وہ کہاں ہم کہاں
ہمارے سیاستدان ملک و قوم کے مفادات پسِ پشت ڈال کر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے باہم دست و گریباں ہیں
سکوتِ مشرقی پاکستان کے عبرت ناک سانحہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں سے ہمیشہ کے لیے چوکنا ہوجاتے اور اُن اسباب کا جائزہ لیتے جن کی وجہ سے یہ انتہائی المناک سانحہ پیش آیا تھا۔
ہمارے سیاستدان ملک و قوم کے مفادات پسِ پشت ڈال کر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے باہم دست و گریباں ہیں اور کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹَس سے مَس ہونے کے لیے راضی نہیں ہے اور معاملات افہام و تفہیم کے ذریعہ حل ہونے کے بجائے روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے ہیں۔
جہاں تک ہمارے سیاستدانوں کا تعلق ہے تو وہ ہر وقت اصیل مرغوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں اور کسی میں بھی سیاسی بلوغت اور بصیرت سِرے سے ہی موجود نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھیں ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہے اور ان کا شوق سرکاری خرچ پر بیرونی ممالک کے سیر سپاٹے کرنا ہے۔
ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سب کے سب نے اپنے چہروں پر مکھوٹے چڑھا رکھے ہیں تاکہ کسی کو اُن کے اصل چہرے نظر نہ آئیں۔ واردات کرنا سب کا محبوب مشغلہ ہے بس طریقہ واردات میں فرق ہے۔ ان کا دین دھرم پیسہ کمانا ہے اور بیرونِ ملک جائیدادیں بنانا اور دولت کے ڈھیر لگانا ہے۔ ملک کنگال ہو رہا ہے اور ان کی طمع کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔
اِس وقت ہمیں ایک بہت پرانی فلم یاد آرہی ہے جس کا نام تھا '' ہم سب چور ہیں۔'' سیاست کیا ہے؟ میوزیکل چیئرزکا ایک کھیل ہے جس میں ہر کھلاڑی باری باری سے آکر بیٹھ جاتا ہے۔ عوام بیچارے کریں بھی تو کیا کریں۔ ملک میں عام آدمی جیسی کوئی پارٹی نہیں جو عام آدمی کے دکھوں کا مداوا کرسکے۔سیاست جسے کبھی عبادت اور خدمت کا درجہ حاصل ہوا کرتا تھا، اب باقاعدہ کاروبار بن چکی ہے۔
الیکشن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اِس سے کمائی ہوئی دولت سے محلات خریدے جاتے ہیں۔الیکشن کوئی کھیل نہیں ہے جس میں قوم کے خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت بے دریغ خرچ کی جاتی ہے اور بیچارے عام آدمی کے حالاتِ زندگی سنورنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک تحریک بھی چلائی گئی تھی جس کا نام تھا '' قرض اُتارو ملک سنوارو۔'' یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک کا دمڑی بھر قرض اُترنے کے بجائے مزید قرضوں کا بوجھ آن پڑا تھا اور آنے والا ہر نوزائیدہ بچہ کم و بیش دو لاکھ روپے کا قرض سَر پر اٹھائے ہوئے پیدا ہو رہا ہے۔
ایک اور وزیرِاعظم نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار کی گدی سنبھالی تھی لیکن تبدیلی سرکارکی کارگزاری بھی سب کے سامنے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ الیکشن کب ہوتے ہیں یا ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔یہ ہے ہمارے ملک کا حال اُدھر ہمارے پڑوسی ملک میں سب کچھ حسبِ معمول ٹھیک ٹھاک جا رہا ہے۔
الیکشن شیڈول جاری کیا جاچکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں ملک کی بہتری کا ہدف سامنے رکھ کر اپنے اپنے انداز میں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے فرائض بخیر وخوبی انجام دینے کا منتظر ہے اور تمام انتظامات احسن طریقہ سے کیے جا رہے ہیں۔
بھارت میں جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اُترے بغیر اپنا سفر باحفاظت طے کر رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دیش ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اُس کا امیج عالمی برادری میں بہتر سے بہتر ہو رہا ہے۔
تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ بھارت چاند پر جا پہنچا ہے جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آیندہ عام انتخابات کے بارے میں کسی فیصلہ پر بھی نہیں پہنچ سکے۔ بھارت کی یہ کامیابی معمولی نہیں بلکہ ایک انتہائی غیر معمولی پیش رفت ہے۔اِس کامیابی کی پشت پر مسلسل جدوجہد اور عزمِ محکم ہے۔
اِس کامیابی کے بعد بھارت دنیا کا وہ چوتھا ملک ہے جس نے خلاء کو مسخر کر کے اپنی عظمت کا لوہا منوا لیا ہے۔ اِس سے قبل بھارت نے دو مرتبہ اِس کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اُس کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔
بلاشک و شبہ اِس کامیابی کا سہرا بھارت کے سائنسدانوں کے سَر ہے۔ سارے بھارت میں اِس کامیابی کا جشن بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے اور کیوں نہ ہو اِس کامیابی نے اقوام عالم میں اُس کا سَر فخر سے بلند کردیا ہے۔
بھارت کے اِس کارنامہ پر ایک خطیر رقم خرچ ہوئی ہے جو کہ وہی افورڈ کرسکتا تھا۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم قرضوں کی ادائیگی تو کُجا اُن پر سُود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینے پر مجبور ہیں۔