حکمران اور عوام
جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ '' ایسا ممکن نہیں کہ عام آدمی مشکل میں ہو اور افسر شاہی اور وزیرِ اعظم ان کے ٹیکس پر مفت بجلی استعمال کریں۔
تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری کی روک تھام کا روڈ میپ پیش کریں، بجلی کے شعبے کی اصلاحات اور قلیل، وسط اور طویل مدتی پلان پیش کیا جائے۔
بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو عوام کے ساتھ نا انصافی کی علامت ہے۔
عوام بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے بلبلا اٹھے ہیں، پورے ملک میں مظاہرے اور احتجاج جاری ہے، شہروں اور قصبوں میں لوگ بل نہ ادا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں، راستے بلاک کیے جا رہے ہیں اور بجلی کے بل نذر آتش ہو رہے ہیں۔
بجلی کمپنیوں کا اضافی یونٹ بلز میں شامل کرنا، بجلی چوری کا تدارک نہ کرنا، سرکاری افسروں اور ملازمین کومفت بجلی کے کروڑوں یونٹ کی تقسیم اور بد عنوانی کی شکایات پر حکومت اور بجلی کمپنیوں کی بے حسی شہریوں میں غصے کی شدت بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔
کوئی بھی حکومت اس حوالے سے قابل عمل پالیسی متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامیوں اور ساری خرابیوں کا ملبہ عالمی مالیاتی ادارے پر گرا کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرتی رہیں۔ بجلی کا بل محض بجلی کی قیمت نہیں ہے۔ بل میں چالیس فیصد رقم مختلف قسم کے ٹیکس کی مد میں ہے۔ سلیب سسٹم کے نام پر ایک پیچیدہ نظام مسلط کیا گیا ہے۔
صارفین اس سٹسم سے آگاہ نہیں ہیں، میٹر ریڈر کی ریڈنگ پر کوئی چیک نہیں۔ قانون پسند صارفین مہنگی بجلی سے پریشان ہیں ، بجلی چوری کرنے والوں اور سرکاری مراعات کے تحت مفت بجلی استعمال کرنے والوں کا بل بھی قانون پسند صارفین پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے ، ان حالات میں لوگوں کا غصہ بلا جواز نہیں۔ یہ پالیسی کہ ہر مراعات یافتہ طبقات کا بوجھ قانون پسند شہریوں پر لاد دو، کب تک چل سکتی ہے۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
بجلی چوری کرنے والے اور سرکاری مراعات کی مد میں مفت بجلی استعمال کرنے والے موج مستی کرتے رہیں جب کہ پورا بل ادا کرنے والے صارفین بجلی کے بل دینے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوجائیں، یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔
نگران حکومت کے چند دنوں میں ہی مہنگائی اپنی نئی حدوں کو چھو رہی ہے، ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ ہو گیا ہے، یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کا تھیلا مہنگا کر دیا گیا ہے۔
پٹرول، بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کوئی سوال کرے تو اسے یہی جواب ملتا ہے کہ حالات خراب ہیں ،عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے۔ جب حکومتی سطح پر ایسی بے بسی ہے تو عوام کی بے بسی کا عالم کیا ہوگا۔ کیا انھیں غیبی امداد کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مایوسی کے عالم میں عوام ایسے راستے اختیار کریں جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل غم سے بوجھل ہو جاتا ہے۔
بجلی کے مفت استعمال کے ساتھ دوسرا مسئلہ بجلی چوری کا ہے، پورے ملک میں دیدہ دلیری سے بجلی چوری کی جارہی ہے، یہ کام بااثر طبقہ کرتا ہے، خیبر پختونخوا،بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بجلی چوری کرنا معمول کی بات ہے۔
کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ حتیٰ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں دھڑلے سے بجلی چوری ہوتی ہے۔مالی سال 2022-23 میں 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔
ایک اندازے کے مطابق رواں سال یہ نقصان 520 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں سال 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی جس میں سے 200 ارب روپے کنڈوں اور 80 ارب روپے میٹرز اور دیگر ذرایع سے چوری ہوئے۔ بجلی چوری کی وجہ سے وہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو بر وقت اپنے واجبات جمع کراتے ہیں۔ ان پر ماہانہ 220 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بجلی کمپنیوں کو کھپت میں کمی اور اس کے نتیجے میں اضافی صلاحیت پر اٹھنے والے اخراجات صارفین کو منتقل کرنے کے ایک شیطانی چکر میں ڈال دیا ہے۔
چاروں صوبوں میں لگ بھگ دو سو وزرا، مشیران اور معاون خصوصی ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے صرف وفاق میں پچاسی افراد کی کابینہ بنا رکھی تھی۔
ان میں سے ہر ایک کو ماہانہ ایک ہزار سے تین ہزار یونٹ تک مفت بجلی ملتی رہی۔ کئی شعبوں کے سربراہ بلوں کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ سب لوگ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے کی تنخواہ و دیگر مراعات پاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ مفت کی بجلی کا بے دردی سے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ہماری اشرافیہ کے بارے میں عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے سفارت کار یہ بھی یہ کہتے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر پاکستانی عوام کے ٹیکسوں اور غیرملکی قرضوں سے عیاشیاں کرتے ہیں ، پاکستان کے لیے کئی امدادی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان میں جاگیردار، درگاہوں، مدارس چلانے والے سیاسی علما اور سیاسی گدی نشین ، پیر اور کارپوریٹ مالکان پر مشتمل ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ 1.7 ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفرااسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔
کچھ دن جاتے ہیں سینیٹ نے مالیاتی (ضمنی) بل 2023 کے ذریعے ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کے لیے بل کی سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور ایوان میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کے لیے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10 لاکھ روپے ملتے ہیں، بجلی ، پٹرول اور فون کی مد میں بھی مراعات ملتی ہیں حالانکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں سرکاری عمال کے لیے اس لگژری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وزراء اور دیگر سرکاری عہدے دار سرکاری بلٹ پروف لگژری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ، جب کہ 'دیگر بڑے افراد' کے پاس ایسی لگژری اور بھاری گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔
کیا پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو بھی کوئی یہ احساس دلا سکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پاکستان میں انارکی اور بدامنی کو جنم دے رہی ہے ۔
حالات اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ حکمرانوں نے حالات کی سنگینی کا احساس نہ کیا تو ممکن ہے انتشار کی حدت ان ''نرم ہاتھوں'' کو جھلسانہ شروع کردے جن کے دستر خوان تو انواع اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں لیکن عوام کو مشورہ ''ایک روٹی'' کھانے کا دیتے ہیں۔
پاکستان دنیا بھر میں دودھ، آم، پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جب کہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپین یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی بندرگاہوں کا شمار دنیا کی بڑی پورٹس میں ہوتا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کا گیٹ وے ہے۔
اس لحاظ سے تو ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونا چاہیے، برآمدات، توانائی کی پیداوار، جی ڈی پی، صنعتوں کی ترقی، تعلیم اور صحت سمیت ہر حوالے سے ہمارا شمار کم از کم 20 ٹاپ ممالک میں ہونا چاہیے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے حوالے سے ہم دنیا میں 142ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اربوں روپے کی خیرات دی جاتی ہے ، لیکن ٹیکس نہیں دیا جاتا۔
تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری کی روک تھام کا روڈ میپ پیش کریں، بجلی کے شعبے کی اصلاحات اور قلیل، وسط اور طویل مدتی پلان پیش کیا جائے۔
بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو عوام کے ساتھ نا انصافی کی علامت ہے۔
عوام بجلی کے بھاری بلز کی وجہ سے بلبلا اٹھے ہیں، پورے ملک میں مظاہرے اور احتجاج جاری ہے، شہروں اور قصبوں میں لوگ بل نہ ادا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میں لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں، راستے بلاک کیے جا رہے ہیں اور بجلی کے بل نذر آتش ہو رہے ہیں۔
بجلی کمپنیوں کا اضافی یونٹ بلز میں شامل کرنا، بجلی چوری کا تدارک نہ کرنا، سرکاری افسروں اور ملازمین کومفت بجلی کے کروڑوں یونٹ کی تقسیم اور بد عنوانی کی شکایات پر حکومت اور بجلی کمپنیوں کی بے حسی شہریوں میں غصے کی شدت بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔
کوئی بھی حکومت اس حوالے سے قابل عمل پالیسی متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامیوں اور ساری خرابیوں کا ملبہ عالمی مالیاتی ادارے پر گرا کر پاکستانی عوام کو گمراہ کرتی رہیں۔ بجلی کا بل محض بجلی کی قیمت نہیں ہے۔ بل میں چالیس فیصد رقم مختلف قسم کے ٹیکس کی مد میں ہے۔ سلیب سسٹم کے نام پر ایک پیچیدہ نظام مسلط کیا گیا ہے۔
صارفین اس سٹسم سے آگاہ نہیں ہیں، میٹر ریڈر کی ریڈنگ پر کوئی چیک نہیں۔ قانون پسند صارفین مہنگی بجلی سے پریشان ہیں ، بجلی چوری کرنے والوں اور سرکاری مراعات کے تحت مفت بجلی استعمال کرنے والوں کا بل بھی قانون پسند صارفین پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے ، ان حالات میں لوگوں کا غصہ بلا جواز نہیں۔ یہ پالیسی کہ ہر مراعات یافتہ طبقات کا بوجھ قانون پسند شہریوں پر لاد دو، کب تک چل سکتی ہے۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
بجلی چوری کرنے والے اور سرکاری مراعات کی مد میں مفت بجلی استعمال کرنے والے موج مستی کرتے رہیں جب کہ پورا بل ادا کرنے والے صارفین بجلی کے بل دینے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوجائیں، یہ سلسلہ کب تک چل سکتا ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔
نگران حکومت کے چند دنوں میں ہی مہنگائی اپنی نئی حدوں کو چھو رہی ہے، ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ ہو گیا ہے، یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کا تھیلا مہنگا کر دیا گیا ہے۔
پٹرول، بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کوئی سوال کرے تو اسے یہی جواب ملتا ہے کہ حالات خراب ہیں ،عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے۔ جب حکومتی سطح پر ایسی بے بسی ہے تو عوام کی بے بسی کا عالم کیا ہوگا۔ کیا انھیں غیبی امداد کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مایوسی کے عالم میں عوام ایسے راستے اختیار کریں جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل غم سے بوجھل ہو جاتا ہے۔
بجلی کے مفت استعمال کے ساتھ دوسرا مسئلہ بجلی چوری کا ہے، پورے ملک میں دیدہ دلیری سے بجلی چوری کی جارہی ہے، یہ کام بااثر طبقہ کرتا ہے، خیبر پختونخوا،بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بجلی چوری کرنا معمول کی بات ہے۔
کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ حتیٰ راولپنڈی اسلام آباد میں بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں دھڑلے سے بجلی چوری ہوتی ہے۔مالی سال 2022-23 میں 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔
ایک اندازے کے مطابق رواں سال یہ نقصان 520 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں سال 380 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی جس میں سے 200 ارب روپے کنڈوں اور 80 ارب روپے میٹرز اور دیگر ذرایع سے چوری ہوئے۔ بجلی چوری کی وجہ سے وہ لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو بر وقت اپنے واجبات جمع کراتے ہیں۔ ان پر ماہانہ 220 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بجلی کمپنیوں کو کھپت میں کمی اور اس کے نتیجے میں اضافی صلاحیت پر اٹھنے والے اخراجات صارفین کو منتقل کرنے کے ایک شیطانی چکر میں ڈال دیا ہے۔
چاروں صوبوں میں لگ بھگ دو سو وزرا، مشیران اور معاون خصوصی ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت نے صرف وفاق میں پچاسی افراد کی کابینہ بنا رکھی تھی۔
ان میں سے ہر ایک کو ماہانہ ایک ہزار سے تین ہزار یونٹ تک مفت بجلی ملتی رہی۔ کئی شعبوں کے سربراہ بلوں کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ سب لوگ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے کی تنخواہ و دیگر مراعات پاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ مفت کی بجلی کا بے دردی سے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ہماری اشرافیہ کے بارے میں عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے سفارت کار یہ بھی یہ کہتے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتے مگر پاکستانی عوام کے ٹیکسوں اور غیرملکی قرضوں سے عیاشیاں کرتے ہیں ، پاکستان کے لیے کئی امدادی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان میں جاگیردار، درگاہوں، مدارس چلانے والے سیاسی علما اور سیاسی گدی نشین ، پیر اور کارپوریٹ مالکان پر مشتمل ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیوں کہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی کاروباروں کے لیے سالانہ 1.7 ارب ڈالرز کی مراعات دی گئیں۔ یہ مراعات زمین، سرمائے اور انفرااسٹرکچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں میں چھوٹ کی صورت میں دی گئیں۔
کچھ دن جاتے ہیں سینیٹ نے مالیاتی (ضمنی) بل 2023 کے ذریعے ٹیکس اور ڈیوٹیز سے متعلق بعض قوانین میں ترمیم کے لیے بل کی سفارشات کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور ایوان میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کے لیے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10 لاکھ روپے ملتے ہیں، بجلی ، پٹرول اور فون کی مد میں بھی مراعات ملتی ہیں حالانکہ پاکستان جیسے غریب ملک میں سرکاری عمال کے لیے اس لگژری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
وزراء اور دیگر سرکاری عہدے دار سرکاری بلٹ پروف لگژری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ، جب کہ 'دیگر بڑے افراد' کے پاس ایسی لگژری اور بھاری گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔
کیا پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو بھی کوئی یہ احساس دلا سکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پاکستان میں انارکی اور بدامنی کو جنم دے رہی ہے ۔
حالات اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ حکمرانوں نے حالات کی سنگینی کا احساس نہ کیا تو ممکن ہے انتشار کی حدت ان ''نرم ہاتھوں'' کو جھلسانہ شروع کردے جن کے دستر خوان تو انواع اقسام کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں لیکن عوام کو مشورہ ''ایک روٹی'' کھانے کا دیتے ہیں۔
پاکستان دنیا بھر میں دودھ، آم، پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جب کہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپین یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی بندرگاہوں کا شمار دنیا کی بڑی پورٹس میں ہوتا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کا گیٹ وے ہے۔
اس لحاظ سے تو ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونا چاہیے، برآمدات، توانائی کی پیداوار، جی ڈی پی، صنعتوں کی ترقی، تعلیم اور صحت سمیت ہر حوالے سے ہمارا شمار کم از کم 20 ٹاپ ممالک میں ہونا چاہیے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے حوالے سے ہم دنیا میں 142ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں اربوں روپے کی خیرات دی جاتی ہے ، لیکن ٹیکس نہیں دیا جاتا۔