مستقل بیماری بن چکی ہے جس کا علاج ممکن ہے لیکن اسے ناممکن بنایا جاچکا ہے۔
NEW DELHI:
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے کہ ہمارے ایک عزیز کے بچے نے نہایت حیرت سے ہمیں بتایا ''کیا آپ جانتی ہیں کہ ملائیشیا میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی وہاں ہر وقت بجلی آتی رہتی ہے'' ہمارے مسکرانے پر بچے نے مزید تفصیل بیان کی کہ اس کا کلاس فیلو کچھ عرصے قبل اپنی فیملی سمیت ملائیشیا شفٹ ہوگیا۔ نیٹ پر دونوں دوستوں کی بات چیت ہوتی رہتی ہے ۔ملائیشیا سے اس کے دوست نے پاکستان میں خیر خیریت پوچھی تو بچے نے یہاں کے اہم مسائل پر روشنی ڈالنا شروع کی اور بات بجلی کی انتہا پسندی پر جاکر رک گئی لیکن اس وقت اس بچے کو شدید شرمندگی اٹھانی پڑی جب اس کے ملائیشیا میں مقیم دوست نے اس سے کہا ''ارے گھامڑ! یہاں پاکستان کی طرح بجلی نہیں جاتی یہ بیماری تو صرف پاکستان میں ہی ہے''۔
لوڈ شیڈنگ پاکستان میں ایک ایسی مستقل بیماری بن چکی ہے جس کا علاج ممکن ہے لیکن اسے ناممکن بنایا جاچکا ہے۔ یہ ایک نہایت حیرت انگیز شرمناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایسے ذرائع موجود ہیں کہ جن سے توانائی حاصل کرکے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں بلکہ دوڑ سکتا ہے لیکن ہم اپنے آپ کو اس دوڑ میں پیچھے رکھنے کے ماہر بن چکے ہیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی صدائیں کئی بار ہم نے بھی سنی لیکن اس سے آگے کی کہانی کا نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ کہ کیا ہے اگلا باب؟
کچھ عرصہ قبل وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے جون تک نیشنل گرڈ میں چار ہزار دو سو پچاس میگاواٹ بجلی شامل کرنے کا اعلان تو کیا ہے امید رکھنے کی تو ہماری قوم کی اب عادت بن گئی ہے تو وہ عادت ہنوز قائم ہے اور جون میں اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔
چلیے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ نوجوان وزیر سابقہ وزیر بجلی کی طرح سہانے سپنے دکھانے سے آگے بھی کچھ دکھا سکیں ویسے اگر حکومت بجلی چوروں کو پکڑنے کا تہیہ کرلے تو بات آگے بن سکتی ہے لیکن اگر اپنے ہی دامن میں سو چھید ہوں تو کس کس چھید کو پیوند لگاوائیں گے کہ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے پورے پاکستان میں بجلی کے اپنے محکمے میں کتنے میر جعفر ہیں جو اپنے خفیہ خزانوں سے ہزاروں وولٹ بہاکر ہزاروں نوٹ اکٹھے کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ میرے اور آپ کے جیسے مظلوم صارفین کرتے ہیں جو بجلی کو سینت سینت کر استعمال کرتے ہیں کہ اس کے ایک ایک یونٹ کا حساب کتاب گھر کے بجٹ کو تہس نہس کردیتا ہے۔
دنیا بھر میں کھانے پکانے اور دوسرے ڈھیروں آلات بجلی سے چلتے ہیں لیکن ہمارا ملک پاکستان ایسا پیارا ملک ہے جہاں قدرتی گیس پر استعمالات کا ڈھیروں بوجھ ڈال دیا گیا ہے گاڑی سے لے کر گھر کے جنریٹرز تک اس کے مرہون منت ہیں اس طرح اگر بے بہا اس قدرتی ذریعے کو ضایع کرتے رہے تو شاید آئندہ نسلوں کے لیے گیس کے چولہے کہانی بن جائیں گے، دراصل ہمارے ملک میں جو چیز حرام اور مفت کاری کے خانے میں درج کردی جاتی ہے پھر اسے بچانا مشکل ہوجاتا ہے مثلاً مفت کا پانی مفت کی بجلی، مفت کی گیس کا استعمال آنکھیں بند کرکے کیاجاتا ہے اس صفت کے ساتھ وہ لگے بندھے پیسے ہوتے ہیں جو ماہانہ ادا کرکے مفت ہی پڑتے ہیں۔
کہیں پڑھا ہے کہ خدا کی نعمتوں کا شکر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ذمے داریوں کو پوری طرح ادا کریں لیکن نہ شکری تو ہماری فطرت میں شامل ہوچکی ہے پرائیویٹ اداروں میں تو کسی حد تک سختی ہوتی ہے لہٰذا ذمے داری مجبوری بن جاتی ہے لیکن سرکاری اداروں میں یہ ذمے داری بھرپور ناشکری کی صورت میں صارفین کے بلوں تک جا پہنچتی ہے ہماری ایک ساتھی کے بھائی ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھے بھلے افسر ہیں میانہ روی اختیار کرکے انھوں نے اپنے لیے سب کچھ میسر تو کر رکھا ہے لیکن مڈل کلاس کی روش پر بچ بچ کر قدم رکھتے، ان کے دفتر کے ایک معمولی ملازم کا تبادلہ دوسرے سیکشن میں ہوگیا کچھ عرصے کے ساتھ کام کیا تھا۔
لہٰذا ملازم کے دل میں اپنے افسر کے لیے محبت تھی ملنے چلے آئے، گفتگو کے دوران گرمی کے متعلق بھی بات چلی کہ اس شدید گرمی میں بجلی چلی جاتی ہے بچوں کا تو حشر ہی برا ہوجاتا ہے، افسر نے محبت سے کہا کہ اس گرمی میں غریب انسان کیا کرے ایک تو بڑے بھاری بل دو پھر لوڈشیڈنگ الگ اب ایئرکنڈیشن لگوالیں تو ماہانہ بل کیسے دیں بس ہم تو یہی سوچ کر رہ جاتے ہیں ہمارا گھر میں یہ حال ہے اور تم تو فلیٹ میں رہتے ہو بچوں کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ ملازم نے ذرا نخوت سے جواب دیا:
''نہیں سر! میرا بیٹا تو اے سی میں رہنے کا عادی ہے'' افسر ذرا چونکے۔
''سر! میرے گھر میں تو تین تین اے سی لگے ہیں''۔
'' تین اے سی اچھا۔۔۔۔پھر تو تمہارا بجلی کا بل خوب آتا ہوگا'' افسر نے بمشکل تھوک نگلا۔
''نہیں سر! ہمارا بل تو فکس ہے تین ہزار روپے چاہے جتنی بھی بجلی خرچ کریں''۔
''اچھا تین ہزار روپے۔۔۔۔''
''لیکن ابھی ہمارے فلیٹس کی قیمت ذرا کم ہے کیونکہ ہمارے یہاں گیس نہیں ہے''۔
'' گیس نہیں ہے تو پھر تم کھانا کیسے پکاتے ہو؟''
''بجلی کا ہیٹر ہے ناں۔۔۔۔ہمارے گھر سب کچھ پکتا ہے، بریانی تو ہر ہفتے پکتی ہے''۔
''لیکن بجلی کے ہیٹر پر اتنا کچھ کیسے پکتا ہے؟''بے چارہ افسر متحیر تھا۔
''سر! ہزار وولٹ کا ہے ہیٹر''
اس توانائی کی چوری میں قصوروار کون ہے۔۔۔۔ میں۔۔۔۔آپ یا وہ ملازمین جو چند ہرے نوٹوں میں قوم کی توانائی کوڑیوں کے مول بیچ رہے ہیں۔ یا ہمارے حکمران جو بیان بازیوں میں اتنے آگے تک چلے جاتے ہیں کہ اگر حقیقتاً بی جمالو بھی سامنے آجائے تو کانوں کو ہاتھ لگالے یا پھر ہم سب ۔۔۔۔جو بہت کچھ جانتے بوجھتے بھی گونگے بہرے اور اندھے بنے رہتے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح ٹٹول ٹٹول کر راستہ چلنے کے عادی ہوتے گئے تو امید ہے کہ کوئی نہ کوئی بڑا سا گڑھا یا کنواں جلد ہی پالیں گے۔ہم وہی ہیں ناں جو قائد اعظم کی قیام گاہ کی بجلی کٹوانے پر کانوں میں سیسہ ڈالے بیٹھے تھے کہ وہاں کا بل چند لاکھ پہنچ گیا تھا اور اس اتنے بڑے غریب ملک میں کوئی اس ملک کے بانی کی قیام گاہ کا بل ادا نہیں کرسکتا تھا، ہم وہی ہیں جو سپریم کورٹ کی بجلی بھی کٹوا سکتے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ امر پسند آئے نہ آئے لیکن ذمے داری کے حوالے سے بھرپور تھا لیکن یہ کیسی ذمے داری تھی جو عدالت کو تو نہ چھوڑے لیکن اپنے دامن کے چھوٹے چھوٹے چھیدوں کو پیوند لگانے کی زحمت نہ کرے کہ یہ چھید پورے ستر کو بھی عریاں کرسکتے ہیں، ذرا دیکھیے۔۔۔۔اپنی دوربین میں خوردبین کے عدسے فٹ کروائیے کہاں کہاں کیا کیا فکس ہے اسے سنبھالیے۔ توانائی بچائیے ذمے داری نبھائیے اورخدا کے شکر گزار بندوں کی فہرست میں شامل ہوجائیے۔